فلسطین (5) ۔ عثمانی/وہاراامباکر

“آپ بہت قابل انسان اور سچے یہودی محبِ وطن ہیں۔ یہودی ہمارے کزن ہیں۔ ہمارا ان سے تعلق ابراہیم علیہ السلام سے ملتا ہے۔ ہم یہودیوں کی اور ان کی مذہبی روایات کا بہت احترام رکھتے ہیں۔ مجھے یورپی یہودیوں کے مسائل اور تکالیف کا اچھی طرح اندازہ ہے۔ میں ان کے وطن کے حصول کی خاطر بننے والی صیہونی تحریک کا حامی ہوں۔ صیہونیت خوبصورت، فطری اور منصفانہ نظریہ ہے۔ آخر کون یہودیوں کے فلسطین پر حق کا انکار کرے گا؟ خدا کی قسم، یہ آپ کا اپنا ملک ہے۔

لیکن صیہونی پراجیکٹ کو عملی جامہ پہنانے میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ فلسطین اس کے لئے ٹھیک جگہ نہیں۔ یہ جگہ یہاں کے لوگوں، بشمول یہودیوں، کے لئے مناسب نہیں رہے گی۔ آپ کو صورتحال کا جائزہ لینا چاہیے۔ یہاں پر مقامی لوگ آباد ہیں جو کبھی یہ قبول نہیں کریں گے کہ ان کے علاقے میں کوئی اور آ جائے۔ حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے یہ عقلمندی نہیں ہو گی کہ فلسطین کا انتخاب کیا جائے۔ یہ یہودیوں کے لئے ٹھیک جگہ نہیں۔ آپ کسی اور علاقے کا انتخاب کریں اور فلسطینیوں کو چھوڑ دیں۔ ہم آپ کے ساتھ ہیں”۔
۔یوسف دیا الدین پاشا الخالدی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یوسف دیا یروشلم سے انتخاب جیت کر عثمانی پارلیمنٹ میں گئے تھے۔ وہ کردستان، لبنان، فلسطین اور سیریا کے گورنر رہے تھے اور یروشلم کے دس سال تک مئیر رہے تھے۔ یہ خط انہوں نے یکم مارچ 1899 کو صیہونی تحریک کے بانی ہرزل کو لکھا۔ ہرزل عثمانی حکومت کو آمادہ کرنا چاہ رہے تھے اور یوسف سے ہونے والی خط و کتابت اسے سلسلے میں تھی۔
اس کا جواب 19 مارچ کو آ گیا۔ ہرزل کا کہنا تھا کہ یہودیوں کی آبادکاری مقامی آبادی کو فائدہ دے گی۔ یہودی اپنی دولت، مہارت، تعلیم اور کاروبار کی صلاحیت ساتھ لائیں گے اور اس پسماندہ علاقے کی ترقی کا سب کو فائدہ ہو گا۔ “جنابِ والا، آپ نے یہ نوٹ کیا ہے کہ غیریہودی آبادی کے ساتھ رہنے میں کچھ مشکلات پیش آ سکتی ہیں۔ آپ کا خدشہ بجا ہے لیکن کوئی ان کو یہاں سے نکالنے کا سوچ بھی نہیں سکتا”۔
ہرزل اپنی زندگی میں ایک بار 1898 میں فلسطین آئے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بیسویں صدی کی پہلی دہائی میں فلسطین میں بسنے والے یہودی کلچر کے اعتبار سے مسلمان اور کرسچن آبادی جیسے ہی تھے۔ زیادہ تعداد قدامت پسند اور غیرصیہونیوں کی تھی۔ ان میں یا تو مزراہی (مشرقی) تھے یا سفاردک (اندلس سے بے دخل کئے گئے)۔ کئی نوجوان یہودی یورپ سے آ کر یہاں آباد ہوئے تھے۔ ان میں مشہور صیہونی لیڈر، جیسا کہ ڈیوڈ بن گوریان(جو بعد میں وزیرِ اعظم بنے) اور اسحاق بن زوی (جو بعد میں وزیرِ اعظم بنے) بھی تھے۔ انہوں نے عثمانی شہریت اختیار کی تھی۔ استنبول سے تعلیم حاصل کی تھی۔ عربی اور ترک زبانیں سیکھی تھیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عثمانی سلطنت زوال کا شکار تھی۔ اسے بڑے جھٹکے لگ رہے تھے۔ بلقان، لیبیا اور دوسرے علاقے ہاتھ سے نکل گئے تھے۔ جنگوں میں شکستیں ہو رہی تھیں۔ 1911 کی لیبیا جنگ، 1912 کی بلقان جنگ کے بعد میں ناکامی کے بعد پہلی جنگِ عظیم چھڑ گئی جس نے اس سلطنت کا خاتمہ کر دیا۔ اس جنگ کے چار سال شدید غربت، بھوک، بیماری کے تھے۔ اہل مرد اور جانور لڑنے کے لئے بھیج دئے گئے تھے۔ شام (موجودہ فلسطین، سیریا، اردن اور لبنان) کے علاقے میں 1915 سے 1918 کے درمیان صرف قحط سے ہونے والی اموات پانچ لاکھ تھیں۔ ٹڈی دل کے حملے نے قحط کو مزید بگاڑ دیا تھا۔
بھوک اور مشقت آبادی کی حالت تھی۔ اس جنگ کا سب سے بھاری نقصان عثمانیوں نے اٹھایا تھا۔ کل تیس لاکھ اموات (جو آبادی کا پندرہ فیصد تھا!!) اس جنگ کے نتیجے میں ہوئیں۔ زیادہ تر سویلین آبادی تھی۔ اٹھائیس لاکھ فوجیوں میں سے ساڑھے سات لاکھ جنگ کے دوران مارے گئے۔ زیادہ اموات عربوں میں ہوئی تھیں۔ روس کے خلاف سب سے خونی محاذ عرب علاقوں میں تھے۔ فلسطین کی آبادی میں چھ فیصد کمی ہوئی۔ 1917 کے موسمِ بہار سے جنوبی حصے میں برطانوی اور عثمانی جنگ زوروں پر تھی۔ رفتہ رفتہ عثمانی دفاع کو پسپا کر دیا گیا۔ یروشلم پر برطانوی قبضہ دسمبر 1917 میں ہو گیا۔ سب سے بھاری نقصان غزہ شہر میں ہوا۔ بھاری توپخانے نے شہر کو ملیا میٹ کر دیا۔ جنگ کے آخر تک ہزارہا خاندان بے گھر ہو چکے تھے۔ ہزارہا لوگ لاپتا تھے۔
عرب فوجی عثمانی فوج چھوڑ رہے تھے۔ شریف حسین نے عرب بغاوت کا اعلان کر دیا تھا اور برطانویوں سے اتحاد بنا لیا تھا۔ عربوں پر ترک قبضے کے خلاف عرب نیشنلزم اٹھ کھڑا ہوا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جنگ ختم ہوئی۔ آنے والی تبدیلیاں بڑی تھیں۔ علاقہ اب یورپی افواج کے پاس تھا۔ عربوں پر چار صدیوں سے جاری عثمانی حکمرانی بہت جلد ہی غائب ہو چکی تھی۔ بھوک، افلاس، قحط، جنگ اور اموات کے درمیان اس ٹراما کی زندگی کے دوران فلسطینیوں کو بالفور اعلان کا معلوم ہوا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دو نومبر 1917 کو برطانوی خارجہ سٹیٹ سیکرٹری کا خط 67 الفاظ کے ایک فقرے پر مشتمل تھا۔ “ہماری حکومت فلسطین میں یہودیوں کے قومی وطن کی حمایت کرتی ہے اور اس مقصد کے لئے کوشش کرے گی۔ ایسا کوئی قدم نہیں لیا جائے گا جس سے یہاں رہنی والی غیریہودی آبادی کے سول یا مذہبی حقیقت پر زد پڑے”۔
اس خط میں مذہبی اور سول حقوق کا ذکر تھا۔ سیاسی یا قومی حقوق کا نہیں۔
فلسطینیوں کو اس خط کا علم جلد نہیں ہوا اور اس پر ردِعمل خاصی تاخیر سے آیا۔ پہلا ردِ عمل 33 کے وفد کا لکھا ہوا احتجاجی خط تھا جو دسمبر 1918 میں برطانوی حکومت کو لکھا گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(جاری ہے)

Advertisements
julia rana solicitors

ساتھ تصویر میں اس خط کا عکس جو یوسف دیا نے تھیوڈور ہرزل کو لکھا تھا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply