مزاح نگار ناپید ، بتنگڑ نگار بہتیرے۔۔۔سید عارف مصطفیٰ

نوٹ:مضمون خالصتاً مصنف کے  ذاتی تجزیے پر مبنی ہے،ادارے کا اس سے اتفاق ضروری نہیں ،اور نہ ہی کسی کی دلآزادی مقصود ہے!

کوئی دو برس قبل میں نے جب اپنا یہ مضمون لکھا تھا “نثری مزاح کو اب کئی خصم درکار ہیں “۔۔
جس میں ،میں نے یہ عرض کیا تھا کہ ویسے تو ادب کا ہر شعبہ ہی کم یا زیادہ زوال کا شکار ہے لیکن طنزو مزاح کا شعبہ تو سب سے زیادہ ہی ابتر حالت میں ہے تو بڑا شور مچا تھا لیکن زیادہ تر نے اسکی تحسین کی تھی ۔۔۔ اسی تحریر میں یہ بھی عرض کیا تھا کہ ”پوری سچائی سے عرض‌ ہے کہ پورے ملک میں ، بلکہ پورے پاک و ہند میں ہاتھ پیروں کی انگلیوں جتنے بھی مزاح نگار دستیاب نہیں ہیں ( اس مثال میں لنگڑے ، لولے اور ٹنڈے مستثنیٰ ہیں) 99 فیصدی مبینہ ظرافت نگار ایسے ہیں کہ مزاح‌ کو خراد مشین سمجھے بیٹھے ہیں اور یہ خرادیے ( دیکھیے میں نے فراڈیے نہیں لکھا ) اس مشین سے جو پرزے بناتے ہیں وہ شگفتگی کی موٹر میں ذرا بھی فٹ نہیں بیٹھتے اور مسکراہٹ یا قہقہہ  پروری کے پسٹن کو چالو کرکے نہیں دیتے ۔ ا ن کی تحریریں بھی کیا ہیں قاری کے ذوق پہ کھلا ڈاکہ ہیں‌ اور ڈھیروں باتوں‌ کے نرے بتنگڑ ہیں یا زیادہ سے زیادہ محض انتھک قلمی بڑبڑاہٹیں ۔

اس وقت مزاح کے شعبے کے حوالے سے ہمیں یہ چند اقسام کی تحریریں دیکھنے کو مل رہی ہیں ۔۔۔

1- پھکڑ نگار ، یہ لوگ اس شعبے میں عظیم ترین اکثریت میں ہیں اور پوری طرح چھائے ہوئے ہیں اور کسی بھی گھٹیا حربے سے آپکو ہنسانے کے لیے ضد کیے بیٹھے ہیں اور ان میں زیادہ تر اسٹیج کے لیے لکھتے ہیں یا پھر ٹی وی کے کامیڈی شو کے اسکرپٹ لکھنے پہ مامور ہیں۔

2- بتنگڑ نگار – یہ لوگ پھکڑ نگاروں سے ذرا بہتر کلاس ہیں اور مزاح کے نام پہ محض طنز نگاری و مضحکہ نگاری یا باتوں کے بتنگڑ بنانے کو ہی مزاح سمجھتے ہیں ۔۔۔ اس قبیل کے لوگ بالعموم ہر موضوع پہ لکھنے کی کوشش کرتے ہیں اور سبھی کا ستیا ناس مار کے ذاتی کتب کی تابڑ توڑ پیدائش پہ یقین رکھتے ہیں اور یوں اپنی تصنیفات کے ڈھیر پہ چڑھے بیٹھے کلکاریاں مارتے نظر آتے ہیں ان میں فی زمانہ سب سے نمایاں نام ڈاکٹر یونس بٹ کا ہے اور انکے پیچھے محمد اسلام اور معین قریشی سمیت ایسے ‘ بل بتوڑوں ‘ کی لمبی قطار نظر آتی ہے۔

3- شگفتہ نگار / انشائیہ نگار- اس زمرے میں آنے والے لوگ باقاعدہ مزاح نگار تو نہیں لیکن کسی موضوع پہ ہلکی پھلکی و شگفتہ سی تحریر لکھنے کے اہل ہوتے ہیں جس میں کہیں کہیں بوجہ یا بے وجہ ظرافت کی جھلکیاں بھی موجود ہوتی ہیں جیسے کہ فرحت اللہ بیگ ، نصراللہ خان شوکت تھانوی ، ضیاء الحق قاسمی ، ڈاکٹر اشفاق ورک ، انواراحمد زئی ، گل نوخیز اختر، آفتاب اقبال ، کے ایم خالد ، انجم انصار ، انوار علوی، ابوالفرح ہمایوں، عارفہ صبوحہ خان، شیخ طاہر ، رفعت ہمایوں ، جہانزیب ، زوہا خان ، احمد حاطب صدیقی ، یوسف ناظم ، فیاض فیضی ، نادر خان سرگروہ ، نشاط یاسمین خان ، فاران شاہ ، عارف خٹک ، سلیم مرزا وغیرہ ۔۔ اس شمار کے افراد میں سے کئی کا معیار بہت عمدہ بھی ہے اور چند تو کالم نگاری سے بھی دلچسپی رکھتے ہیں اور ان میں بعضے ایسے بھی ہیں کہ جو کوئی ان سے ایک بار بھی ہاتھ ملالے اسے وہ اپنے دو چار کالم ضرور پکڑا دیتے ہیں۔

4- مزاح نگار – میدان ظرافت کی یہ کلاس اب تقریباً عنقاء ہوچلی ہے اور خصوصاً کلاسیکی طرز کا مزاح لکھنے والے تو مکمل ناپید ہوچکے ہیں – اردو مزاح کے جتنے بڑے نام ہیں وہ اسی زمرے میں ہیں اور ہر چند کہ کہیں کہیں چند لکھنے والے انکی طرز تحریر کے رنگ کو اپنانے کی کوشش کرتے نظر بھی آتے ہیں ۔۔۔ لیکن معاملہ وہی رہتا ہے یعنی ۔۔۔ وہ بات کہاں مولوی مدن کی سی ۔۔۔۔ مزاح نگاروں کی یہ فہرست بہت طویل نہیں اور اس شعبے کے امام کا نام مشتاق احمد یوسفی ہے باقی چند قابل ذکر ناموں میں پطرس ، عظیم بیگ چغتائی ابن انشاء ، کرنل محمد خان، خالد اختر ، شفیق الرحمان، عطاءالحق قاسمی، اشفاق حسین ، مجتبیٰ حسین ، مشفق خواجہ وغیرہ کے نام نمایاں ہیں

Advertisements
julia rana solicitors london

ان چاروں کلاسوں کے جائزے میں ممکن ہے مجھ سے کہیں کوئی ایک یا متعدد کوتاہیاں بھی سرزد ہوگئی ہوں اور بہتیرے ناموںکا حوالہ رہ بھی گیا ہو لیکن یہ بتانے میں ذرا بھی غلطی نہیں ہوئی کہ اس وقت اردو ادب میں طنز و مزاح کا شعبہ نہایت کسمپرسی کا شکار ہے اور اسکی بڑی وجہ نئی نسل کی مطالعے سے بڑھتی ہوئی دوری بھی ہے اور بنام ظرافت میڈیا پہ ایسے لوگوں کا چھائے رہنا بھی ہے کہ جو ظرافت کی ظ اور مزاح کی م سے بھی واقف نہیں ہیں اور جنکے مزاح سے قہقہے کے بجائے چیخیں نکل جاتی ہیں

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply