ناتمام۔۔۔مختار پارس

آنکھ کھلی تو میں زندہ تھا۔ مر گیا ہوتا تو مداوا کیسے ہوتا۔ اپنے خوابوں کو جھوٹا ثابت کرنے کا ایک اور موقع مل گیا۔ خواہشیں اتنی شدید ہیں کہ سانس بند ہوتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ روز اسی بوجھ کے نیچے دب کر مر جاتا ہوں۔ اگلی صبح پھر یہ عزم لے کر زندہ ہو جاتاہوں کہ اب کی بار پیاس نہیں لگنے دینی ۔ مگر تشنگی بجھنے کی کوئی نوبت ہی نہیں آتی۔ کون ہے جسے محبت نہیں ہوتی۔ کسے عمر بھر ماہ ِ تمام ملتا ہے۔ زندگی میں تو ہر شخص ناتمام رہتا ہے۔ کدھر کو جاؤں۔ آبلہ پا ہونا نہیں چاہتا اور صحرا طویل ہے۔

اصحاب کہف بھی اسی طلب کے ڈر سے غار میں جا کر سو گئے تھے۔ خدا نے ان کو لمبی نیند دے دی۔ جاگے تو دنیا بدل گئی  تھی۔ ہیں تو ہم بھی اصحاب کہف! رات ایسی لمبی ہے کہ تاریکی چھٹنے کے آثار نظر نہیں آتے۔ سورج نکل آتا ہے مگر اندھیرا نہیں چھٹتا۔ کئی  بار اپنے من کی غار سے باہر نکل  کرجھانکا ہے۔ وہی پرانی دنیا ہےجس میں غم بھی وہی پرانے ہیں۔ نہ غم عشق کے تیور بدلے اور نہ گیسوئے یار کے خم سیدھے ہوئے ۔ وہی بھوک، وہی ننگ جو انسان کی سرشت میں جینیاتی مخمصوں کی طرح روح کی دیواروں سے سر پٹختی پھر رہی ہے۔ چمکتی چیزوں کا ایک دلدل ہے، جس میں لوگ چھلانگیں مار کر دھنس رہے ہیں۔ کیچڑ کے دریا میں ان کے دھیرے دھیرے ڈوبتے جسم، غرقاب ہونے سے بچ نہیں سکتے۔ مردہ لوگوں کے ہاتھ اگر اٹھے ہوئے ہوں تو بھی کوئی انھیں سہارا نہیں دے سکتا۔ ہم سب کو ہماری خواہشوں نے مار دیا ہے۔ ہمیں تواب سہارا صرف یہ آسرا دے سکتا ہے کہ خدا کرے یہ سب خواب ہو۔ ہم آنکھ کھولیں تو جو ہو چکا ہو، وہ پھر نہ ہو۔

ساری حیاتی اسی بے ثباتی میں اپنے نامکمل ہونے کا روگ سینے سے لگائے  گزر جاتی ہے۔ اپنے تن اور من پر پہنا کپڑا اچھا نہیں لگتا۔ دوسرے کی اُترن بھی سونا اور جواہر لگتی ہے۔ رزق بھی جیسے کسی پُراسرار مصلحت کے تحت ملتا ہے۔ جس کو ضرورت ہے، وہ تہی دامن رہتا ہے اور جس کو ضرورت نہیں رہتی، وہ سمیٹتے سمیٹتے مر جاتا ہے۔ کیسا امتحان ہے کہ تلاش ختم نہیں ہو نہیں سکتی۔ ہم سفر بھی ضروری نہیں کہ کسی ایک منزل کو جاتے ہوں۔ جسم ساتھ رہ سکتے ہیں مگر خواب نہیں۔ کانٹے ثمربار ہو سکتے ہیں مگر گلاب نہیں۔ سر کا بوجھ تن سے جدا ہو سکتا ہے مگر عذاب نہیں۔

سورج بھی روز میری طرح اس ارادے سے نکلتا ہے کہ دنیا سے اندھیروں کو ختم کر کے ڈوبے گا۔ مگراندھیرے روز شام کو دنیا کے اس طرف جا نکلتے ہیں اور سورج کو ڈوبنے کہ خواہش ایک طرف رکھ کر پھر کہیں اور طلوع ہونا پڑتا ہے۔ افق پر نمودار ہونے والے ہر شخص کے نصیب کا ستارہ ایک دن ایک جھماکے سے ٹوٹ کر غائب ہونا ہے۔ پھر بھی ایک بے چینی ہے جو رگِ  جاں میں نشتر بن کر چبھتی رہتی ہے۔ سڑک پر کھڑے ہو کر دیکھیں توہر شخص چہرے پر پریشانی کا لیپ کیے جلدی سے کہیں نہ کہیں پہنچنے کی  کوشش میں نظر آتا ہے۔ جانا کسی کو کہیں بھی نہیں۔ ساری کوششیں فضول ہیں، ساری باتیں لا یعنی ہیں۔ نہ آج تک کسی نے کوئی نئی بات کہی ہے اور نہ کچھ کبھی نیا ہو سکتا ہے۔ نہ کوئی مقام منزل ہے اور نہ کوئی سفر منتقی ہے۔

ایسا اس لیے  ہے کہ  انسان کی حیات فزکس کے اصولوں میں قید ہے۔ سچ کہتے ہیں کہ دنیا کو تخلیق کرنے والا یقیناً حساب دان ہے۔ کائنات کی طنابیں رفتار، پیمائش اور زاویوں سے بندھی ہیں۔ سب طے شدہ ہے مگر انسان کو اس کا ادراک نہیں۔ اس کا دکھ یہ ہے کہ اسے زندہ رہنے کے لیے  اس طے شدہ میں سے روز کچھ نیا دریافت کرنا پڑتا ہے۔ اسے روشنی کی رفتار سے اپنے ادراک کو دھنک کرنا پڑتا ہے، جب جا کر اسے سمجھ میں آتا ہے۔ اس گھومتی دنیا کے قطر کی پیمائش “پائی مربع” کر کے بھی یہ سمجھ نہیں آیا کہ کرہء  ارض کا حجم کیوں سکڑ رہا ہے۔ کوئی زاویہ ایک سو اسّی سے اوپر جانے کو تیار ہی نہیں۔ مگر خلاؤں کا اصرار ہے کہ سارے زاویے صفر ہیں۔ سب لکیریں ایک نقطے کے سوا کچھ نہیں۔ سب اعداد خیالی ہیں۔ سچ یہ ہے کہ انسان نے ابھی صرف دیا سلائی جلانا ہی سیکھا ہے۔ اسے کیا معلوم کہ زمین کے بیچوں بیچ جو آگ اس کی ابتداء سے دہک رہی ہے، وہ ٹھنڈی کیوں نہیں ہو رہی۔

Advertisements
julia rana solicitors

یہ لاعلمی زہر قاتل ہے۔ خواہشیں مقدر میں لکھ دی گئی ہیں مگر خواہشوں کو الجبرے کے اصول سکھانا انسان کی ذمہ داری ہے۔ یہ لین دین کا عمل ما بعد الطبعیات ہے، اس ایٹم کی طرح جس کے نیوکلیس کے گرد الیکٹرون اور پروٹون بھاگے پھر رہے ہیں۔ یہ دونوں جب مدار میں اک دوسرے کے  پاس  سے گزرتے ہیں تو حرارت پیدا ہوتی ہے۔ دینے والا ہاتھ جب لینے والے ہاتھ سے مَس کرتا ہے تو وہ طاقت عطا ہوتی ہے جو رازِ  حیات ہے۔ خدا نے انسان کو حدود پار کرنے کی  طاقت دے دی ہے۔ مگرحدود کو پار کرنے کا ہنر اسے خود سیکھنا ہے۔ یہ سمجھنا بہت ضروری ہے کہ خدا کیا چاہتا ہے۔ کسی کے پاس کچھ ہونا، نہ ہونے سے بڑا امتحان ہے۔تو پھر آؤ اپنی خواہشوں کو تجسیم کر لیتے ہیں۔ خدا کی تقسیم کو ہم اور بھی تقسیم کر لیتے ہیں۔ اپنی خواہشوں کے پھول اٹھا کر کسی اور کوعظیم کر دیتے ہیں۔

Facebook Comments

مختار پارس
مقرر، محقق اور مصنف، مختار پارس کا تعلق صوفیاء کی سر زمین ملتان سے ھے۔ ایک عرصہ تک انگریزی ادب کے استاد رھے۔ چند سال پاکستان ٹیلی ویژن پر ایک کرنٹ افیئرز کے پروگرام کی میزبانی بھی کی ۔ اردو ادب میں انشائیہ نگار کی حیثیت سے متعارف ھوئے ۔ان کی دو کتابیں 'مختار نامہ' اور 'زمین زاد کی واپسی' شائع ہو چکی ھیں۔ ادب میں ان کو ڈاکٹر وزیر آغا، مختار مسعود اور اشفاق احمد جیسی شخصیات سے سیکھنے کا موقع ملا۔ ٹوئٹر پر ان سے ملاقات MukhtarParas@ پر ھو سکتی ھے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply