لطیفہ گھسا پٹا ہے مگر غیر متعلقہ نہیں۔ لکھ دینے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ حالات و واقعات سے تعلق ہم بعد میں جوڑتے ہیں۔
کسی بادشاہ کے پاس نو انچ کا گھوڑا تھا۔ دور دراز ممالک سے خلقت یہ نو انچی گھوڑا دیکھنے آیا کرتی تھی۔ ہر شخص گھوڑا دیکھ کرخوب حیران ہوتا اور خدا کی قدرت کے گن گاتا۔ بادشاہ کا ایک وزیر بھی تھا۔ ایک دن وزیر نے موقع پا کر بادشاہ سے پوچھا “بادشاہسلامت، یہ نو انچ کا گھوڑا آپ کو ملا کہاں سے؟” بادشاہ نے جواب دیا “شہر سے باہر ایک ریگستان ہے۔ اس ریگستان کے بعدپہاڑی سلسلہ اور اس کے بعد ایک گھنا جنگل۔ اس جنگل میں ایک بزرگ ہوتے ہیں۔ میں ایک روز شکار کھیلتے کھیلتے بزرگ تک پہنچگیا۔ بزرگ پہنچے ہوئے معلوم ہوتے تھے لہذا میں نے ان کی خوب خدمت کی جس کے بعد انہوں نے مجھے یہ نو انچ کا گھوڑا دیا”۔
وزیر نے بادشاہ سے اسی بزرگ کے پاس جانے کی اجازت چاہی۔ بادشاہ نے خوشی خوشی اجازت دے دی اور ساتھ ہی تنبیہہ بھیکی “برخوردار، ایک بات بتاتا چلوں، بزرگ ذرا اونچا سنتے ہیں”۔ وزیر “اوکے ہوگیا” کہہ کر نکل پڑا۔
شہر سے باہر پہنچ کر ریگستان، پہاڑی سلسلہ اور جنگل گھوم لینے کے بعد بالآخر وزیر کو بابا جی مل ہی گئے۔ وزیر نے بزرگ کی چالیسیوم و لیل خوب خدمت کی۔ آخرکار بزرگ نے خوش ہو کر وزیر سے پوچھا “پوت۔۔۔ مانگ جہڑی لوڑ اے”۔ وزیر خوش ہوا کہریٹرن آف انوسٹمنٹ کا وقت آن پہنچا۔ خوب چاہ کے ساتھ بولا “بزرگوں۔۔۔ ایک بوری ہیروں کی مل جائے تو مہربانی ہوگی”۔بزرگ بولے “ہیں؟”۔ وزیر پھر بولا “ہیرے جناب والا ہیرے۔۔۔ ہیروں کی ایک بوری”۔ بزرگ نے کان کے پیچھے ہاتھ رکھ کرکہا “کی؟”۔ وزیر قدرے جھنجھلا کر بولا “او چاچا ہیروں کی بوری”۔ بزرگ نے بالآخر جواب دیا “اچھا اچھا۔۔۔ چیخ کیوں رہا ہے؟اے لے فیر پھڑ”۔
بزرگ کی فیوض و برکات کے نتیجے میں زمین پر ایک بھاری بھرکم بوری پڑی تھی۔ وزیر بہت خوش ہوا۔ اس نے بزرگ کا شکریہ اداکیا اور بھاری بھرکم بوری کاندھے پر لادے واپس چل پڑا۔ بوجھ خوب تھا مگر کامیابی کی خوشی میں سرشار وہ یہ بوجھ کاندھے پر لادےکسی نہ کسی طرح واپس محل پہنچ ہی گیا۔ محل پہنچتے ہی وزیر بادشاہ کے دربار میں پہنچا اور ساری روداد خوشی خوشی بادشاہ کو سنائی۔بادشاہ اس وقت درے کی چرس کے مرغولے فضاء میں اڑا رہا تھا۔ وہ وزیر کی کہانی سن کر قدرے تعجب کے ساتھ بولا، “دکھاؤ ذرااپنی ہیروں کی بوری”۔ وزیر نے خوشی خوشی ہیروں کی بوری کھولی تو آگے ہیروں کی بجائے کھیرے بھرے پڑے تھے۔ وزیر بوریمیں ہیروں کی بجائے کھیروں کو دیکھ کر سر پکڑ کے بیٹھ گیا۔ اس کی ذہن میں بادشاہ کی بات گونجنے لگی “بزرگ ذرا اونچا سنتے ہیں”۔
بادشاہ نے جو وزیر کو اپنی عقل پر ماتم کرتے دیکھ رہا تھا، چرس کا ایک گہرا کش مارا اور بولا۔۔۔
“ہک ہا۔۔۔۔ تجھے لگا میں نے نو انچ کا گھوڑا مانگا تھا؟”
بادشاہ کا مجھے معلوم نہیں، البتہ مجھے یقین ہے کہ افضل بھائی نے آٹھ فٹ کا گھوڑا ہی مانگا تھا تاہم ملا انہیں آٹھ فٹ کی گاڑی کیصورت میں کچھ اور!
پیر ۷ ستمبر ۲۰۲۰ کو بھٹی صاحب ہوائی راستے سے کراچی پہنچے۔ ارادہ تھا کہ ۹ کو ہم تینوں براستہ سڑک گجرات کے لیے رخت سفرباندھیں گے۔ منگل ۸ ستمبر کی رات افضل بھائی کی گاڑی میں چند غیر مانوس مگر مکمل منحوس آوازیں آنے لگیں۔ وہ سفر جو ہم نےصبح ۹ بجے شروع کرنا تھا، دن ۱۲ بجے شروع ہوا۔ جیل چورنگی سے ہم نیپا کے قریب پہنچے تو گاڑی جھٹکے سے بند ہوگئی۔ بھٹیوں کامسئلہ نہیں کہ شاذ ہی سفید ہوتے ہیں البتہ ہم صدیقی کم از کم بھٹی درجے کے کالے نہیں ہوتے۔ دھوپ ایسی تھی کہ بھٹی اورصدیقی یک رنگے سے لگنے لگے۔ بڑی مشکل سے ایک مکینک ملا جس نے گاڑی سٹارٹ کر دی۔ کوئی ایک کلومیٹر آگے بڑھے تو گاڑیپھر بند۔ افضل بھائی جو مکینک بننے کا کریش کورس پچھلے مکینک کو دیکھ کر شروع کر چکے تھے، کسی نہ کسی طرح گاڑی سٹڑٹ کرنےمیں کامیاب ہوگئے۔ تھوڑا آگے چلے۔ گاڑی پھر بند۔
اب سین کچھ ایسا تھا کہ چند سو میٹر گاڑی چلتی اور بند ہوجاتی۔ پھر ہم بونٹ کھول کر پانچ ایک منٹ گاڑی سٹارٹ کرنے میںلگاتے۔ پانچ سو میٹر چل کر گاڑی پھر بند ہوجاتی۔
افضل صاحب اور ان کا آٹھ فٹ کا گھوڑا۔۔۔ بات وہیں آجاتی “بس بہن جو اللہ کی مرضی۔۔۔ سچا پیار نہ مل سکا”۔
بہرحال کسی طرح ہم مکینک کے پاس پہنچے۔ اس بیچارے نے نصف گھنٹہ لگا کر گاڑی اپنے تئیں ٹھیک کی۔ دو سو روپے دینے کےبعد جو ہم تھوڑا آگے چلے تو گاڑی پھر بند۔ یاد رہے، ہم نے کراچی سے ملتان جانا تھا۔ یہ بنتا ہے کوئی ۱۳۰۹ کلومیٹر۔ اب تک ہم ۹کلومیٹر بھی طے نہ کر پائے تھے۔ گاڑی بند ہو کر جہاں کھڑی تھی وہیں اسی مکینک کو لے آئے۔ مکینک نے پھر کچھ انگل بازی کی اورگاڑی سٹارٹ۔ تاہم اب تک ہم گھبرا چکے تھے۔ اب ہم نے خان صاحب (مکینک) کو کہا کہ پانچ منٹ کا راؤنڈ لگا کر آئے تاکہمسئلہ اگر اب بھی ہے تو سامنے آجائے۔ میں، بھٹی صاحب اور افضل بھائی خراماں خراماں مکینک کی دوکان پر پہنچ گئے۔ سوچاپانچ منٹ میں خان صاحب واپس آجائیں گے تو نکلیں گے۔
ایک گھنٹے تک خان صاحب نہ آئے تو ماتھے پر شکنیں نمودار ہونے لگیں۔ دوکان والے سے پتہ کیا۔ اس نے آگے فون کیا تو معلومہوا گاڑی پچھلی گلی میں بند کھڑی ہے اور مکینک کو ٹھیک کر رہی ہے۔ دوسری جانب مکینک کو گمان تھا کہ وہ گاڑی ٹھیک کر رہا ہے۔مزید آدھے گھنٹے تک معاملہ حل نہ ہوا تو مالک نے چیف انجینئر کو بھجوایا۔ مزید نصف گھنٹا گزرا تب جا کر دونوں گاڑی لے کر یا گاڑیدونوں کو لے کر واپس پہنچی۔
ہک ہا۔۔۔ افضل صاحب اور ان کا آٹھ فٹ کا گھوڑا۔۔۔
پتہ چلا گاڑی کے فیول ٹینک میں مسئلہ ہے۔ یہ کوئی پانچ سات ہزار بمعہ ۲ گھنٹے کا خرچہ ہے۔ پیسے کا مسئلہ نہیں تھا البتہ وقت قیمتیتھا۔ مرتے کیا نہ کرتے، گاڑی دے کر خود کھانے نکل پڑے۔
ڈھابہ کوالٹی ریستوران پہنچے تو جانے کس غلطی کی سزا پانے واسطے چنے منگوا بیٹھے۔ چنے کھا تو لیے تاہم کچھ ایسے لڑے کہ ۳۰۰۰کلومیٹر طے کرکے واپسی کے بعد بھی ٹھوس فضلاء خارج کرنا نصیب نہ ہوا۔
“بس بہن جو اللہ کی مرضی”
واپس ورکشاپ پہنچے تو گاڑی کا پچھواڑا کھلا پڑا تھا اور کام جاری تھا۔ گاڑی کے نیچے دو بندے لیٹے ایڈجسٹ کر رہے تھے۔ خیرگاڑی کسی نہ کسی طرح ٹھیک ہوئی اور ہم کامیاب ڈیمو لینے کے بعد پہلے پڑاؤ ملتان کا رخ کر کے نکل پڑے۔ “سبحان الذی سخرلنا۔۔۔ الخ” پڑھتے پڑھتے ہمیں ساڑھے چار بج چکے تھے۔ تھکن کے مارے حالت خراب تھی۔ گاڑی اب ٹھیک ہو گئی تھی تاہماب کی بار پیٹ خراب تھا۔
یہاں سے میرے اور افضل بھائی کے درمیان آٹھ فٹ کا یہ گھوڑا دوڑانے کی مسابقت کا آغاز ہوا۔ اوّل میرا پیٹ خراب تھا اورسفر کو مجموعی طور پر وقفے وقفے سے اخراج تحسین پیش کر رہا تھا۔ دوم ایکسیلریٹر پر میرا “پاؤں بھاری” تھا جس کے باعث گاڑیکا آر پی ایم ۴۰۰۰ تک رہتا۔ افضل صاحب میری نسبت پہلے تو ویسے ہی ٹھنڈے آدمی، دوسری جانب اس آٹھ فٹ لمبے گھوڑےکے مالک بھی لہذا ان کی کوشش یہی ہوتی کہ گاڑی سکون سے چلے۔ کراچی سے حیدرآباد اور پھر سندھ میں کافی آگے تک گاڑیچلانے کا قرعہ میرے نام نکلا۔ جس انداز سے میں گاڑی چلا رہا تھا، بھٹی صاحب کا دم اور افضل صاحب کی زبان سے جانے کیانکلتا نکلتا رہا۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں