خامہ بگوش سے وابستہ چند یادیں(حصّہ اوّل)۔۔حافظ صفوان محمد

سوموار 21 فروری 2005ء رات ساڑھے دس بجے اطلاع ملی کہ انکل مشفق خواجہ کا انتقال ہوگیا ہے۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔ میرا اُن سے تعلق میرے والد مرحوم پروفیسر عابد صدیق صاحب کی وجہ سے تھا۔ میرا ادب سے کوئی علاقہ نہیں لیکن دل میں انکل خواجہ سے متعلق محبت بھری یادوں کا ایک ہجوم ہے جسے میں نے ایک نشست میں کاغذ پر منتقل کرنے کی کوشش کی ہے۔ گزارش ہے کہ اِس مضمون کو اِسی تناظر میں پڑھا جائے۔ مشفق خواجہ صاحب ادبی نفسانفسی کے اِس دور میں سب اہلِ ادب کا مشترک سرمایہ تھے۔ میں نے کوشش کی ہے کہ غم کا یہ بیان شگفتہ رہے اور سوگواروں کو مزید سوگوار نہ کرے۔
(حافظ صفوان محمد چوہان)
۔
مشفق خواجہ صاحب چلے گئے۔
اگر حقیقت کی آنکھ سے دیکھا جائے تو یہ معلوم ہوگا کہ جانے والا آزمائش سے نکل گیا، اور جو ابھی زندہ ہیں وہ مستقل آزمائش میں ہیں۔
اُن کی وفات پر کیا لکھا جائے اور کیا نہ لکھا جائے، میں اِس میں بے بس ہوں۔ جو کچھ لکھ رہا ہوں، اِسے اندر کی کوئی قوت لکھوارہی ہے۔ ڈاکٹر خورشید رضوی صاحب کا ایک شعر ہے: ؎
جذبے کی کوئی شکل بنانی ہی پڑے گی
سونے میں مجھے کھوٹ ملانی ہی پڑے گی
جذبات کو جو three-dimensional ہوتے ہیں، two-dimensional بنانے کے واسطے یعنی کاغذ پر منتقل کرنے میں بہت کچھ قربان کرنا پڑتا ہے۔ اور حقیقت یہ ہے کہ جو کچھ قربان ہوتا ہے وہی اصل ہوتا ہے، یعنی احساس کی حرارت… اور جو کچھ بچ رہتا ہے، وہ محض الفاظ ہوتے ہیں جو کاغذ پر منتقل ہوجاتے ہیں۔
انگلستان کے بادشاہ ایڈورڈ ہفتم کی تدفین کے موقع پر اُس کے مشیرِ خاص لارڈ ایشر کے منہ سے دو جملے نکلے تھے جو یادگار ہوگئے اور بعد ازاں The Passing of the Old Guard کے عنوان سے شائع ہوئے۔ وہ جملے یہ تھے:
There never was such a break-up. All the old buoys which have marked the channel of our lives seem to have been swept away.
مشفق خواجہ صاحب کی وفات کی خبر سنتے ہی لارڈ ایشر کے یہ جملے مجھے یاد آگئے۔ ایک ایسا ہی نقصان آج ہوا تھا۔
میں مشفق خواجہ صاحب سے صرف تین بار ملا ہوں: دو بار کراچی میں اُن کے گھر واقع ناظم آباد میں، اور ایک بار اکادمی ادبیات اسلام آباد کے مہمان خانے میں۔ اِس کے علاوہ تقریبًا چار برس تک ہر ہفتے ایک یا دوبار ٹیلی فون پر گفتگو کی ہے۔ چند خطوط لکھے ہیں اور کچھ کتابیں اور متفرق چیزیں مختلف موقعوں پر اُن کی خدمت میں اِرسال کی ہیں، اور بس۔ میرا یہ مضمون اِنہی ملاقاتوں اور ٹیلی فون پر کی گئی باتوں کی روداد ہے۔ میں نے واوین کے اندر اُن کے صرف وہی جملے لکھے ہیں جن کے بارے میں مجھے غالب گمان ہے کہ یہ مجھے لفظ بلفظ یاد ہیں۔ واوین کے علاوہ جو کچھ اُن کے حوالے سے لکھا ہے وہ نفسِ مضمون کی حد تک تو اُن کا ہے لیکن الفاظ کے بارہ میں یہ بات نہیں کہی جاسکتی۔
٭
میرے والد پروفیسر عابد صدیق صاحب 7 دسمبر 2000ء کو فوت ہوئے۔ ابو جان ایک حدیثِ پاک کے حوالے سے فرمایا کرتے تھے کہ والد کے بعد اُس کے دوستوں اور تعلق والوں سے میل ملاقات رکھنا بہت ہی سعادت مندی ہے۔ میں نے اُن کی وفات کے بعد اِس بات کو الحمدللہ وصیت کے طور پر عمل میں لانے کی مقدور بھر، شعوری کوشش کی اور ابو جان کے کئی احباب سے فون اور خط کے ذریعے رابطہ رکھا ہے۔ مشفق خواجہ صاحب سے رابطے کی تقریب بھی یہی ہوئی۔ ابو جان کی وفات کے کچھ عرصہ بعد مجھے ایک بیماری کی وجہ سے یکے بعد دیگرے دو مرتبہ آغا خان ہسپتال کراچی جانا پڑا۔ کراچی میں ابو جان کے اُن احباب سے ملا جن کا مجھے علم تھا۔ ابو سعادت جلیلی صاحب سے ملا۔ پروفیسر مولانا عبدالشہید نعمانی صاحب مدظلہٗ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ اُن کے والد محدثِ شہیر حضرت مولانا عبدالرشید نعمانی رحمۃ اللہ علیہ نے میرے ابو جان کو علمِ حدیث میں کتاب الآثار لامام محمدؒ کی روایت کی اجازت عطا کی تھی۔ مشفق خواجہ صاحب سے پہلی بالمواجہہ ملاقات بھی کراچی کے اِسی سفر میں ہوئی۔ اور پھر محبت اور نیاز مندی کا یہ پیہم سلسلہ اُن کی وفات پر ختم ہوا۔
میں کراچی میں اپنے دو دوستوں سلمان سعد خاں اور وسیم شاہد خواجہ کے ہمراہ انکل مشفق خواجہ صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا۔ ہم لوگ ایک تنگ اور نیم تاریک زینے سے ہوتے ہوئے اوپر اُن کے کمرے میں داخل ہوئے۔ سلام و جواب کے بعد اُنھوں نے فرمایا کہ وہ بیماری سے حال ہی میں صحت یاب ہوئے ہیں اور اِس لیے ہمیں لینے کے لیے نیچے نہیں آسکے ہیں۔ اِس کمرے میں صرف کھڑے ہونے کی جگہ تھی اور وہ بھی بمشکل، کیونکہ ہر جگہ کتابیں ہی کتابیں تھیں۔ میں نے عرض کیا کہ یہاں تو تل دھرنے کی بھی جگہ نہیں ہے۔ اُنھوں نے ہنستے ہوئے فرمایا کہ پاؤں دھرنے کی کہیے۔ پھر ہمیں لے کر ساتھ والے کمرے میں چلے گئے جہاں ایک صوفہ سیٹ تھا اور ایک میز۔ میں نے اپنا اور اپنے دوستوں کا تعارف کرایا۔ اُنھوں نے کہا کہ “آپ کو دیکھتے ہی مجھے عابد صدیق صاحب یاد آگئے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ عابد صاحب جوانی میں مل رہے ہیں۔” پھر کچھ دیر کے بعد فرمایا کہ “آپ سے مجھے عابد صدیق صاحب کی خوشبو آرہی ہے۔ واہ واہ۔ کیا کہنے! ڈاڑھی بھی بالکل ویسی ہی ہے، لیکن سیاہ۔ آپ کے ابا کی ڈاڑھی تو بھورے رنگ کی تھی۔”
ہمیں بٹھا کر وہ چند منٹ کے لیے کمرے سے باہر نکلے۔ اِس دوران میں ہم تینوں دوست کمرے میں موجود کتابوں کو دیکھتے رہے اور اُس پگڈنڈی کو جس سے گزر کر ہم صوفوں تک پہنچائے گئے تھے۔ پگڈنڈی کے دونوں طرف کمر کمر تک کتابیں چنی ہوئی تھیں۔ اور اِن سے ٹکرائے بغیر گزرنا ایسا ہی تھا جیسا کہ دنیا میں اہلِ ایمان کو زندگی گزارنے کی ترغیب دی گئی ہے– کہ دنیا کانٹوں بھرا راستہ ہے اور اِس میں سے دامن کو الجھنے سے بچاتے ہوئے گزرنا ہے۔ کامیاب وہ ہوگا جو دامن سلامت لے آئے۔
اِس کمرے میں تین بڑی بڑی الماریاں تھیں جن میں بھی کتابیں ہی رکھی ہوئی تھیں۔ یہ اِس لیے کہہ رہا ہوں کہ اِن الماریوں کے باہر بھی ہر جگہ کتابیں ہی تھیں۔ بائیں طرف سامنے اردو لغت بورڈ کراچی کی اردو لغت- تاریخی اصول پر رکھی تھی جس کی اُس وقت تک اٹھارہ جلدیں شائع ہوئی تھیں۔ ساتھ کے خانوں میں اردو دائرۂ معارفِ اسلامیہ کا سیٹ رکھا تھا۔ یہ دونوں کتب چونکہ میرے پاس ہری پور میں بھی موجود ہیں اِس لیے اِن سے متعلق باتیں شروع ہوگئیں، کہ یہ بہت عظیم کام ہیں جو اردو زبان میں ہوئے ہیں اور اِن کی وجہ سے اردو دنیا کی بڑی زبانوں میں اِن شاء اللہ ہمیشہ زندہ رہے گی۔
تھوڑی دیر تک کمرے میں موجود کتابوں کا جائزہ لینے پر یہ کھلا کہ اِن میں کے زیادہ تر لغات ہیں۔ وہ لغات جن کے میں نے صرف نام سن رکھے تھے، آج پہلی بار آنکھوں کے سامنے تھے۔ Readers’ Digest کی Reverse Dictionary (لغتِ معکوس) بھی میں نے صرف یہیں دیکھی۔ Platts کے لغت کا پہلا ایڈیشن، جامع اللغات، فرہنگِ آنندراج، محاوراتِ ہند، قاموس الاغلاط، احسان دانش کے لغات، وغیرہ وغیرہ۔
انکل کے کمرے میں واپس آنے پر میں نے عرض کیا کہ میں اب تک تو یہ سمجھتا تھا کہ private collection میں سب سے زیادہ لغات میرے پاس ہیں کیونکہ میرے پاس ستّر سے زیادہ لغات موجود ہیں، لیکن آپ کے پاس تو مجھ سے بھی زیادہ لغات ہیں۔ اُنھوں نے میری طرف بہت حیرانی سے دیکھا، اور پھر کہا کہ “میرے پاس ساڑھے چارسو سے زیادہ لغات ہیں۔ مجھے بے حد خوشی ہوئی ہے کہ آپ کے پاس بھی لغات اتنی کثیر تعداد میں ہیں۔ لغات کے شوقین کے لیے انگریزی میں ایک اصطلاح ہے۔ کیا آپ کو معلوم ہے؟” میرا نفی میں جواب سن کر اُنھوں نے فرمایاکہ “لغات جمع کرنے کے شوقین کو انگریزی میں lexicomaniac کہتے ہیں، اور اِس شوق کو lexicomania کہتے ہیں۔” پھر دیر تک میرے اِس شوق کی تحسین فرماتے رہے۔
لغات سے متعلق باتیں کرتے ہوئے اُنھوں نے فرمایا کہ وہ کتاب جو چھپتے ہی outdate ہوجاتی ہے، وہ لغت ہے۔ میرے یہ بتانے پر کہ میرے پاس بھی اردو لغت بورڈ کراچی کے اردو لغت کا سیٹ موجود ہے، وہ اِس لغت سے متعلق کی جانے والی کاوشوں کا ذکر کرتے رہے۔ اُنھوں نے بتایا کہ یہ بہت اچھی محنت ہے تاہم اِس میں کئی کمیاں ہیں۔ پھر اِس لغت اور اِس کے اندراجات کے متعلق باتیں ہوتی رہیں۔ میں نے عرض کیا کہ دو چیزوں کی کمی تو میرے علم میں بھی ہے۔ اُن کے دریافت کرنے پر میں نے عرض کیا کہ طباعت کی اغلاط سے اگر صرفِ نظر کرلیا جائے تب بھی جو بات مجھے سب سے زیادہ حیران کن بلکہ تکلیف دہ لگی ہے وہ یہ ہے کہ اِس میں اکثر ایسے الفاظ کا سرے سے اندراج ہی نہیں ہے جو فیروز اللغات وغیرہ جیسے اردو لغات تک میں موجود ہیں، اور یہ کہ جس جگہ پر سند کے لیے علامہ اقبال کا شعر ہونا چاہیے، وہاں پر اکثر کسی غیر معروف شاعر کا شعر درج کیا گیا ہے۔ انکل نے میری طرف غور سے دیکھا، اور کہا کہ “یہ بات صرف وہی کہہ سکتا ہے جس نے اِس لغت کا بہت زیادہ اور گہرا مطالعہ کیا ہو۔ ماشاء اللہ۔”
وہ بڑے اشتیاق سے میرے پاس موجود لغات کے بارے میں دریافت کرتے رہے اور میں بتاتا رہا۔ اُن کے یہ دریافت کرنے پر کہ کیا میرے پاس کوئی نایاب لغت بھی ہے، میں نے عرض کیا کہ میرے پاس 1811ء میں چھپا ہوا Captain Grose کا Dictionary of the Vulgar Tongue ہے۔ شاید یہ نادر چیز ہو چونکہ اِس سے پہلے کا کوئی لغت میرے پاس نہیں ہے۔ اُنھوں نے نہایت تعجب سے پوچھا کہ آپ کے پاس یہ لغت کہاں سے آیا۔ میں نے عرض کیا کہ یہ لغت میں نے انٹرنیٹ سے بہت تلاش کرکے downloadکیا ہے، اور مہینوں محنت کرکے اِس کی نوک پلک سنواری ہے (formattingکی ہے)۔ ڈاکٹر مظہر محمود قریشی صاحب (سابق سیکریٹری جنرل پاکستان اکادمی آف سائنسز) سے اِس کی تصحیح کرائی ہے اور اب یہ مکمل اور درست حالت میں میرے پاس موجود ہے؛ اور میرے علم میں اِس کی دنیا میں صرف دو ہی کاپیاں ہیں جن میں سے ایک میرے پاس ہے اور دوسری ڈاکٹر قریشی صاحب کے فرزندِ دلبند حضرت مولانا محمد احسن سعید قریشی صاحب کے پاس۔ وہ ایک نادر چیز کی موجودگی کا علم ہونے پر بے انتہا خوش ہوئے، اور فرمایا کہ یہ لغت جب چھپا تھا اُس وقت بھی نایاب تھا۔ پھر اُنھوں نے مجھ سے یہ لغت بھیجنے کا وعدہ لیا۔ اور جب میں نے ہری پور واپس جاکر کمپیوٹر سے نیا پرنٹ لے کر اور نہایت اعلیٰ جلد کروا کے یہ لغت اُنھیں بھیجا تو بے حد شکریہ ادا کرتے رہے۔ گو اِس لغت کا ذکر بعد کے دنوں میں کبھی نہیں ہوا۔ (یاد رہے کہ ڈاکٹر ایم ایم قریشی پاکستان کے دو ڈاکٹرز آف سائنس میں سے ایک ہیں؛ دوسرے آنجہانی ڈاکٹر عبدالسلام تھے۔ اُنھوں نے دنیائے اسلام میں قمری کیلنڈر کے نفاذ اور رؤیتِ ہلال کے لیے گراں قدر خدمات انجام دی ہیں۔)
ہم لوگ انکل کے گھر مغرب کی نماز کے بعد گئے تھے۔ اُنھوں نے چائے اور بسکٹ سے ہماری تواضع کی۔ اُن کے ٹیلی فون سیٹ پرانے اور خراب ہوچکے تھے اور وہ محکمۂ ٹیلی فون کی کارکردگی (اور اُن کے اپنے الفاظ میں “کارناکردگی”) سے بہت نالاں تھے۔ ہم ٹیلی فون کے افسران کے سامنے اُنھوں نے کلمۂ حق کہا۔ میں نے سلمان سعد صاحب سے اُن کے سامنے ہی درخواست کی کہ انکل کے ٹیلی فون تبدیل اور درست ہونے چاہییں۔ الحمدللہ چند یوم میں اُن کی شکایات رفع ہوگئیں۔ کچھ عرصہ بعد اُن کے سی ویو کلفٹن والے گھر کا ٹیلی فون بھی تبدیل کرایا۔ اِس ٹیلی فون والے کام پر وہ تازندگی شکر گزار رہے اور میرے اِن دونوں احباب کا ذکرِ خیر فرماتے رہے۔ چند دن بعد اُنھوں نے CLI کے اِجراء کا کہا۔ یہ کام بھی ہوگیا تو ایک دو روز کے بعد مزاحًا فرمایا کہ “CLI میں نمبر تو آجاتے ہیں، لیکن یہ معلوم نہیں ہوپاتا کہ یہ نمبر کس کاہے۔ میں کس کس کا نمبر یاد رکھوں؟ کیا ایسا نہیں ہوسکتا کہ نمبر کے ساتھ ٹیلی فون کرنے والے کی تصویر بھی آجایا کرے؟” عرض کیا کہ شاعری کے طوامیر میں تو پردہ نشینوں کے صرف ناموں کا ذکر آتا ہے، تصویر کا ذکر تو تصویرِبتاں کے حوالے سے برنگِ دیگر آیا ہے۔ اِس بات پر وہ بہت خوش ہوتے رہے۔
میرے دوست وسیم خواجہ صاحب کے پردادا منشی عبد الرزاق بھی شاعر تھے اور اُنھوں نے شیداؔ کا تخلص اختیار کیا تھا۔ اُن کا تعلق غیر منقسم ہندوستان کی ریاست رِیوا سے تھا جو اُس وقت سفید شیروں کے لیے مشہور تھی۔ اُن کے غیر مطبوعہ دیوان وسیم صاحب کے پاس موجود ہیں۔ مشفق خواجہ صاحب نے اُن سے فرمایا کہ وہ اگر چاہیں تو یہ دیوان اُن کو دکھا دیں تاکہ اِن کی اشاعت کا بندوبست کیا جاسکے۔ افسوس کہ سدا کے سست الوجود وسیم خواجہ اپنی کاہلی کی وجہ سے یہ دیوان اُن تک نہ لے جاسکے اور یوں یہ کام نہ ہوسکا۔
واپسی کی اجازت لینے سے قبل میں نے آٹو گراف لینے کے لیے اپنا البم کھولا۔ اُنھوں نے نہایت محبت سے یہ جملے تحریر کرکے نیچے دستخط فرما دیے:
“حافظ صفوان صاحب سے مل کر بے حد خوشی ہوئی۔ یہ میرے کرم فرما اور دوست جنابِ عابد صدیق کی یادگار ہیں۔ مرحوم کی نیکیاں حافظ صفوان صاحب کی وجہ سے مجسم صورت میں ہمارے سامنے ہیں۔ خدا اِنھیں صحت مند و توانا رکھے اور یہ تادیر سلامت رہیں۔”
پھر فرمایا کہ “میرے پاس آپ کے ابا کی تصویریں بھی ہیں جو میں نے خود بنائی ہیں۔ میرا ایک بار بہاول پور جانا ہوا تو اُن کے ساتھ قلعہ دراوڑ دیکھنے کو گیا تھا۔ ہمارے ہمراہ مرحوم پروفیسر سید سعید صاحب بھی تھے۔” اتنے میں ناصر صاحب تصویریں لے آئے، جنھیں دکھاتے ہوئے انکل ابو جان کی کئی باتیں اور واقعات سناتے رہے جو اِس سفر میں پیش آئے تھے۔ فرمایا کہ وہ بہت محبت کرنے والے، کھل کر قہقہہ لگانے والے، محنتِ شاقہ کے عادی، انتہائی معصوم اور بناوٹ سے بالکل پاک آدمی تھے۔ پھر میری آنکھوں میں دیکھتے ہوئے فرمایا کہ “بھئی مولانا! آپ کی تو آنکھیں بھی اپنے ابا سے ملتی ہیں۔ اُن کی آنکھیں نیلی تھیں۔ کیا خوب صورت آنکھیں تھیں مرحوم عابد صدیق صاحب کی۔” اِس کے بعد قریب میں کھڑے ناصر صاحب سے اپنی کتاب “خامہ بگوش” کے قلم سے لانے کو کہا۔ وہ لے کر آئے تو اُس کے پہلے صفحے پر “حافظ صفوان صاحب کی نذر/ پہلی ملاقات کی یادگار/ مشفق خواجہ” لکھا۔ پھر یہ فرماتے ہوئے کہ ارے! یہ تو خامہ بگوش کے کالم ہیں، مشفق خواجہ کاٹ کر خامہ بگوش لکھا، اور نیچے 7/4/2003 کی تاریخ ڈال کر کتاب مجھے عنایت فرما دی۔
اِس موقع پر میں نے بھی اپنی کتاب، مؤسسِ تبلیغ حضرت مولانا محمد الیاس رحمۃ اللہ علیہ کے ملفوظات کا انگریزی میں ترجمہ “Words & Reflections of Molana Ilyas” پیش کی اور عرض کیا کہ اِس کا پہلا ڈرافٹ ابو جان نے انتہائی عرق ریزی سے درست کیا تھا۔ افسوس کہ یہ کتاب اُن کی زندگی میں شائع نہ ہوسکی۔ اِس کتاب کے حوالے سے، اور میرے ذوق کی رعایت سے، وہ کبھی کبھی تبلیغی جماعت کے بارے میں بھی باتیں کیا کرتے تھے۔ شاید کسی وقت مولانا محمد یوسف رحمۃاللہ علیہ (متوفٰی 1965ء) کی ایک تقریر کے سننے کا ذکر بھی کیا تھا۔
٭
ٹیلی فون پر مشفق خواجہ صاحب سے گفتگو میں میں نے بہت سے لوگوں کا ذکر سنا۔ وہ نہایت محبت سے بابائے اردو مولوی عبد الحق کا ذکر کرتے تھے اور انجمن کے انگریزی-اردو لغت کے بارے میں اُنھوں نے کئی بار بڑی معلومات افزا باتیں بتائیں۔ ایک بار بتایا کہ night-blindness (شب کوری) کے لیے رتوندا [رات+اندھا] کا لفظ لغت میں موجود تھا، جب کہ colour-blindness کے لیے لغت میں کوئی لفظ نہ تھا۔ بابائے اردو نے اِسی ترتیب پر اِس کے لیے ایک نیا لفظ رنگوندا [رنگ+اندھا] بنایا اور اِسے اپنے لغت میں درج کیا۔ اِس لفظ کا ذکر تو بابائے اردو نے انجمن کے مذکورۂ بالا لغت کی اشاعتِ اوّل (1937ء) کے دیباچے میں بھی کیا ہے۔ وہ بابائے اردو کے مقدمات میں لکھی ہوئی باتوں کا بہت حوالہ دیا کرتے تھے۔ اُن کے پاس بابائے اردو کی استعمال کی کچھ چیزیں بھی رکھی ہیں: ڈائریاں، خطوط، ہینڈ بیگ، وغیرہ۔
شان الحق حقی صاحب کا ذکر وہ بڑی محبت سے کرتے تھے۔ لغت اور الفاظ کے حوالے سے اُن کے کارنامے اور تفردات و اجتہادات سنایا کرتے تھے۔ کئی بار فرمایا کہ حقی صاحب بڑی سہولت اور روانی سے اردو کے نئے الفاظ بنا لیتے ہیں۔ انکل اِس طرح کے کئی الفاظ کے بارے میں بتاتے تھے جو اُنھوں نے coin کیے تھے، مثلاً disturbance in microwave link کے لیے قومی نشریاتی رابطے میں خلل۔ حقی صاحب کا Oxford English-Urdu لغت چھپا تو مجھے حکم دیا کہ فوراً خریدوں۔ میں اسلام آباد سے لے کر آیا تو متواتر کئی دن تک اِسی میں کھویا رہا۔ اپنے ابو جان کے مضامین کا دیباچہ لکھتے وقت مجھے کئی الفاظ کا اردو مترادف ڈھونڈنے میں مشکل پیش آتی تھی، اِس لغت نے یہ کمی دور کر دی۔ اور اگر اب بھی کسی لفظ یا ترکیب کا اردو مترادف معلوم کرنا ہو، شان الحق حقی صاحب مجھے برقیاتی ڈاک (email) سے بتا دیتے ہیں۔ حقی صاحب کے اِس لغت سے مجھے wordprocessor کا اردو مترادف لفظ نگار ملا۔ میں نے انکل کو بتایا۔ یوں خوش ہوئے جیسے حقیقت میں اُنھیں کوئی خزانہ مل گیا ہو۔ کئی بار اِس لفظ کا ذکر کیا کرتے تھے، کہ کیا روانی اور بے ساختہ پن ہے اِس لفظ میں۔ حقی صاحب سے اپنی ملاقاتوں میں کی باتیں بتاتے رہتے تھے اور اِن میں دہلی اور کرخنداری زبان کا ذکر کرتے تھے… اور یہ صرف اِس لیے کہ مجھے حقی صاحب سے نہ صرف برقیاتی ڈاک کے ذریعے نیاز مندی حاصل ہے بلکہ اِس لیے بھی کہ میں نے ایک عرصہ پہلے اُن سے آٹو گراف کے طور پر ایک خط کے ذریعے اُن کی ایک غزل حاصل کی تھی۔ کچھ عرصہ پہلے جب حقی صاحب کا آپریشن ہوا تو انکل نے مجھے بطورِ خاص دعا کرنے کا کہا، اور یہ فرمایا کہ میں آپ کو اُن کے آپریشن کا صرف اِس لیے بتا رہا ہوں کہ آپ اُن سے رابطہ میں رہتے ہیں۔ اِس بات کو عام نہ کریں۔ بہرحال اب چونکہ حقی صاحب الحمدللہ روبصحت ہیں اور اُنھوں نے بذاتِ خود اپنے چند نیاز مندوں کو، بشمول راقم الحروف کے، اپنی صحت کے بارے میں اطلاع دی ہے، اِس لیے اب اِس بات کے ذکر میں کوئی قباحت نہیں رہی۔ میں نے اُن سے انکل مشفق خواجہ صاحب کا قطعۂ تاریخ لکھنے کی استدعا بھی کی ہے۔ اللہ کرے کہ وہ یہ کام سہولت سے کرسکیں۔
جناب رشید حسن خاں صاحب کا ذکر بھی کئی بار ہوا۔ انکل اُن کے تبحرِ علمی کے بے اندازہ قائل تھے اور اُن کا بہت ہی زیادہ احترام کرتے تھے۔ مجھے اُن کا پتہ لکھوایا اور فرمایا کہ اُنھیں اپنے مرحوم والد صاحب کے کام کے بارے میں بتاؤں۔ تعمیلِ ارشاد میں میں نے ابو جان کا دیوان اُن کو ہندوستان بھیجا۔ اُنھوں نے اپنے جوابی خط میں مجھے درست اِملا کی کئی باریکیاں سمجھائیں۔ انکل نے ایک بار مجھے خاں صاحب کی مرتَّب کردہ مصطلحاتِ ٹھگّی کے بارے میں اور اِس حوالے سے اِس پیشے کے بارے میں کئی باتیں بتائیں۔ یہ بھی بتایا کہ خاں صاحب اردو کے کلاسیکی ادب کو درست اِملا کے ساتھ مرتَّب کرکے شائع کرا رہے ہیں۔ فی الحقیقت یہ اردو پر بہت بڑا احسان ہے۔
میں نے اپنے ابو جان کا زیرِ ترتیب دیوان اور جمع شدہ تحریریں جناب عبدالعزیز خالدؔ کو بھی دکھائیں۔ 1972ء میں گورنمنٹ کالج بوسن روڈ ملتان میں اُن کے اعزاز میں منعقد ہونے والی ایک تقریب میں ابو جان نے ایک مضمون پڑھا تھا؛ یہ تقریب اُنھیں اب تک یاد ہے۔ اُنھوں نے ابو جان کے دیوان اور مضامین کے اردو لفظ نگار میں ٹائپ شدہ مسودے میں موجود چند اغلاط کی نشان دِہی فرمائی۔ انکل نے مجھ سے یہ تصحیح شدہ نسخہ کراچی منگوایا اور فرمایا کہ عبد العزیز خالد صاحب نے جیسا بتایا ہے وہی درست ہے۔
میں جن کتابوں کو بار بار پڑھتا ہوں اور اُن سے کبھی سیر نہیں ہوتا اُن میں جنابِ مختار مسعود کی تینوں کتابیں آوازِ دوست، سفر نصیب اور لوحِ ایام بھی شامل ہیں۔ ہر ایک ڈیڑھ ماہ کے بعد اُن کی کوئی کتاب اٹھاتا ہوں اور پھر سے مکمل پڑھ لیتا ہوں۔ وہ اُن لوگوں میں سے ہیں جن کی برکت سے میں نے اپنا وطن کی محبت والا سبق سیکھا تھا۔ جب آج کا شائع شدہ ایسا ادبی اور صحافتی مواد سامنے آتا ہے جس میں برِ عظیم کی تقسیم کی بنیاد پر ضرب لگائی گئی ہوتی ہے تو میں اُن کی کسی کتاب کو پڑھ کر ایمانِ وطن تازہ کرلیتا ہوں۔ خوف کی حالت میں آدمی اُسی چیز کی طرف بھاگتا ہے اور اُسی چیز کی پناہ پکڑتا ہے جس سے حفاظت کی امید ہوتی ہے؛ جیسے ایک خوف زدہ بچہ اپنی ماں کی طرف دوڑ کر اور اُس کی گود میں امن محسوس کرتا ہے، میں ویسے ہی مختار مسعود صاحب کی کتابوں میں پاکستان کی محبت اور اِن کی صحبت میں امن محسوس کرتا ہوں۔ دین و وطن کی بے لوث محبت کے ذیل میں اُن کی کتابیں میرا سرمایۂ ایمان بن گئی ہیں۔ مجھے کئی بار اُن کی خدمت میں حاضر ہونے کا شرف حاصل ہے۔ ایک بار میں اپنے دوست جناب ظہیر احمد کے ہمراہ اُن کے ہاں گیا تو اردو اِملا کی یکسانی (standardization) کے موضوع پر بھی اُن سے باتیں ہوئیں۔ رشید حسن خاں صاحب کی اِس سلسلے کی محنت کے ذکر پر اُنھوں نے اُن کے مرتَّب کردہ کلیاتِ جعفر زٹلّی کے بارے میں بتایا کہ اُنھیں بہت افسوس ہے کہ خاں صاحب نے ایسی چیز کو مرتَّب کیا جس میں سوقیانہ پن اور برہنگی ہے، اور اِس سب کچھ کو اُنھوں نے حذف کرنے کے بجائے بہ تمام و کمال شائع کر دیا ہے۔ اُنھیں اِس کتاب سے بے حد انقباض تھا اور اپنے گھر میں اِس کا نسخہ موجود ہونے پر شرمندگی بھی۔ مشفق خواجہ صاحب جنابِ مختار مسعود کے بہت مداح تھے اور ٹیلی فون پر اپنی گفتگو میں اُن کا ذکر بھی کرتے تھے، اور اُن کے والد شیخ عطاء اللہ صاحب اور اپنے والد خواجہ عبد الوحید صاحب کے تعلق کا بھی بتاتے تھے۔ ایک بار میں نے اپنی اِس ملاقات کی روداد سنائی تو اُنھوں نے جنابِ مختار مسعود کی بات سے اتفاق کیا اور فرمایا کہ اُنھوں نے خود بھی یگانہؔ کا کلیات مرتَّب کرتے ہوئے اُن کے ناشائستگی اور برہنگی کی حدود میں جا پڑنے والے کلام کو اِسی وجہ سے نظری کر دیا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

ٹیلی فون پر مشفق خواجہ صاحب نے جنابِ مشتاق احمد یوسفی کا ذکر بھی کئی بار کیا۔ میں یوسفی صاحب کی چاروں کتابوں آبِ گم، زرگزشت، چراغ تلے اور خاکم بدہن کے بہت سے جملوں کا “حافظ” ہوں۔ کچھ عرصہ پہلے آغاخان یونیورسٹی ہسپتال کراچی میں ایک تقریب میں اُن کا لیکچر ہوا تھا۔ مشفق خواجہ صاحب نے اِس تقریب کا تذکرہ کئی بار کیا۔ میرے آغا خان ہسپتال میں علاج کے لیے جانے کی وجہ سے گفتگو میں اِس ہسپتال کا ذکر ہو ہی جاتا تھا، اور اِس ذکر کے ساتھ ہی یوسفی صاحب اور اُن کے اِس لیکچر اور تقریب کی باتیں شروع ہوجاتی تھیں۔
مقتدرۂ قومی زبان پاکستان کے صدر نشین پروفیسر فتح محمد ملک صاحب سے میں نے انکل مشفق خواجہ کے حکم پر پہلی بار رابطہ کیا۔ یہ بات ذہن سے اتر رہی ہے کہ اُس وقت کون سی کتاب کے بارے میں معلومات درکار تھیں۔ میرا کام تو اُنھوں نے پہلی بار بات کرتے ہی کرا دیا تھا لیکن جو بات قابلِ ذکر ہے وہ یہ ہے کہ ایسا شفیق اور محبت بھرے لہجے میں بات کرنے والا افسر نہ پہلے کبھی دیکھا تھا نہ اب تک کوئی اور دیکھا ہے۔ میں ہمیشہ احسان مند رہوں گا مشفق خواجہ صاحب کا، کہ اُن کی برکت سے ایسے خلیق بزرگ سے میرا رابطہ ہوا۔
مشفق خواجہ صاحب کی خواہش تھی کہ میں اپنے ابو جان کی ہندی شاعری کو دیو ناگری رسم الخط میں لکھواؤں تاکہ اِسے ہندوستان سے شائع کرایا جائے۔ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ میں ابو جان کے دوست ڈاکٹر محمد انصار اللہ صاحب کی عنایت سے میں نے کلام کا یہ حصہ دیوناگری رسم الخط میں ٹائپ کرا لیا تھا۔ اکادمی ادبیات اسلام آباد میں انکل سے ملاقات کے وقت میں اِسے ساتھ لے گیا تھا تاکہ اِسے اُن کے حوالے کر دوں۔ اُنھوں نے فرمایا کہ وہ ڈاکٹر خلیق انجم صاحب سے درخواست کریں گے کہ وہ اِسے انجمن ترقیِ اردو ہند یا ہندوستان میں کہیں سے شائع کرا دیں۔ ابو جان کی کتاب مغرب میں آزاد نظم اور اس کے مباحث شائع ہوئی تو اُنھوں نے مجھے ہندوستان کی کئی لائبریریوں اور اہلِ علم کے پتے لکھوائے کہ ڈاکٹر خلیق انجم صاحب کے توسط سے میں اِن تک یہ کتاب بھجواؤں۔ اِس ملاقات کے کچھ عرصے کے بعد ڈاکٹر خلیق انجم صاحب پاکستان تشریف لائے۔ ہندوستان واپسی سے بالکل پہلے وہ اسلام آباد میں تھے کہ انکل نے مجھے فون کیا کہ میں فوراً اُن سے ملوں۔ افسوس کہ میں اچانک آن پڑنے والی ایک دفتری ضرورت کی وجہ سے اُس روز اسلام آباد نہ جاسکا اور ڈاکٹر خلیق انجم صاحب سے نہ مل سکا… اور یوں یہ دونوں کام ابھی تک نامکمل پڑے ہیں۔
شمس الرحمٰن فاروقی صاحب کا تذکرہ بھی کئی بار ہوا۔ انکل نے مجھے بتایا کہ فاروقی صاحب نے لغاتِ روزمرہ کے نام سے ایک لغت مرتَّب کیا ہے۔ یہ آپ کے کام کی چیز ہے۔ آپ اِسے حاصل کیجیے۔ مجھے اچانک یہ لغت ڈاکٹر وحید قریشی صاحب کے ہاں نظر آیا جو میں نے اُن سے لے کر فوٹوکاپی کرا لیا۔ میری سعادت ہے کہ یہ وہ نسخہ ہے جس کو ڈاکٹر وحید قریشی صاحب نے از اوّل تا آخر پڑھ کر اِس میں کئی جگہ پر اپنے ریمارکس لکھے ہوئے ہیں۔
ڈاکٹر فرمان فتح پوری صاحب کا ذکر بھی انکل نے کئی بار کیا۔ میرے ابو جان نے 1984ء میں ریڈیو پاکستان بہاول پور سے ایک مذاکرے “اردو شاعری میں عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم” میں شرکت کی۔ اِس کے لیے اُن کے لکھے ہوئے نوٹس کو میں نے ڈاکٹر فرمان فتح پوری صاحب کی اجازت سے اُن کی کتاب اردو کی نعتیہ شاعری کی مدد سے مکمل مضمون کی شکل دے دی۔ مشفق خواجہ صاحب کے حکم پر میں نے اِس مضمون کو ابو جان کے نوٹس سے فائدہ اٹھانے کے حوالے کے ہمراہ اپنے نام سے الزبیر میں شائع کرا دیا ہے۔
محترمی اورنگ زیب عالم گیر صاحب جو کسی زمانے میں بہاول پور آرٹس کونسل کے ڈائریکٹر تھے اور آج کل پنجاب یونیورسٹی لاہور میں پروفیسر ہیں، کے بارے میں انکل بے حد محبت سے بات کرتے تھے۔ فرماتے تھے کہ وہ بہت عالم آدمی ہیں۔ اُن کے انکل سے تعلق کا اندازہ اِسی بات سے کیا جاسکتا ہے کہ وہ اُن کی نمازِ جنازہ میں شرکت کے لیے لاہور سے کراچی گئے تھے۔ یکم مئی 2004ء کو تبلیغی جماعت کے ساتھ میری تشکیل پنجاب یونیورسٹی نیو کیمپس میں ہوئی۔ خصوصی گشت کرتے ہوئے میں اورنگ زیب عالم گیر صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا۔ وہ ابو جان کے بارے میں بڑی مزے دار باتیں بتاتے رہے۔ اُنھوں نے یہ بھی بتایا کہ مشفق خواجہ صاحب نے اُن سے یہ فرمایا ہے کہ عابد صدیق صاحب کے انتقال کے بعد اُن کے کاموں کو آپ ہی لوگ جمع کریں گے۔ میں نے اُن کو اُس وقت تک کیے گئے کام اور ابو جان کی جمع شدہ تحریروں کے بارے میں بتایا۔ اُنھوں نے کئی مشورے بھی دیے۔ انکل نے مجھ سے اِس ملاقات کی روداد سنی تھی۔ میں نے موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے تبلیغی کام کی کارگزاری بھی ساتھ سنا دی۔ انکل بہت خوش ہوتے رہے۔

Facebook Comments