خوابوں کو زنجیر کردو

خوابوں کو زنجیر کردو
ثمینہ رشید
کچھ تصویریں ایسی ہوتیں ہیں کہ ان کو الفاظ میں بیان کرنے کا سوچیں تو ہاتھ لرز جاتے ہیں۔قلم کی سیاہی ساتھ چھوڑ جاتی ہے۔ درد لفظوں میں ڈھالنا آسان کام نہیں۔

اس تحریر کے ساتھ منسلک اس تصویر پہ نظر ڈالیں مسجد کے برآمدے میں بیٹھا یہ چھوٹا سا معصوم بچہ جس کے پیروں میں پڑی بیڑیاں جیلوں میں شاید صرف خطرناک ملزموں کو پہنائی جاتی ہوں۔ سر پہ سفید ٹوپی اور ملگجا سا سوٹ پہنے اس بچے کے چہرے پہ کئی ان کہی داستانیں رقم ہیں۔
آنکھوں میں خوف ہے، بے بسی ہے یا اپنی تحقیر پہ ناراضی، فیصلہ مشکل ہے۔
پس منظر میں قرآن ایک رحل پہ رکھا نوحہ کناں ہے۔
پیار کرنے والے رب کے ناموں کو بار بار دہرانے والا مصحف اور ظلم و نفرت کی عکاس یہ تصویر۔

جب اس تصویر کو پہلی مرتبہ دیکھا تو میں گھر سے اپنے آٹھ سالہ بیٹے کو لینے کے لئے مسجد جانے والی تھی۔ اس بچے کی تصویر کو ذہن میں لئے مسجد پہنچی تو اوپری منزل پہ واقع مدرسے کا داخلی دروازہ کھلنے ہی والا تھا۔ اگلے چند منٹوں میں چمکتے چہرے لئے بچے مسجد سے نکلنے لگے۔ کاندھے پہ نیلے رنگ کے بیگ سنبھالے ہنستے مسکراتے بچے اپنے والدین کو دیکھ کر لپک کے ان کے پاس پہنچتے۔ چھ گھنٹے سے زائد اسکول میں گزار کر مدرسے آنے کے بیچ اِن بچوں کے پاس بمشکل ڈیڑھ گھنٹہ ہوتا ہے جسمیں کپڑے تبدیل کرنے، کھانا کھانے اور تھوڑی دیر ٹی وی دیکھنے کے بعد وہ مدرسے کا رُخ کرتے ہیں۔ اس کے باوجود ان کے ذہن میں مدرسے یا اسکول سے چھٹی کرنے کا کوئی جھوٹا بہانہ نہیں آتا۔ اور آئے بھی کیوں مدرسہ ہو یا اسکول بچوں کو دونوں ہی جگہوں پر جو پیار محبت اور اپنائیت ملتی ہے وہ انہیں جھوٹ بولنے کا سوچنے ہی نہیں دیتی۔
شاید آپ کو لگے کہ یورپ میں رہنے کی وجہ سے انہیں یہ ماحول میسر ہے۔ لیکن میرا خیال اس سے بے حد مختلف ہے۔
مدرسے یا اسکول میں پڑھانے والہ اور پڑھنے والا چاہے پاکستان میں ہو یا لندن میں بچوں سے پیار محبت سے پیش آنے کے لئے کون سی کرنسی درکار ہے؟
بچوں کی بھی عزت نفس ہے اور اس کی پاسداری ہم والدین اور استادوں کا بنیادی فریضہ ہے ۔ اس کو سمجھنے کے لئےکون سی آکسفورڈ یا ہارورڈ کی ڈگری درکار ہے؟
بچوں کو پیار سے پڑھانا ان کی بات سننا اور ان کو اہمیت دینے کے لئے ہمارے مدرسے اور ٹیچرز کو کون سی اسپیشل ٹریننگ درکار ہے؟
جو والدین بچوں کو دنیا میں لانے کے ذمے دار ہوتے ہیں ان کا پہلا فرض بچوں کو تحفظ اور پیار دینا اور پھر دوسری ضروریات کی فراہمی ہے۔
گھر میں اگر صرف دال روٹی میسر سہی، سر پہ پڑی غربت کی چادر ہی سہی، لیکن یہ غربت پیار اور تحفظ کی چادر کو کیوں چھوٹا کردیتی ہے؟
کم پیسوں کی کڑواہٹ آپ کی زبان میں کیوں منتقل ہو جاتی ہے اور وہ بھی اپنے ہی بچے کے لئے؟
سر پہ ٹوپی پہنا کہ اور ہاتھ میں سیپارہ دے کر گھر سے نکلنے والے آپ کے بچے کو دو گھڑی آپ کا ساتھ میسر کیوں نہیں؟
کیا غربت اس میں بھی حائل ہے؟
کیا یہ بھی حکومت کے فراہم کرنے کی ذمہ داری ہے؟
اور یہ سب کچھ غربت سے ہی منسلک سوالات نہیں ہیں۔ اچھے گھروں میں اور اسکولوں میں پڑھنے والے بچے بھی ماں باپ کی توجہ سے محروم نظر آتے ہیں۔
جب ساتویں اور نویں کلاس کی بچے خودکشی کرنے لگیں تو معاشرے کو سوچنا چاہئیے کہ مارننگ شوز میں مگن ہمارے مائیں بچوں کو کوالٹی ٹائم دے بھی پا رہیں ہیں یا نہیں۔
شاپنگ سینٹرز اور برانڈد کپڑے خریدنے میں مصروف ماں باپ کو بھی سوچنے کی سخت ضرورت ہے کہ تن کی ضرورتیں تو بخوبی پوری کردی گئیں کیا محبت اور توجہ کے برانڈ کو بھی قابلِ توجہ سمجھا گیا؟
زنجیر پہنے یہ بچہ آپ کے اور منہ پہ ایک طمانچہ ہے ایک سوال ہے۔ کیا آپ اس سوال کا جواب دینے کو تیار ہیں؟
نہیں ۔۔۔۔ تو کل جب مدرسوں سے ننھے پھولوں کی لاشیں ملیں۔ سڑکوں پہ ایڈونچر کے نام پہ اسٹریٹ کرائم کرتا کوئی امیر ذادہ نظر آئے یا گلیوں بازاروں میں اللہُ اکبر کا نعرہ لگاتا کوئی خودکش بمبار آپ کے پیاروں کو ناقابل تلافی نقصان پہنچائے تو کسی را کے ایجنٹ سے پہلے اپنے گھر میں بھی جھانک لیجئیے گا۔
یہ نفرت، بے توجہی اور اور ان بچوں کو اس طرح نظر انداز کرنے میں آپ کا ہاتھ تو نہیں؟
کیا جب آپ نے اس طرح کے ظلم ہوتے دیکھے تو ان کو روکنے کے لئے کچھ کیا؟
یا حلب کے شہید بچوں کے لئے فیس بک اسٹیٹس لکھنے میں مصروف رہے۔ اپنے گھر میں آگ لگی ہو تو دوسرے محلے میں کسی کی جان بچانے کا سوچنے سے پہلے اپنے گھر پہ نظر کیجئیے۔
یہ کوئ الجبرا کا سوال نہیں بہت سادہ حقیقت ہے جن کا سامنا ہم سب کو ہے۔
دوستو سوال اُٹھانا اور توجہ دلانا میرا فرض۔ آپ کو کیا کرنا چاہئیے یہ ہمیشہ کی طرح آپ پہ چھوڑتی ہوں۔
بلا عنوان
خار تم اُگاتے ہو
اور خواب پھولوں کے؟
بیج درد کے بو کے
خواہشیں محبت کی؟
آنکھ میں نمی دے کر
مسکراہٹیں چاہو؟
بے توجہ چہروں پہ
پیار کی چمک ڈھونڈو؟
نفرتوں کی فصلوں پہ
گل کہاں پہ کھلتے ہیں
نفرتیں کے پودوں سے
نفرتیں ہی پاؤ گے
درد جب اُگاؤ گے
درد ہی سمیٹو گے

پھولوں اور ستاروں کے
خواب دیکھنے والوں
پہلے اپنے آنگن میں
پیار کی فصل سینچو
سہمے ہوئے چہروں پہ
بارشیں توجہ کی
بنجر ان کی آنکھوں میں
خواب دو ستاروں کے
پھر یقین بھی کرلینا
پیار کی فصل سے تم
پیار ہی سمیٹو گے
تارے جب سجاؤ گے
روشنی ہی پاؤ گے

Advertisements
julia rana solicitors london

ثمینہ رشید

Facebook Comments

ثمینہ رشید
ہم کہاں کہ یکتا تھے، کس ہنر میں دانا تھے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply