پاکستانی کا کھتارس ،تین ستون ۔۔اعظم معراج

ایک تھا بابا بڑاسیانا ذہین فطین، بہادر، صابر،دیانت دار اس نے ایک گھر بنایا اس عہد میں تین ستونوں پر عمارتیں کھڑی ہوتی تھیں،اس زمانے کے لوگوں نے ستونوں کے تین نام رکھے ہوئے تھے۔ آئیں ساز،عدل نواز، اور انتظام کار۔
بابے نے عمارت بڑی جدوجہد ، فہم و فراست سے حاصل کی ستون بھی کھڑے کردیے۔ کیوں کہ عمارت کھڑی کرنی تھی اس لئے جلدی میں ستونوں کے سہارے کے لئے کئی ٹیکیں(سہارے) لگانی پڑیں۔ان سہارے والی ٹیکو میں سے کئی گھن زدہ تھی۔
بابے نے سوچا یہ ٹیکیں (سہارے) چھتیں مضبوط ہوتےہی ستونوں سے ہٹا دی جائیں گی۔لیکن بابا جلدی چل بسا۔بابے کے وارثوں میں سے گھر کے انتظام و انصرام کا بندوست کرنے والے آہستہ آہستہ ان گھن زدہ ستونوں سے نکلنے والے فضلے کو کھانے کے عادی ہو گئے۔ستون دن بدن کھوکھلے ہوتے گئے۔زمانے بدلے لوگوں نے گھر کی حفاظت کے لئے چوتھے ستون کا رواج بھی بنا لیا۔
لیکن گھن کے فضلے کی لت میں مبتلا وارثین نے چوتھے ستون کو گھن کے فضلے کے نشے کا عادی بنا دیا۔جس سے اس گھر کے عام مکین خوف  و ہراس میں زندگی گزارنے لگے۔کہ کسی بھی وقت یہ عمارت گر سکتی ہے۔فضلہ خور بھی۔اپنے گھر کے دوسرے باسیوں کو ڈراتے دیکھو یہ گھن زدہ ضرور ہیں لیکن ہمارے لئے ان سے مضبوط کچھ نہیں ،اگر ہم نے ان تینوں ستونوں کو چھیڑا تو یہ عمارت گر جائے گی۔چوتھا خود ساختہ ستون اپنے لوگوں کو ڈرانے میں پیش پیش ہوتا۔یوں اس عمارت کے مکین روز مرتے روز جیتے لیکن ستون نہیں بدلتے۔کبھی کبھار ستونوں کی اوپر اوپر سے لیپا پوتی کرتے رہتے۔ اگر کبھی کبھار ستونوں کو بدلنے کی یا گھن (دیمک) پر کوئی زہریلا  سپرے کرنے کی بات ہوتی ،گھن کے فضلے کے نشئی آسمان سر پر اٹھا لیتے نہ چھیڑنا ان ستونوں کو ورنہ چھت گر جائے گی۔وہ کہتےدیمک کے مسلسل کھانے سے ستونوں کا خود کار دفاعی نظام چار پانچ سو سال بعد حرکت میں آجائے گا اور یہ ستون مضبوط ہوجائیں گے۔مزے کی بات یہ کہ ان نشئیوں کی ہاں میں ہاں اس محلے کے اس گھر کےناراض پڑوسی اور دور دراز کے علاقوں میں بیٹھے اس گھر کے خوبصورت محل وقوع کی بدولت اسکے مخالف بھی ملاتے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply