چیچی۔۔جواد بشیر

محمد یوسف عُرف(پیاجی)پیشے سے ڈینٹر ہیں،مگر طبعیت کے دھیمے اور نیت کے نیک ہیں،میرا تعلق ان سے دس سال پرانا ہے،یہ بزرگوں کی باتوں کو مجھ تک پہنچانے کی ایک اور کڑی میں سے ہیں،بزرگوں کی چند ایک باتیں جو ان کے ذریعے مجھ تک پہنچیں،ان میں سے تمام تو نہیں مگر چند ایک آپ کے گوش گزار کرنا چاہتا ہوں۔۔۔

پہلی بات جو اُن کو دیکھ کر مجھے محسوس ہوئی،وہ نفاست تھی،کمینگی اور نفاست کا تعلق پیشے سے نہیں ہوتا،یہ مجھے ان سے مل کر پتا چلا۔تربیت اور بیٹھک ان دونوں چیزوں پر بہت اثر انداز ہوتی ہیں ۔وہ مجھے اکثر پُت(بیٹا)کہتے ہیں۔ایک دن باتوں باتوں میں کہنے لگے ،جہاں چیچی پھنسی ہو،اُس کے لیے ہاتھ نہیں کٹوانا چاہیے،

میں نے کہامیں سمجھا نہیں۔۔
کہنے لگے، چھوٹی مصیبت کو حل کرنے کے لیے،بڑی مصیبت گلے نہیں ڈالنی چاہیے۔

پھر کہتے ہیں،تم کسی کا سو دیکھو گے،تمہارا ہزار دیکھا جائے گا۔اس لیے باز رہو اس کام سے۔

میں نے اس بات کی وضاحت طلب کی،تو کہتے ہیں،آپ اپنے کسی بھی کام کے لیے اگر لوگوں کی اُجرت کی پڑتال کرنے لگ جاؤ گے،یعنی اگر آپ سمجھتے ہیں کہ کسی نے آپ سے سو کا منافع زیادہ لیا ہے،بنتا کم تھا تو کہتے،تیار ہوجاؤ،تم نے کسی کا سو دیکھا ہے،اب تمہارا ہزار دیکھا جائے گا۔۔۔

پھر کہتے ہیں،بازار میں ایک چیز اگر 50کی ہے تو تمہیں کم از کم 40یا45کی مل جائے گی،مگرا گر وہ20یا 25میں مل رہی ہے تو فوراً کان کھڑے کرلو کہ کہیں کوئی جھول ضرور ہے،بلکہ لازمی ہے کہ قیمت کم ہو سکتی ہے،مگر اتنی کم بھی نہیں ہوسکتی۔

اس طرح کی اور بھی بہت سی باتیں میں نے پلّے باندھی ہوئی ہیں،کبھی پھر موقع ملا تو وہ بھی آپ کے گوش گزار کروں گا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

مکالمہ ڈونر کلب،آئیے مل کر سماج بدلیں

Facebook Comments

جواد بشیر
تحریر بارے اپنی رائے سے کمنٹ میں آگاہ کیجیے!

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply