اجتماعی دیوانگی/ڈاکٹر مختیار ملغانی

قرون وسطیٰ کے یورپ میں ایسی کوئی ذہنی وبا اٹھی کہ عورتوں کو شیطان کا ساتھی قرار دیتے ہوئے کلیسا اور ان کے حواریوں نے لاتعداد خواتین کو زندہ جلا ڈالا، انگریزی میں اسے which hunt کہا جاتا ہے، گویا کہ یہ خواتین چڑیلیں ہیں اور ان کا شکار کرنا ہر صاحبِ ایمان پہ فرض ہے، کسی بھی عورت پہ الزام لگا کر اسے عدالت لایا جاتا، باقاعدہ ایک سرکاری وکیل مہیا کیا جاتا، عورت پہ الزام چونکہ شیطان کے ساتھی ہونے کا ہوتا اور اصل مجرم شیطان ہوتا تو ایسے وکیل کیلئے The devil’s advocate کی اصطلاح استعمال کی جاتی جو آگے جا کر بڑی معروف ہوئی۔

عورت کو اقرار جرم اور توبہ کا موقع دیا جاتا، ایسا کرنے پر خاتون کو ہمیشہ کیلئے چرچ کی خدمت پہ مامور کر دیا جاتا ، خاتون الزامات کو رد کرتی تو عموماً زندہ جلا دینے کی سزا سنائی جاتی، ایسی خواتین کی تعداد ہزاروں، اور بعض کے نزدیک لاکھوں   میں ہے جنہیں بلاسفیمی کے جرم میں زندہ جلایا گیا ۔

اس کی وجوہات بارے تاریخ خاموش ہے کہ ایسا کیونکر ہوا، کیا مرد مذہب کے ہاتھوں ذہنی مریض بن چکا تھا کہ حوا کے شجر ممنوعہ کھانے اور پھر اس بنیاد پر جنت سے نکالے جانے والی سزا پانے کی تلافی کیلئے اب اس نے عورتوں سے بدلا لینا شروع کر دیا تھا؟
یا پھر ممکن ہے کہ خوبصورت خاتون اگر اپنے عاشق یا چاہنے والے کے ساتھ تعلقات پہ راضی نہ ہوتی تو یہ عاشق ناکام کوئی بھی الزام لگا کر اسے عدالت میں شیطان کی ساتھی ثابت کر سکتا تھا ۔

لیکن دوسری طرف کئی دفعہ خواتین کے اپنے اقارب یعنی باپ بیٹا بھائی اور شوہر وغیرہ بھی اپنے گھر کی خواتین کی مخبری کرتے ہوئے انہیں آگ پہ زندہ جلا دیئے جانے والی سزا دلواتے،، اور پھر توجہ رہے کہ صرف ان خواتین کو جلایا گیا جو الزام کو یکسر مسترد کرتی تھیں، یعنی کتنے لوگ ایسی انا اور خودداری کے پیکر ہو سکتے ہیں کہ انہیں زندہ جلایا جانا گوارا ہے لیکن وہ جرم قبول کرنے سے منکر ہیں۔

سوویت بائیو فیزیسٹ الیکزینڈر چیژوسکی نے اسے اور اس جیسی دوسری کئی وباؤں کو اجتماعی دیوانگی کا نام دیا ہے جس کی وجوہات پر انہوں نے تفصیل سے لکھا ہے۔

آج ہمارا سماج بھی شاید ایسی ہی کسی اجتماعی دیوانگی کا شکار ہے، آئے روز بلاسفیمی کے الزامات سامنے آ رہے ہیں، پہلے کہا گیا کہ بلاسفیمی کا قانون بنایا جائے تاکہ کوئی بھی ماورائے عدالت کوئی فیصلہ کرنے سے گریز کرے، قانون بن گیا، لیکن وارداتیں جاری رہیں ، کہا گیا کہ چونکہ پولیس ڈھنگ سے تفتیش نہیں کرتی اس لئے ہجوم کو موقع واردات پہ ہی فیصلہ کرنا پڑتا ہے، اب پولیس اکثر واقعات میں ملزم کو ہجوم سے نکال کر تھانے لانے میں کامیاب ہو جاتی ہے، وارداتیں پھر بھی نہیں رک رہیں کہ اب پولیس ہی کا کوئی مرد مجاہد اپنی بندوق کی مدد سے موقع پر فیصلہ سنا دیتا ہے۔

وجہ ہر جگہ یہی بتائی جا رہی کہ چونکہ عدالتیں اپنا کام ٹھیک سے نہیں کرتیں اسی لئے عشاق پھر کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔
یورپ کی اجتماعی دیوانگی میں ملزم کو کم از کم وکیل ضرور مہیا کیا جاتا، اقرار جرم اور توبہ کا موقع بھی دیا جاتا، یہاں حالات قرونِ وسطٰی کے دور سے بھی ابتر ہیں کہ کسی بھی وقت کوئی شخص ایک الزام لگا دے اور اگلے لمحے ملزم کی لاش چوک پہ پڑی ملے۔

یہ معاملات وعظ، نصیحت سے حل نہیں ہونے والے، اس کیلئے بڑی قانون سازی کی ضرورت ہے، یہی نہیں بلکہ سکولوں مدرسوں اور کالجوں میں ابتدائی تعلیم کو ازسرنو دیکھنا ہوگا، ترکھانوں کے منڈے سے بحث شروع کرنا ہوگی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

بلاسفیمی کا الزام غلط ثابت ہونے پر الزام لگانے والے کیلئے کڑی سزا مقرر کی جائے، ماورائے عدالت قتل کرنے والے کو اگر کوئی پھول یا ہار وغیرہ پہنا رہا ہے تو اسے بھی شاملِ جرم سمجھا جائے اور اس کیلئے باقاعدہ سزا تجویز ہو، جعلی خواب دیکھنے اور پھر اس خواب کی بشارتیں سنانے والوں کو ذہنی مریض قرار دیتے ہوئے کسی بڑے ہسپتال میں شیزوفرنیا والے وارڈ میں رکھا جائے۔
لیکن اس سب کیلئے ریاست کے کرتوں دھرتوں کا سنجیدہ ہونا ضروری ہے، پانی اب سر سے گزر چکا ، اگر اب بھی ہوش کے ناخن نہ لئے گئے تو پھر بہت دیر ہو سکتی ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply