کون ہو تم؟
تمہارا نام کیا ہے؟
کہاں سے آئے ہو؟
کہاں جا رہے ہو؟
تم نے ٹکٹ خریدا ہے؟
اس کے پیسے ہیں تمہارے پاس؟
نیم شب ٹھٹھرتی رات کی گہری تاریکی میں یک طرفہ میرے اتنے زیادہ سوالات بے جا نہ تھے مگر اس کی آنکھوں میں شدید خوف، چہرے پر بے بسی کے آثار، لرزتا ہوا بدن اور کانپتی ہوئی زبان میں اتنی توانائی نہ تھی کہ کچھ کہہ پاتا
اس نے سردی سے بچنے کے لئے ناتواں اور ضعیف بدن کو ایک باریک سی چادر سے ڈانپ دیا تھا
“پیسے نہیں ہیں میرے پاس۔”
اس کی کپکپاتی زبان سے بس یہی ایک جواب نکلا
شاید اس کو اس وقت سب سے زیادہ ضرورت پیسوں ہی کی تھی یا شاید اس نے مجھے چور سمجھ لیا ہو اور خود کو لوٹنے سے بچانے کے لئے یہی کہہ دیا ہو لیکن وہ تو پہلے ہی لُٹ چکا تھا۔
اس کی عمر 14 سے 17 سال کے درمیان تھی ،وہ شہر چھوڑنے کے ارادے سے یہاں آیا تھا، میرے یکدم اتنے زیادہ سوالات پوچھنے سے وہ گبھرا چکا تھا، اسے محسوس ہوا کہ وہ ریل گاڑی میں بیٹھنے سے پہلے ہی پکڑا گیا ہے۔
وہ بار بار پیچھے کی طرف دیکھ رہا تھا جہاں ایک سنسان سڑک خالی پڑی ہوئی تھی۔
شہر سے باہر اسی سٹیشن پر عموماً رش نہیں ہوتا ،کبھی کبھار صرف دن ہی کے وقت ایک آدھا آدمی یا عورت ٹرین رُکنے سے اُترتے ہیں یا چڑھتے، ورنہ خیر خیریت۔۔
پچھلے کئی مہینوں سے کسی نے ایک بھی ٹکٹ اس سٹیشن کی ٹکٹ ماسٹر سے نہیں خریدی، پچھلی بار ایک خوبصورت لڑکی گھر سے بھاگ نکلی تھی، جس کو ہم نے بغیر ٹکٹ ٹرین میں جلدی ہی بٹھا دیا تھا،تاکہ وہ بھاگنے میں کامیاب ہو جائے ،اور رات کے وقت تو پچھلے بائیس سالوں سے جو ٹرین آتی ہے وہ صرف میری نیند ہی خراب کرنے کے لئے تیز ہارن بجا کر یہاں رکتی ہے، اس وقت کے سب ٹکٹ چیکروں کو میں نے بہت دفعہ سمجھایا بھی کہ بھائی یہاں جانے اور آنے کے لئے رات کا وقت کوئی نہیں ہوتا کیوں میری نیند خراب کرنے پر تُلے ہوئے ہو، مگر وہ بے چارے بھی سرکاری ملازمین مجبور ہیں، لیکن آج رات مجھے ایک سولہ، سترہ سالہ بچے کی آہٹ نے جگا دیا۔
ابھی ٹرین آنے میں چند ہی لمحے باقی تھے اور صبح ہونے تک طویل رات کی مسافت۔ اسی بیچ میں مَیں چاہتا تھا کہ اس چھوٹے بچے کی کہانی سنوں۔۔مگر کاش اس کے پاس کہانی ہوتی، اس نے چند ہی سیکنڈ میں ایک درد ناک حادثے کی روداد سسک سسک کر سنائی، جس سے ان جیسے کئی بچے گزر چکے ہیں۔
کہنے لگا
“میرا نام محمد حسن ہے
میرے باپ کا نام جمیل احمد ہے، اس نے میری ماں کو بھگا کر اس سے پسند کی شادی رچا لی ،میری تین بہنیں ہیں اور چار بھائی۔
تنگ دستی اور فاقوں سے تنگ آکر میرے باپ نے مجھے دو تین وقت کی روٹی بچانے کے لئے ایک دینی مدرسے میں بھیجا۔پہلے تو میں بہت خوش تھا دوسرے بچوں کے ساتھ گلیوں اور کوچوں میں وظیفے اکھٹے کرکے دو تین وقت کی روٹی پیٹ بھر کر کھا لیتا تھا لیکن پھر سبق سکھانے کے ساتھ ساتھ استاد نے میرے گال اور ماتھے کے ساتھ کچھ عجیب قسم کی ناشائستہ حرکتیں شروع کیں اور کئی اور طریقوں سے چھیڑنے لگے آہستہ آہستہ ان کے ہاتھ میری رانوں تک پہنچ گئے اور پھر ایک رات ۔۔۔ ”
وہ چُپ ہوکر خاموشی سے ہچکیاں لے لے کر رونے لگا، وہ رو رہا تھا اور میں مدرسے میں پڑھتے باقی بچوں کے بارے میں سوچنے لگا۔
داڑھی میں چھپے چہروں کے دلوں میں کتنے چور بیٹھے ہیں، غلیظ ذہنوں اور ہوس کے پنجوں میں کتنے بچے زیر تعلیم ہیں، واقعی محبت اور ہمدردی کا خزاں چل رہا ہے۔
میں نے اسے دیکھتے ہی اندازہ لگا لیا تھا کہ وہ لٹ چکا تھا بد فعلی کرتے وقت استاد نے اس کی عزت ہی نہیں لوٹی تھی بلکہ اس کا خدا پر ایمان اور بھروسا لوٹ لیا تھا۔
اب کہانی صرف سسکیوں تک پہنچ چکی تھی، کہ ٹرین کے تیز ہارن نے مجھے اور اسے چونکا دیا، کئی برس بعد میں نے رات والی ٹرین کی ایک مسافر کا ٹکٹ کاٹ کر اسے ٹرین میں بٹھا دیا مگر۔۔
دو دن بعد اسی لڑکے کے ساتھ ہاتھ میں کپڑوں کی تھیلی اور سر پر سفید ٹوپی کے ساتھ ٹرین سے اُترتے ہوئے دیکھا تو مجھے بھوکے پیٹ اور مجبوری کا اندازہ ہوا۔۔
اس نے ایک بار پھر درندوں کے چُنگل میں خود کو پیش کرنے کا ارادہ کیا تھا یا شاید اس کے ساتھ ہونے والے ظلم کی داستان سنے بغیر اسے پیش کیا گیا !
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں