ہندی سینما اور طوائف

سماجی سائنسدانوں کا ماننا ہے کہ انسانی معاشرے میں جسم فروشی کے پیشے نے ذاتی ملکیت کے تصور اور پدر شاہی سماجی نظام کی کوکھ سے جنم لیا ہے. طوائف کو تقریباً ہر انسانی سماج کے مردوں نے دن کی روشنی میں دھتکارا اور رات کی تاریکی میں گلے سے لگایا.طوائف , اس کی زندگی , احساسات , جذبات , دنیا کو دیکھنے کے نکتہِ نظر اور سماج میں اس کے مقام کو دنیا کی تقریباً تمام زبانوں کے ادب کو متاثر کیا اور اس موضوع پر خوبصورت اور غلیظ دونوں قسم کے ادب تخلیق کئے گئے. اردو ادب میں بھی طوائفوں کو لے کر متعدد ادب پارے تخلیق کئے گئے , سعادت حسن منٹو تو اس کوچے کے “بدنام ترین آوارہ گرد” ہیں. سینما کا تعلق بھی چونکہ سماج اور ادب سے ہے اس لئے فلم سازوں کا اس پیشے سے منسلک اسرار , گندگی , منافقت اور درد و الم سے متاثر ہونا اور اس موضوع پر فلمیں بنانا کوئی انوکھی شے نہیں.
ہندوستانی سینما نے اپنے قیام کے چند سالوں بعد ہی اس موضوع کی جانب توجہ دینی شروع کردی. میری معلومات کے مطابق اس موضوع پر پہلی فلم 1928 کی خاموش فلم”وشو موہنی” ہے جو سردار چندو لال شاہ اور مس گوہر کی تخلیق ہے. اگر اس فلم سے پہلے بھی کوئی فلم بنی ہے تو میں لاعلم ہوں.”وشوموہنی” میں گوہر نے تین بہنوں کا کردار نبھایا ہے. اس کے بعد طوائف اور اس کا کوٹھا ہندی سینما کا حصہ بنتے گئے اور اس کے مختلف پہلوؤں کو فنی چابکدستی کے ساتھ صاف ستھرے اور سلجھے ہوئے انداز میں پیش کیا گیا تاہم یہ امر بھی ملحوظِ خاطر رہے طوائف کو گلیمرائز کرکے فلموں کی صورت مارکیٹ میں بیچنے کی کامیاب و ناکام کوششیں بھی کی گئیں ہیں. زیرِ نظر موضوع طوائفوں پر مبنی صحت مند و سنجیدہ فلموں سے متعلق ہے لیکن آخر میں چند ایسی فلموں کے نام بھی دیے گئے ہیں جن میں صرف منافع سے مطلب رکھا گیا ہے.
طوائفوں پر مبنی جن فلموں کا تعارف دیا گیا ہے یہ وہ فلمیں ہیں جو میری نظر سے گزری ہیں اس لئے قوی امکان ہے کہ ان کے علاوہ بھی اچھی فلمیں موجود ہوں سو اس فہرست کو حتمی نہ سمجھا جائے.
1۔آدمی ۔۔پربھات فلمز کے بینر تلے 1939 کی فلم”آدمی” لیجنڈ ہدایت کار وی شانتا رام کی تخلیق ہے. اس فلم کو ہندی سینما میں ایک انقلابی قدم کا درجہ دیا جاسکتا ہے جس نے مدتوں تک فلم انڈسٹری کو اپنے سحر میں باندھے رکھا اور متعدد فلموں میں اس فلم کے مکالموں اور مناظر کی کاپی کی گئی ہے.اس فلم میں عورت کی مجبوری , محبت , بے بسی , لاچاری اور دکھ کو متاثر کن انداز میں پیش کیا گیا ہے. سماج اور اس کی بے رحم اقدار و روایات ایک عورت (شانتا ہبلیکر) کو طوائف بننے پر مجبور کرتے ہیں. طوائف بنتی عورت کو ایک پولیس کانسٹیبل (شاہو مودک) سے محبت ہوجاتی ہے , طوائف کی بے غرض نسائی محبت سے مرد کی زندگی بدل جاتی ہے اور وہ اس سے شادی کرلیتا ہے. طوائف سے شادی؟ ۔۔۔ چھی! اس سماجی”چھی” سے فلم اپنے کلائمکس کی جانب بڑھتی ہے.مرکزی کرداروں کے علاوہ معاون اداکاروں میں سندری بائی , رام مراٹھے اور الہاس نے فلم میں لاجواب اداکاری کے جوہر دکھائے ہیں.
2۔پرکھ۔۔ہندی سینما میں سہراب مودی کا ایک منفرد مقام ہے , اسی طرح ان کی ہدایت کاری کے شاہکار”پرکھ”کی بھی سماجی موضوعات پر بننے والی فلموں میں ایک الگ حیثیت ہے.1944 کی”پرکھ” ایک طوائف کی ماں کی بے بسی اور ناامیدی کی کہانی ہے جسے انتہائی باریکی کے ساتھ دردناک انداز میں پیش کیا گیا ہے. اس فلم کو اگر اداکارہ مہتاب کی بہترین فلم قرار دیا جائے تو شاید ہی غلط ہو.
3۔انہونی۔۔معروف سوشلسٹ دانشور خواجہ احمد عباس کی فلم”انہونی” دو بہنوں کی کہانی ہے جن میں سے ایک مہذب گھرانے کا فرد ہے جبکہ دوسری حالات کے جبر کے باعث طوائف بن جاتی ہے. دونوں بہنوں کے متضاد کرداروں کو نرگس نے بڑی خوبصورتی سے نبھایا ہے.دونوں بہنوں کو ایک غریب اور اصول پسند وکیل راج کپور سے محبت ہوجاتی ہے , محبت , ہمدردی اور فتح و شکست کے تصورات کی آمیزش سے نفسیاتی کشمکش کا جنم ہوتا ہے. مختلف پسِ منظر کے حامل بہنوں کی متضاد زندگی اور طرزِ فکر کو جہاں خواجہ احمد عباس نے دلکش انداز میں فلمایا ہے وہاں نرگس نے اداکاری کے دریا بہادیے ہیں.اس فلم کی کہانی بھی خواجہ احمد عباس کی لکھی ہوئی ہے جبکہ اسکرین پلے محسن عبداللہ کے قلم سے نکلا ہے.
4۔پیاسا۔۔ہدایت کار و اداکار گرودت کی فلم “پیاسا” یوں تو ایک شاعر ( گرودت) کی کہانی ہے جو مردہ پرست سماج کے ہاتھوں بے قدری کا شکار ہے مگر یہ ایک طوائف کی بھی داستان ہے. طوائف کے کردار میں سنجیدہ اداکارہ وحیدہ رحمن , شاعر کے دکھوں کو اپنے دامن میں سمیٹ کر اس کی زندگی کے زہر کو خود پی جاتی ہے. اس فلم میں ساحر لدھیانوی کی نظم”جنہیں ناز ہے ہند پر وہ کہاں ہیں”کے ذریعے طوائفوں کو حوا , یشودھا , رادھا اور زلیخا کی بیٹی قرار دے کر ایک طرف مردانہ سماج کی منافقت پر گہرا طنز کیا گیا ہے تو دوسری جانب عورت کی بے توقیری کے مسئلے کو بھی سنجیدگی کے ساتھ پیش کیا گیا ہے.1957 کی اس فلم کو ہندی سینما سمیت دنیا بھر میں قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے.
5۔سادھنا۔۔عورت نے جنم دیا مردوں کو،مردوں نے اسے بازار دیا۔۔۔1958 کی فلم سادھنا سماجی موضوعات پر فلمیں بنانے کی شہرت رکھنے والے ہدایت کار بی.آر چوپڑا کی تخلیق ہے جس میں وجینتی مالا , سنیل دت اور لیلا چٹنس نے اداکاری کے رنگ بھرے ہیں.طوائف (وجینتی مالا) بازار میں بکنے کی بجائے شادی کرکے ایک عزت دار گھرانے کا فرد بننے کی خواہش رکھتی ہے. اس کی اس خواہش کو , خانہ دار خاتون بننے کی امنگ کو پدر شاہی سماج کس ڈھنگ سے دیکھتی ہے یہی اس فلم کا مرکزی خیال ہے.اس فلم پر وی شانتا رام کی فلم “آدمی”کے اثرات نمایاں ہیں. گوکہ”سادھنا” سماج اور طوائف کے پیچیدہ رشتے کا وہ گہرا تجزیہ پیش نہیں کرتی جو قبل ازیں”آدمی” پیش کرچکی ہے مگر اس تقابلی کمزوری کے باوجود یہ ایک بہترین سماجی فلم ہے جسے ساحر لدھیانوی کی کاٹ دار و دلربا شاعری نے اوجِ کمال تک پہنچادیا ہے.
6۔ممتا۔۔1966 کی بلاک بسٹر فلم “ممتا” بنگالی ناول “اتر پھالگنی”سے ماخوذ ہے جسے بنگالی ہدایت کار اسیت سین نے فلم کے قالب میں ڈھالا ہے. فلم کے مرکزی کرداروں میں سچترا سین , اشوک کمار اور دھرمیندر نمایاں ہیں. فلم میں سچترا سین نے ڈبل رول یعنی ماں اور بیٹی کے کرداروں میں فلم کو امر بنادیا ہے.یہ ایک غریب عورت کی کہانی ہے جس کا باپ مالی پریشانیوں کی وجہ سے اس کی شادی ایک بدقماش آدمی سے کرادیتا ہے. عورت اپنی بیٹی کو سماجی غلاظت سے دور رکھنے کے لئے خود کو بازار میں بکنے کے لئے پیش کردیتی ہے. سماج اور طوائف ماں کی ممتا سے نمو پاتی یہ کہانی ؛ ہدایت کاری , موسیقی اور اداکاری کے باعث پراثر فلم بن جاتی ہے.
7۔چیتنا۔۔1970 کی فلم”چیتنا” ایک منہ پھٹ طوائف (ریحانہ سلطان) کی داستان ہے جسے بظاہر تہذیب و تمدن سے کوئی سروکار نہیں. اس فلم کو بابو رام اشارہ نے ہدایت دی ہے. شتروگھن سنہا کے توسط سے اس کی ملاقات نوجوان انیل دھوَن (معروف ہدایت کار ڈیوڈ دھون کے چھوٹے بھائی) سے ہوجاتی ہے. انیل دھون لڑکی کی محبت میں گرفتار ہوکر اس سے شادی کا خواہش مند ہوجاتا ہے. مرد کی محبت سے مغلوب ہوکر عورت بھی مستقبل کے سہانے سپنے بننے لگتی ہے مگر شیشے کے یہ سپنے حقیقت کے پتھروں سے اس وقت چکنا چور ہوجاتے ہیں جب عورت پر کھلتا ہے کہ وہ حاملہ ہے اور بچہ اس کے محبوب انیل کی بجائے کسی اور کا ہے. اپنے محبوب کو سماج میں سر جھکا کر جینے سے بچانے کے لئے عورت خودکشی کرلیتی ہے.ماننا پڑے گا ریحانہ سلطان نے اس کردار کو نبھانے میں جان لڑادی ہے. فلم کے بعض مناظر کافی بولڈ ہیں جو شاید ہمارے سماج میں فیملی کے ساتھ دیکھنے کے قابل نہ ہوں.
8۔دستک۔۔ہم ہیں متاعِ کوچہ بازار کی طرح،اٹھتی ہے ہر نگاہ خریدار کی طرح۔۔۔مجروح سلطان پوری کے بول اور لتا منگیشکر کی آواز سے سجی سنوری “دستک” 1970 کی وہ دوسری فلم ہے جس میں ریحانہ سلطان نے اپنی اداکاری کا لوہا منوایا ہے.”دستک” اردو زبان کے معروف افسانہ نگار راجندر سنگھ بیدی کی لکھی ہوئی کہانی ہے جسے انہوں نے خود بڑی فنکاری و پرکاری سے ہدایت دی ہے. فلم ایک مسلمان نوبیاہتا جوڑے (ریحانہ سلطان اور سنجیو کمار) کے گرد گھومتی ہے جو بازارِ حسن میں کرائے کا گھر لیتے ہیں , اتفاق سے وہ گھر بھی ایک طوائف کا کوٹھا ہوتا ہے. بازار کے خریدار بیاہتا عورت کو بھی ایک طوائف سمجھ کر اسے اشارے کرتے ہیں اور اس کے گھر میں تانک جھانک کرتے ہیں. اس صورتحال کے باعث میاں بیوی جس اذیت سے گزرتے ہیں وہ فلم کی جان ہے. بیدی نے طوائفوں کی زندگی کی بڑی زبردست عکاسی کی ہے. سنجیو کمار اور ریحانہ سلطان کی کیمسٹری بھی خوب ہے.
9۔پاکیزہ۔۔ 1972 کی فلم پاکیزہ1939 کی آدمی کے بعد ایک دوسرا انقلابی قدم ہے. یہ فلم نہیں بلکہ مصوری کا شاہکار ہے , حسن کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر ہے. کہانی , مکالمے , موسیقی , گیت , مجرے , اداکاری اور ہدایت کاری سمیت فلم ہر شعبے میں بے داغ ہے.نوابی عہد کی منافقت اور عورت کو طوائف بننے پر مجبور کرنے والے نام نہاد اعلی اقدار کی قلعی کھولتی اس فلم میں مینا کماری نے اپنی ساری زندگی کی فنکاری انڈیل دی ہے.”پاکیزہ” نہ صرف طوائفوں پر بننے والی سب سے بہترین فلم ہے بلکہ میرے نزدیک اسے ہندی سینما کی دس ناقابلِ فراموش فلموں میں بھی شمار کیا جانا چاہئے.
10۔امر پریم۔۔بانجھ پن کی وجہ سے گھر سے نکالی گئی عورت (شرمیلا ٹیگور) ایک عیار شخص (مدن پوری) کی چکنی چپڑی باتوں میں آکر کلکتہ کے کوٹھے کی زینت بن جاتی ہے. کوٹھے کے قریب رہنے والا بچہ طوائف میں مادرانہ جذبات جگا کر عورت کو ماں کے منصب پر فائز کردیتا ہے. ماں بیٹے کی یہ بے غرض محبت”امر پریم” بن جاتی ہے.طوائف کے کردار کو شرمیلا ٹیگور نے بڑی خوداعتمادی سے پیش کیا ہے. دیگر کرداروں میں راجیش کھنہ , مدن پوری , اوم پرکاش اور ونود مہرہ قابلِ ذکر ہیں. لیجنڈ ہدایت کار شکتی سامنت کی یہ فلم 1972 میں ریلیز کی گئی. فلم کے بعض گیت بالخصوص کشور کمار کی گلوکاری ایک عجیب سا سماں باندھ دیتے ہیں.
11۔پربھات۔۔1973 کی فلم”پربھات” کی ہدایت کاری سکندر کھنہ نے دی ہے. اس فلم میں ایک بدقماش نوجوان (روپیش کمار) بھولی بھالی معصوم لڑکی (جیا کوسلیا) کو شادی کا جھانسہ دے کر بازارِ حسن میں بیچ دیتا ہے. لڑکی اس دلدل سے نکلنے کی جدوجہد کرتی ہے اور اپنے نام نہاد شوہر کے دوبارہ آنے کی امید میں دنیا سے لڑتی ہے.اس فلم میں یوں تو ہر کردار نے اپنے کام سے انصاف کیا ہے لیکن روپیش کمار نے دلال کے کردار میں ڈوب کر اداکاری کی ہے بالخصوص ان کے پرلطف مکالمے اور ڈائیلاگ ڈلیوری اس فلم کی جان ہیں.
12۔آئینہ۔۔1977 کی فلم”آئینہ” کہانی ہے برہمن گھرانے کی ایک ایسی عورت ( ممتاز) کی جو اپنے گھر پر چھائے غربت کے بادل دور کرنے اور چھوٹے بھائی بہنوں کا مستقبل سنوارنے کے لئے جسم فروشی کا پیشہ اپنانے پر مجبور ہوجاتی ہے. گھر کے بگڑتے حالات جب سنور جاتے ہیں تو ایک دن گھرانے پر کھلتا ہے کہ بڑی بیٹی طوائف ہے , گھر کے مرد , طوائف بنتی عورت کو دھکے دے دے کر گھر سے نکال دیتے ہیں.مایہ ناز تامل ہدایت کار کے۔بالاچندر کی تخلیق کو ممتاز نے اپنی فطری اداکاری سے چار چاند لگادیے ہیں.قبل ازیں 1970 کی فلم “کھلونا” میں بھی ممتاز ایک ایسی طوائف کا کردار نبھاچکی ہیں جو ایک معزز گھرانے کے پاگل نوجوان (سنجیو کمار) کو اپنی توجہ اور محبت سے دوبارہ نارمل زندگی کی جانب لے آتی ہے. “کھلونا” کی کہانی چونکہ تکرار ہے اور اس میں ممتاز کی اداکاری بھی نسبتاً کمزور ہے اس لئے اس کو اس فہرست میں شامل کرنے سے جان بوجھ کر احتراز کیا گیا ہے.
13۔منڈی۔۔شبانہ اعظمی , سمیتا پاٹل , نصیر الدین شاہ , اوم پوری , سعید جعفری , کلبھوشن کھربندا اور دیگر باصلاحیت فنکاروں کی محفل کا نام ہے۔منڈی ہدایت کار شیام بینیگال اس محفل کے روحِ رواں ہیں جنہوں نے اردو زبان کے معروف افسانہ نگار غلام عباس کے افسانے “آنندی” کو دلفریب انداز میں 1983 کو”منڈی”کے نام سے سینما پر پیش کیا ہے.شہر کے”شرفا” کوٹھے کو شیطان کا مرکز مان کر اسے ویرانے میں منتقل ہونے پر مجبور کرتے ہیں.طوائف اس ویرانے میں مٹی کے ایک ڈھیر کو بابا کھڑک شاہ کی درگاہ میں بدل دیتی ہیں. کوٹھے اور درگاہ کے ملاپ سے ویرانے میں بہار آجاتی ہے اور چند سالوں بعد شہر کے شرفا آپس میں بیٹھ کر اس بحث میں الجھ جاتے ہیں کہ ایک مقدس درگاہ کے قریب کوٹھے کا وجود زائرین کے مذہبی جذبات کو مجروح کرنے کا باعث ہے. فلم میں بڑی صفائی سے سرمائے دار کو طوائف اور مذہبی جذبات کا استحصال کرتے دکھایا گیا ہے.شرفا کمیٹی کے چیئرمین کے جائز بیٹے اور ناجائز و طوائف بیٹی کے درمیان عشق و محبت گویا دوغلے مردانہ سماج کے منہ پر طمانچہ ہے.
14۔آستھا۔۔ہدایت کار باسو بھٹاچاریہ کو شہری مڈل کلاس جوڑوں کی پرتضاد زندگی کو سینما کے پردے پر کمال مہارت کے ساتھ دکھانے میں ملکہ حاصل ہے. 1997 کی فلم آستھا بھی ایک شہری مڈل کلاس گھرانے کی داستان ہے.مڈل کلاس پروفیسر امر (اوم پوری) کی بیوی مانسی (ریکھا) پرتعیش چیزوں کے حصول کا خواب دیکھتے دیکھتے جسم فروش بن جاتی ہے. مانسی کی جسم فروشی , پروفیسر امر کی روشن فکری اور طبقاتی سماج کی تکون کو بڑی باریکی اور فنکاری سے فلم کے قالب میں ڈھالا گیا ہے. باسو بھٹاچاریہ نے اپنی دیگر تخلیقات کی طرح اس فلم میں بھی علامتوں کا بھرپور اور ماہرانہ استعمال کیا ہے. ریکھا نے متعدد فلموں میں طوائف کے خوبصورت کردار نبھائے ہیں مگر اس فلم میں ان کا فن نقطہِ عروج پر دیکھنے کو ملتا ہے اسی طرح پروفیسر کے کردار سے اوم پوری نے بھی مکمل انصاف کیا ہے.
15۔چاندنی بار۔۔ہدایت کار مدھر بنڈارکر کی فلم چاندنی بار اداکارہ تبو کی چند بہترین فلموں میں سے ایک ہے. بار ڈانسر , گینگسٹر کی بیوی پھر دو بچوں کی ماں کے کرداروں کو تبو نے متاثر کن انداز میں پیش کیا ہے. یہ فلم 2001 کو سینما کے پردے پر پیش کی گئی.فسادات میں یتیم ہونے والی بھانجی کو ماما شہر لاکر بار ڈانسر کا پیشہ اپنانے پر نہ صرف مجبور کرتا ہے بلکہ ماموں بھانجی کے رشتے کو پامال کرکے اسے اپنی ہوس کا بھی نشانہ بناتا ہے. حالات بار ڈانسر کو گینگسٹر کی بیوی پھر بیوہ اور دو بچوں کی ماں بناکر بے رحم سماجی حالات اور کرپٹ سسٹم کے سامنے پھینک دیتے ہیں. طوائف ماں اپنے بچوں کو بہترین زندگی دینا چاہتی ہے مگر………سماج اور فرسودہ نظامِ سیاست اسے دوبارہ وہاں پہنچا دیتے ہیں جہاں سے اس نے یہ اذیت ناک سفر شروع کیا تھا.
16۔چمیلی۔۔کرینہ کپور کی فنی زندگی کا جب بھی تجزیہ کیا جائے گا مستقبل کا مورخ یقیناً فلم “چمیلی” کو کرینہ کپور کی سب سے بہترین پرفارمنس قرار دے گا. 2004 کی اس فلم کے ہدایت کار بنیادی طور پر آننت بالانی ہیں مگر شومئیِ قسمت وہ فلم کی تکمیل سے قبل ہی وفات پاگئے. آننت بالانی کی اچانک وفات کے بعد سدھیر مشرا نے باقی ماندہ فلم کو پایہ تکمیل تک پہنچایا.طوائف چمیلی (کرینہ کپور) اور ممبئی کے اپر مڈل کلاس نوجوان (راھول بوس) برسات کی ایک رات حادثاتی طور پر سڑک کنارے ایک جگہ مل جاتے ہیں. اس رات طوائف کے ساتھ گوں نا گوں حالات و واقعات پیش آتے ہیں جو مڈل کلاس شخص کے لئے حیرت انگیز جبکہ طوائف کی زندگی میں معمول کا درجہ رکھتے ہیں. حالات و واقعات اور ان پر کرینہ کپور کے تبصروں و مکالموں سے زندگی سے مایوس شخص دنیا کو ایک اور ڈھنگ سے دیکھنے لگتا ہے , طوائف کی نظر سے چیزوں کا تجزیہ کرتا ہے جس کے نتیجے میں اس کی بے رنگ زندگی بدل سی جاتی ہے.کرینہ کپور نے طوائف کے کردار میں خود کو اس طرح ڈھالا ہے کہ دوئی کا کوئی احساس ہی باقی نہیں رہتا. فلم کی زبردست سینما ٹو گرافی سونے پہ سہاگہ ہے.
ان فلموں کے علاوہ بھی طوائفوں پر مبنی یا طوائفوں کے کردار کے حامل بعض اچھی فلمیں موجود ہیں مگر چونکہ ان فلموں میں طوائفوں کا وہ مضبوط کردار ابھر کر سامنے نہیں آتا جو درج بالا فلموں کا خاصا ہے اس لئے ان کو اس فہرست میں جگہ نہیں دی گئی. ان فلموں میں”دیوداس” (تینوں ورژن) ,عدالت،مرزا غالب،محبوب کی مہندی،شرافت،امراؤ جانِ ادا،مقدر کا سکندر،جیت اور تلاش قابلِ ذکر ہیں.بعض فلمیں ایسی ہیں جن میں طوائف اور سماج کے رشتے کو بھونڈے طریقے سے بس کام چلاؤ انداز میں پیش کیا گیا ہے جبکہ کچھ میں اداکاری نہایت ہی کمزور ہے یا طوائف کی کہانی میں تکرار ہے یا اس میں کوئی دم نہیں. ان فلموں میں،مہندی،نرتکی،بے نظیر،ہنستے زخم،منورنجن،سہاگ،کالی شلوار،سلام بمبے،امراؤ جان ادا(ابھیشک بچن و ایشوریہ رائے) اور بیگم جانوغیرہ شامل ہیں.
ہندی سینما میں متعدد دفعہ ایسا بھی ہوا ہے کہ طوائف کو ایک بینک چیک سمجھ کر اسے گلیمر کی دنیا میں کیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے. ایسی ہر کوشش میں سماج میں طوائف کے مسئلے کو سنجیدگی کے ساتھ بیان کرنے کی بجائے اسے سینما کے پردے پر بیچا گیا ہے , ایسا زیادہ تر 80 کی دہائی اور اس کے بعد کی دہائیوں میں ہوا ہے. ان فلموں کی فہرست کافی لمبی ہے جن میں ،پتی پتنی اور طوائف،دلال،ہیٹ اسٹوری وغیرہ جیسی قابلِ نفرت فلمیں شامل ہیں.

Facebook Comments

ذوالفقارزلفی
ذوالفقار علی زلفی کل وقتی سیاسی و صحافتی کارکن ہیں۔ تحریر ان کا پیشہ نہیں، شوق ہے۔ فلم نگاری اور بالخصوص ہندی فلم نگاری ان کی دلچسپی کا خاص موضوع ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply