بائیکاٹ/زید محسن جفید سلطان

قابض یہودی ریاست اور اس کے مددگاروں کی چیزوں کے بائیکاٹ کے حوالے سے عجیب اضطرابی کیفیت پائی جاتی ہے ۔ اور یہ اضطراب بے جا نہیں ہے ، بلکہ ہماری عادات و اطوار اور کثرتِ استعمال کی وجہ سے یہ اضطراب بر محل لگتا ہے۔
میں خود اس حوالے  سے کئی سوالات میں گِھرا ہُوا تھا اور اسی لئے کچھ لکھنے سے قاصر تھا۔۔ ابھی بھی جو کچھ لکھ رہا ہوں کافی لوگوں سے پوچھنے کے بعد لکھ رہا ہوں جس کا خلاصہ ایک جملے میں یہ ہے کہ:

“بائیکاٹ بہر حال ضروری ہے ، اور مؤثر بھی ہے”

جس کی تاثیر گزشتہ دنوں میکڈونلڈ کی طرف سے نکالے گئے تفصیلی بیانئے ، پیپسی کے اپنی بوتلوں پر فلسطین لکھنے اور اس طرح کے دیگر اقدامات سے سے بالکل واضح ہوجاتی ہے ، اور وہ باتیں دھری کی دھری رہ جاتی ہیں کہ: پیپسی ، میکڈونلڈ یا اس طرح کی کمپنیوں کے بائیکاٹ کا کیا فائدہ ، ان فرنچائز کے مالک تو ہمارے اپنے ہی مسلمان ہیں ، صرف پانچ یا دس فیصد ہی تو یہود تک جاتا ہے جو یقیناً نوے فیصد کے مقابلے میں کم ہیں ، کیا اس سے ملکی معیشت کو نقصان نہیں پہنچے گا؟ اور کون سا ہمارے بائیکاٹ سے انہیں کوئی نقصان پہنچے گا کیونکہ ان کی تو پوری دنیا میں فرنچائزز ہیں، اس طرح کی تمام باتیں کرنے والوں کو یقیناً جواب مل گیا ہوگا کہ وہ اپنی پاکستان میں گنتی کی چند فرنچائزز کے ہونے کے باوجود مجبور ہوئے کہ تبدیلیاں اور وضاحتیں کرتے پھریں۔

اور یاد رکھیے گا کوئی بھی فرنچائز اونر اس وقت تک کوئی تبدیلی نہیں کر سکتا جب تک ہیڈ آفس سے اجازت (اپروول) نہ ملے ، اور تبدیلی ہو جانا ہی اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ ان کو تکلیف ہوئی ہے ، اور ویسے بھی یہ بات ذہن نشین رہے کہ
“یہود کی جان معیشت کے طوطے میں اٹکی ہوئی ہے ، جوں جوں آپ معیشت کے طوطے کی گردن مروڑیں گے یوں یوں یہ تکلیف زدہ ہوگا اور معیشت کی حفاظت کیلئے کچھ بھی کرنے کو تیار ہو جائے گا”

جہاں تک بات ہے نوے فیصد نقصان کی تو میں یہاں وہی بات کہوں گا جو پچھلے دنوں مفتی تقی عثمانی صاحب نے کہی کہ “یہ مسئلہ غیرتِ ایمانی کا مسئلہ ہے”

اس پر مستزاد یہ کہ ہمارے پاس تو اچھا موقع ہے کہ کم از کم ملکی سطح پر تو ہر ایک فیلڈ میں اپنے برینڈز متعارف کروائیں اور عالمی معیشت میں خود پنجے گاڑنے کیلئے کوششیں شروع کریں ، جس کیلئے چائنہ کی مثال ہمارے پاس موجود ہے جس نے ہر چیز ملکی سطح پر بنائی اور پھر آہستہ آہستہ ساری دنیا میں اس کا مال سپلائی ہونے لگا اور آج وہ ایک سوئی سے لے کر بڑی بڑی مشینری تک خود بنا رہا ہے اور عالمی معیشت کا بہت بڑا انحصار اسی پر ہے۔

اب ہمارے ہاں مسئلہ ہے کہ بائیکاٹ تو کریں لیکن متبادل نہیں ، جن لوگوں کو بوتلوں کی عادت ہے وہ پیپسی ، کوک تو چھوڑ دیں لیکن لوکل کمپنیوں کا مال ہی نہ ملے تو پھر واپس انہیں کمپنیوں کی طرف لوٹ جاتے ہیں اس لئے ضرورت ہے کہ آہستہ آہستہ تدریجی طور پر غیر ملکی اشیاء کی خرید و فروخت کم کر کے علاقائی اور ملکی اشیاء کی طرف توجہ دی جائے۔

ایک سوال جو باقی رہتا ہے کہ انٹرنیٹ کا کیا کریں اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کا بائیکاٹ کریں یا نہ کریں؟

شاید ان تمام چیزوں کا بھی بائیکاٹ ہونا چاہیے، لیکن مسئلہ وہی ہے کہ متبادل نہیں ہے جس کے ذریعے براؤزنگ یا سوشل روابط کا سلسلہ چلتا رہے ۔تو جب تک اس کا حل نہیں اس وقت تک انہیں ایپس اور نیٹ ورکس پر کام کرنا پڑے گا تو پھر ضرور استعمال کریں اور یہود کے خلاف ہی استعمال کریں ، یعنی ان کا اسلحہ انہیں کے خلاف استعمال کرنے کی کوشش کریں ، کیونکہ صرف اس وجہ سے کسی دشمن کو نہیں چھوڑا جا سکتا کہ اسلحہ اسی نے تیار کیا ہے۔
(البتہ جو لوگ اس سے دور ہیں انہیں میدان میں کودنے کی کوئی خاص ضرورت نہیں ہے)

فرق کیوں؟
ایک سوال ذہن میں آ سکتا ہے کہ ایک طرف فیسبک وغیرہ کا استعمال صرف اس لئے کہ اس کا کوئی متبادل نہیں ہے لیکن دوسری طرف میکڈونلڈ وغیرہ کا بائیکاٹ حالانکہ اس کا بھی کوئی متبادل نہیں، آخر یہ فرق کیوں؟
تو جناب بات یہ ہے کہ ان دونوں میں بذاتِ خود بہت بڑا فرق ہے ،
ہم میکڈونلڈ وغیرہ سے کھاتے پیتے ہیں ، یا دیگر کمپنیوں سے استعمال کی چیزیں خریدتے ہیں اور استعمال کر کے ڈکار مار دیتے ہیں جس سے ہمارا فائدہ یا نقصان ہو البتہ یہود کا کوئی نقصان نہیں۔۔۔
لیکن دوسری طرف فیسبک وغیرہ ہیں جہاں ہم انہیں کے خلاف کام کرتے ہیں ، کچھ اسلام کی مدد کرتے ہیں ، کچھ فلسطینیوں کے حق میں آواز اٹھا پاتے ہیں صرف کھا ، پی کر ، ڈکار نہیں مار دیتے۔۔۔

Advertisements
julia rana solicitors

آخری بات یہ کہ ہمیں ہر میدان میں اپنی ایجادات کرنی چاہیے چاہے وہ ضروریات کا میدان ہو یا تعلقات و روابط کا ، لیکن اب ہم پیچھے رہ گئے ہیں تو کم از کم اس حد تک تو ضرور جانا چاہیے جس حد تک ممکن ہو ، اور زیادہ سے زیادہ اپنی پروڈکٹس کو ہی پروموٹ کرنا چاہیے۔

Facebook Comments

زید محسن حفید سلطان
ایک ادنی سا لکھاریسیک ادنی سا لکھاری جو ہمیشہ اچھا لکھنے کی کوشش کرتا ہے!

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply