گمانِ محبت / محمد جمیل آصف(6)

“یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِنْ جَآءَكُمْ فَاسِقٌۢ بِنَبَاٍ فَتَبَیَّنُوْۤا اَنْ تُصِیْبُوْا قَوْمًۢا بِجَهَالَةٍ فَتُصْبِحُوْا عَلٰى مَا فَعَلْتُمْ نٰدِمِیْنَ(6)
اے ایمان والو! اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لائے تو تحقیق کرلو کہ کہیں کسی قوم کوانجانے میں تکلیف نہ دے بیٹھو پھر اپنے کیے پر شرمندہ ہونا پڑے ۔”
علامہ امین فاروقی نے سورہ حجرات کی آیت کی تلاوت کی اور ترجمہ کیا۔۔۔
کچھ دیر ہال میں خاموشی چھا گئی سامعین کی نگاہیں سٹیج پر موجود معروف سکالر پر مرتکز تھیں ۔
” کسی بھی معاشرے کی فلاح ، ملک کی بقاء اور سلامتی کے لیے اس میں موجود تمام مختلف الخیال اکائیوں کی وحدت بنیادی کردار ادا کرتی ہے ۔بالخصوص جب آپ اسلامی معاشرے میں رہ رہے ہوں۔۔قرآن مجید اسی پہلو پر راہنما اصول بیان کرتا ہے سورہ حجرات اور سورہ نور معاشرے کی بقاء اور کسی شخص کی عزت و حرمت کے لیے راہنما اصول بیان کرتی ہے ۔”

علامہ امین فاروقی نے ہال پر نظر ڈالی اور بولے
” وہ راہنما اصول کسی بھی قسم کی خبر، افواہ اور بات کی تصدیق کا معیار ہے ۔بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں انتشار کی بنیادی وجہ قرآن مجید کے ان اصولوں کو نظر انداز کرکے ہر اس بات کو پھیلا دینا ہے جو نفرت کے  الاؤ کو مزید بھڑکا دے ،بدقسمتی سے ہم سب سوشل میڈیا پر بیٹھے ایسے تمام افراد جو فاسق کے مقام  پر پورا اُترتے ہیں انکی ہر بات پر یقین کر بیٹھتے ہیں اور بنا تصدیق اسے پھیلانا شروع کردیتے ہیں  جس سے معاشرے میں رہنے والے اکثر طبقات پر ہیجان کی کیفیت پیدا ہوتی ہے جس کے گھریلو، معاشی اور سماجی طور پر دور رس مضر  نتائج نظر آتے ہیں ۔”

مختلف شعبہ جات سے تعلق رکھنے والے احباب اپنے خیالات اور تجربات کا اظہار کرتے جا رہے تھے ۔اس موضوع پر ایک سیر حاصل گفتگو سامنے آ رہی تھی ۔جب معاشرے میں سیاسی تناؤ نے واضح نفرت کے الاؤ کو بھڑکا رکھا تھا۔ ایسی پروگرام ایک ٹھنڈی ہوا کے جھونکے کی مانند تھے ۔

اریج حساس طبعیت کی حامل ہونے کے باعث انسانی رویوں اور ان پر ہوتی گفتگو سے نتائج اخذ کرتی پھر انہیں گفتگو کا موضوع بناتی ۔
کچھ سوالات اس کے ذہن میں امڈ آئے اور خطاب سے مخاطب ہوئی ۔ہال میں مقررین کی تقاریر کے دوران اس نے سرگوشی کی ۔اور سوالیہ انداز میں کہنے لگی ۔
” خطاب  تمھیں علم ہے مجھے کس شخص سے زیادہ ڈر لگتا ہے؟”

اس بے موقع گفتگو پر خطاب حیران ہوا جب ہال میں بڑے اہم موضوع پر بڑی علمی گفتگو ہو رہی تھی ۔
“مجھے علم نہیں، آپ ہی وضاحت کر دیں؟ ”
پھر اریج کی طرف دیکھنے لگا ۔

“جو شخص کچے کانوں کا ہو”

خطاب کو لگا گویا مختصر الفاظ میں پوری کانفرنس کو سمیٹ دیا ہو ۔

“” ہاں یہ تو ہے بندر کے ہاتھ ماچس والا معاملہ ہوتا ہے ایسے فرد کا ”

خطاب نے جواب دیا اور کہا کہ سیمینار کی گفتگو نوٹ کرتی جاؤ مباحثہ میں کام آئے گی ۔
” حالیہ  سیاسی تناؤ میں ماچس کس کے ہاتھ میں ہے؟”

اریج کے سوال نے ایک آئینہ کی صورت بیشتر کردار کی شبیہوں کو سامنے لا کھڑا کیا جس کی بنا پر ملک عزیز میں نفرت در نفرت کی تہیں یکے  بعد  دیگرے بنتی، ابھرتی اور اپنا اثر چھوڑتی نظر آتی رہیں ۔لیکن ماضی میں ان کا حلقہ اثر محدود علاقائی، لسانی یا مسلکی حد تک مگر اب یہ خلیج معاشرے کے ہر طبقے کے اندر گہرائی تک سرایت کر چکی تھی ۔ بنیادیں اتنی گہرائی تک جا پہنچیں، اذہان اس حد تک متاثر ہو چکے تھے جیسے ان کی سوچنے کی صلاحیتوں کو کسی ساحر نے اپنی مٹھی میں مقید کر لیا ہو ۔

وہ مٹھی اور اس مٹھی کو مضبوط کرنے والے چہرے بے نقاب ہو رہے تھے ۔ریاست ناقابل تلافی نقصان کے بعد اب مزید کسی نقصان سے بچنے کی تگ و دو میں مصروف تھی ۔۔

“ذاتی مفادات ریاستی مفادات سے بھی اوپر ہو جاتے ہیں ۔؟
کیا ان مفادات کی تکمیل کے لئے ریاست کے آئینی، نظریاتی اور فکری ڈھانچے کو بھی داؤ پر لگا دینے کا حوصلہ رکھنے والے افراد اب بھی موجود ہیں؟”

یہ سوالات خطاب کے ذہن میں گردش کرنے لگے جس کے لیے تلخ تاریخ پر نظر ڈالنا ضروری ہے ۔بالخصوص دس سال پہلے کے بعد والے حالات جس سے سیاسی منظر نامہ حقیقت سے عقیدت کے گرد گردش کرنے لگا ۔

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply