• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • انقلاب ایران: “اٹھا ہوں آنکھوں میں اک خواب ناتمام لیے” (قسط دوم )….ڈاکٹر طاہر منصور قاضی

انقلاب ایران: “اٹھا ہوں آنکھوں میں اک خواب ناتمام لیے” (قسط دوم )….ڈاکٹر طاہر منصور قاضی

ایران میں علما کا سیاسی کردار اور معاشی مفاد

معاشرے میں مفادات کی بات چلی ہے تو سیاست کے تناظر میں تھوڑی سی بات علماء کے مالی اور معاشی مفاد کی کرتے ہیں۔ ایرانی انقلاب میں علماء کا کردار اہم ہے مگر انقلاب کی وجوہات کا تعین کرتے ہوئے ایران میں علماء کے سماجی کردار کا تاریخی پس منظر اور  انہیں ایک معاشی طبقے کے طور پر دیکھنا ضروری ہے۔

ایران کی سیاست اور معاشرے میں علماء کا کردار  کئی صدیاں پرانا ہے۔ علماء کے مذہبی، سماجی اور سیاسی کردار کے ساتھ ساتھ ایک معاشی جہت بھی ہے۔ علماء اپنے معاشی مفادات کو تاریخی طور پر اپنا استحقاق گردانتے تھے۔ ایران میں علماء کے معاشی مفادات صفوی بادشاہت سے شروع ہوئے۔ حکومت کرنے کا حق کسے ہے، اس موضوع پر   تاریخ میں بہت سے مباحث ہیں۔ ایک موضوع جو تواتر سے زیر بحث ہے، وہ حکومت کرنے کا استحقاق اور جواز ہے [انگریزی میں اسے  Legitimacy  کہا جاتاہے]۔ جمہوری دور  میں یہ طے ہو چکا ہے کہ حکومت عوام کی رضا سے ممکن ہو گی۔  یہ معاشرتی معاہدہ یا سوشل کانٹریکٹ ہے۔سوشل کانٹریکٹ ایک طرح سے شعور اور لاشعور میں رچا ہوا شہریوں کا ایک دوسرے کے ساتھ رہن سہن اور معاشرتی اور سیاسی طریقہ کار  ہے۔ یہ کانٹریکٹ ہمیں بتاتا ہے کہ عوام کا حاکم وقت کے ساتھ تعلق کیا ہے۔ انسان آزاد شہری ہیں۔ انسانوں کی زندگی اور ان کے حقوق پر حاکم وقت کی اور حکومت کا اختیار بہت محدود ہے بلکہ وہ عوام کے انسانی حقوق کی حفاظت کے ذمہ دار ہیں۔حاکم وقت اور اس کے زیر اثر  انتظامی اور سیاسی ادارے معاشرتی معاہدے  کی پاس داری کرنے کے پابند ہیں۔  ہمارے موجودہ زمانے  کا سیاسی اور سماجی شہریت کے ساتھ بندھا معاہدہ ، پرانے زمانے کی بادشاہتوں کے حکم نامے اور رعیت کے آمنا و صدقنا کہنے سے بہت مختلف ہے۔ اس زمانے کی سیاسی تھیوری میں ریاست جمہوری  ہونی چاہئے جس میں حکمران کی حیثیت شہریوں کے انتظامی نمائندے سے زیادہ کچھ نہیں۔

پرانی بادشاہتوں کے زمانے میں حکومت کرنے کا استحقاق اور جواز عوام سے نہیں، مذہبی پیشواوں کی اشیر باد سے منسلک تھا۔ ایران کی صفوی بادشاہت جو 1501 میں شاہ اسماعیل نے قائم کی تھی، اس نے شیعہ علماء سے اپنی حکومت کے جائز ہونے کی سند چاہی اور جوابا” علماء کو دنیاوی مراعات سے مالا مال کر دیا۔ یہیں سے ایران میں علماء کی حکومت وقت کے ساتھ سمبندھ کی بنیاد رکھی جاتی ہے اور علماء کرام ایک  معاشی طبقہ بھی بن جاتے ہیں۔ ایران کے اندر  مذہبی علماء اور ان کی جاگیریں اتنی وسیع تو نہیں تھیں جتنی انقلاب فرانس کے وقت کلیسا کے پاس تھیں مگر پھر بھی زمین اور بہت سی دیگر مراعات نے مذہبی علماء کو ایک مضبوط  معاشی طبقہ بنا دیا۔

ایران میں حکومتیں اور بادشاہتیں تو وقت کے ساتھ بدلتی رہیں۔ مذہبی علماء اورحکومتوں کے درمیان مفاہمت کی پالیسی کی وجہ سے علماء کا طبقہ تاریخی طور پر مراعات یافتہ رہا۔صفوی بادشاہوں نے مذہبی مزاروں اور  مدرسوں کو زمینیں عنایت کیں اور انہیں دل کھول کر مالی عطیات سے نوازا جس سے ایران میں شیعہ علماء کا سماجی مرتبہ مزید بلند ہوا اور علماء گروپ کے کئی رکن معاشرے کےمالدار طبقے کے طور پر پہچانے جانے لگے۔ اٹھارویں صدی کے اواخر میں قاجار بادشاہوں نے مذہبی علماء کو عوامی سطح پر سرکاری فرائض کی ادائیگی کے لئے مامور  کر دیا۔ تھوڑی بہت اونچ نیچ کے ساتھ  مراعات کا یہ سلسلہ احمد شاہ قاجار  تک جاری رہا۔

اس بات سے یہ نہ سمجھا جائے کہ تمام علمائے کرام صرف مالی مفادات کی دوڑ میں تھے۔ ایران میں معتبر علماء کو “مجتہد” کے امتیازی خطاب کے ساتھ پہچانا جاتا ہے جن کی تعداد بہت ہی کم ہوتی ہے۔ مجتہدین بالعموم ظاہری شان و شوکت اور ریا سے بالا تر ہو جاتے ہیں اور انہیں مال و منال کے  پیمانے سے ناپنا کسی طور مناسب نہیں۔ مجتہدین کو عوام مانتے ہیں اور بادشاہ چاہیں یا نہ چاہیں، وہ مجتہدین کی قدم بوسی کو حاظر رہتے ہیں۔ مجتہدین اخلاقی اور مذہبی قطب نما ہیں لیکن کسی بھی ریاست کی طرح ایران میں بھی تاریخ کا متحرک پہیہ عوام،  چھوٹے علماء اور  حکومت  کے اہل کار ہیں جو بقول کال مارکس تاریخ کا نادیدہ ہاتھ ہوتے ہیں۔ یہ سب ایک معاشرتی معاہدے میں بندھے ہوئے ہوتے ہیں۔ انقلاب کو آسان ترین لفظوں میں دیکھنا ہو تو بات بس اتنی سی ہے کہ پرانے معاشرتی معاہدے کو توڑ کر نیا معاہدہ ترتیب دیا جائے جو  بدلتے وقت کے ساتھ عوام  کی امنگوں اور آرزوں کا آئینہ دار ہو۔

ایران کی سیاست میں مذہبی علماء کے اثرورسوخ کو سمجھنے کے لئے 1890 کا ایک واقعہ بیان کرنا اہم معلوم ہوتا ہے۔ اس وقت ناصرالدین بادشاہ تھے۔ انہوں نے حکومت  کی مالی مجبوریوں کی وجہ سے برطانیہ کی کمپنی کو تمباکو کی تجارت کے مکمل اختیارات دے دیئے۔ مقامی لوگوں میں اور علماء میں برطانیہ کے اثرورسوخ کے بارے میں بدگمانیاں پہلے سے موجود تھیں اور بجا طور پر تھیں۔ ایران کے تاجروں نے محسوس کیا کہ اس معاہدے کے نتیجے میں ان کے مالی مفادات پر خاصی زد پڑے گی۔ ایران میں اس معاہدے کے خلاف احتجاج شروع ہوگئے۔ لیکن بادشاہ نے اس کو زیادہ سنجیدہ نہ لیا بلکہ طاقت کے استعمال سے احتجاج کو دبانے کی کوشش کی۔شیراز کے علماء نے دھمکی دی کہ تمباکو کی تجارت سے وابستہ کوئی بھی غیر ملکی اگر نظر آیا تو اسے قتل کر دیا جائے گا۔جواب میں حکومتی کاروائی سے احتجاج مزید شدت پکڑ  گیا، جس پہ اس وقت کے مجتہد نے تمباکو کے استعمال کو حرام اور گناہ قرار دے دیا۔ اس سے ایران کے اندر تمباکو کا کاربار ٹھپ ہو کر رہ گیا۔ اس طرح کے حالات کے بعد بادشاہ کو برطانوی کمپنی کے ساتھ معاہدے کو توڑنا پڑا اور نتیجتا” ایران کو  معاہدے کے مطابق واجبات ادا کرنے کے لئے مزید قرض لینا پڑا اور مزید نقصان اٹھانا پڑا ۔  تمباکو معاہدے کو سامنے رکھتے ہوئے  ایران کی سیاست اور حکومتی معاملات میں علماء کے کردار  کو  صرف ایک واقعہ نہیں سمجھنا چاہئے۔ اس سے ایران میں شیعہ مذہبی علماء کی سیاسی اہمیت واضح ہوتی ہے جس نے بادشاہوں کے خلاف سماجی احتجاج کی تاریخ رقم کی ۔

واقعات ایک طرف، انیسویں صدی کے آخر میں اسلام بحثیت مذہب، مغرب کے استعماری اور استحصالی  اطوار و کردار کے جواب میں ایک اجتجاج اور ایک مزاحمتی قوت کے طور پر سامنے آیا۔ ہم  جمال الدین افغانی کو اس زمانے کی مذہبی اور سیاسی فکر کا  نمائندہ کہہ سکتے ہیں۔ اس زمانے میں جمال الدین افغانی جیسے علماء نے اسلام کی نشاۃ ثانیہ کے لئے ایک تحریک شروع کر دی تھی۔ جمال الدین افغانی پیدائشی طور پر شیعہ تھے مگر انہوں نے اپنے نام کے ساتھ “افغانی” لگایا۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ وہ اسلام کے سنی مسلک کے لوگوں میں بھی اسلام کی نشاۃ ثانیہ کے افکار کو پھیلانے کے لئے “شیعہ سنی”  بحث سے دور رہنا چاہتے تھے، اس لئے انہوں نے افغانی کا لقب استعمال کیا۔ یاد رہے کہ ان کا انتقال 1897 میں کینسر سے ہوا۔

ہم جمال الدین افغانی کو  چھوڑ بھی دیں تو  ان کی  ایک بات دھیان میں رکھنی چاہئے کہ اس وقت ایران کے عوام میں مغربی استعمار کے خلاف ایک فضا پیدا ہو چکی تھی۔ یہ ایک معاشرتی ہیجان کی کیفیت تھی۔ حکومتی طبقے کے لوگ اپنی سرگرمیوں اور پالیسیوں کو  جدیدیت اور ترقی گردانتے تھے اور مذہبی طبقے سے تعلق رکھنے والے برطانیہ اور مغرب کے ساتھ تعلق کو اسلام کی اساس سے دوری تعبیر کرتے تھے۔ یہ تو ایک نظریاتی حوالہ ہے مگر اس وقت فضا یہ بھی تھی کہ جیسے ایران کو  مغرب کے غیر ملکیوں کے پاس نیلام کیا جا رہا ہے۔ اس بات سے خاص و عام سب نالاں تھے۔ جمال الدین افغانی کا حوالہ ایران میں اور دوسری جگہوں پر بھی مغرب کے خلاف بڑھتی ہوئی بدگمانی کو واضح کرنے کے لئے پیش کیا گیا ہے۔ اس کا ناطہ مستقبل کے ایرانی انقلاب کے ساتھ  جوڑنا ضروری نہیں۔

یہ وہی زمانہ تھا ایران کے شاہ مظفرالدین نے ایرانی حکومت کے مالی معاملات غیر ملکیوں کے سپرد کر دیئے جس نے اس خیال کو مزید تقویت دی کہ ایران کو غیر ملکیوں کے ہاتھوں بیچا جا رہا ہے۔ پیشتر اس سے کہ کچھ اور کہا جائے، ہمیں یہ ذہن میں رکھنا ہو گا کہ ایران کی تاریخ کی جو تصویر سامنے آرہی ہے وہ یہ ہے کہ مالی اور معاشی معاملات کے پہلو بہ پہلو عوامی سیاست کے طور اطوار بھی بدل رہے تھے۔ علماء کے ذریعے عوامی سیاست میں مذہب کی ڈائرکٹ دخل اندازی بڑھ رہی تھی۔ یہ بیسویں صدی کی ابتدا کیے حالات تھے۔ اس کے تقریبا” اسی سال کے بعد امام خمینی نے صاف لفظوں میں اعلان کر دیا کہ “اسلام سیاست ہے”۔ امام خمینی کا درجہ آیت اللہ اور  روح اللہ کا ہے، ان کے فرمان سے روگردانی  شیعہ مسلک سے وابستہ مسلمانوں کے لئے مشکل امر ہے۔

اب ہم واپس  بیسویں صدی کے شروع کے ایران کی طرف لوٹتے ہیں۔شاہ ایران نے معاشی مجبوریوں مگر انتظامی کمزویوں کے تحت  قرضوں کی بنیاد پر اپنی حکومت کو قائم رکھنا چاہا تو معاشرے میں اجتجاج کی لہر  جاگ اٹھی۔ احتجاج کی یہ لہر ہمیں امام رضا کے مقبرے تک لے جاتی ہے۔ شاہ کے اہل کاروں نے امام  رضا کے مقبرے کے اند احتجاج کرنے والوں پر فائرنگ کی تو پورے ایران میں نفرت کی آگ اور زیادہ بھڑک اٹھی۔ 1904  کا پرامن سیاسی اجتجاج “بست” کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ اسے  کئی دانشور پہلا انقلاب بھی کہتے ہیں۔ اس میں معاشرے کے چار اہم طبقوں کے نمائندے اکٹھے ہو گئے ۔۔۔ علماء، تاجر، خواص اور دانشور۔ سب نے مل کر “بست” اختیار کیا ۔ ایران کی روایت میں پرانے زمانے سے قانون کی گرفت سے بچنے کے لئے مقدس مذہبی مقامات پر اور  مذہبی رہنماوں کی پناہ میں”بست” اختیار کیا جاتا رہا تھا۔”بست” اپنے گھروں سے نکل کر کسی مقدس اور محفوظ جگہ پناہ لینے کا عمل ہے۔ 1904 کے سیاسی احتجاج “بست” میں قریبا” دو ہزار افراد تھے۔ یہ  ایک پرامن احتجاج تھا۔ یہ تعداد میں تو تھوڑے تھے مگر  انہوں نے احتجاج کے ایک نئے اور پرامن طریقے کی بنیاد رکھی۔ احتجاج کا یہی سلسلہ 1906 میں عددی اعتبار سے اور بڑا ہو گیا۔ اس دفعہ بست میں بارہ ہزار نمائندہ لوگ شامل ہوئے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ اس دفعہ ملک کے سبھی طبقات حکومت سے نالاں تھے۔ اور وہ سب “بست ” میں شامل ہوئے۔

بیسویں صدی کے ایران میں بادشاہوں سے اور  ان کی حکومت سے نالاں ہونے کی وجوہات میں ایران پر غیر ملکیوں کے تسلط کا ذکر بھی بہت اہمیت رکھتا ہے۔ ایران کا جنوبی علاقہ برطانوی کنٹرول میں تھا اور شمالی علاقے روس کی عملداری میں تھے جن میں مقامی ایرانیوں کو وہاں رہتے ہوئے بھی عملی طور پر دیس نکالا ملا ہوا تھا۔ مقامی لوگوں کے حقوق کی بات تو چھوڑ ہی دی جائے کیونکہ حقوق بنیادی طور پر غیر ملکیوں کے ہی تھے۔ مصدق کے زمانے میں اور اس کے بعد کچھ رد و بدل کے ساتھ یہ سلسلہ رضا شاہ دوم کے عہد میں بھی جاری رہا۔پہلوی خاندان نے تعلیم کو پھیلانے کے لئے  سکول اور کالج کھولے مگر ان میں سے فارغ التحصیل طلباء جب عملی زندگی میں آتے تو انہیں غیر ملکیوں کے مقابلے میں بہت کم تنخواہ ملتی تھی۔ رضا شاہ دوم کے زمانے میں ملازمتوں کا حصول قابلیت پر منحصر نہیں تھا۔ در پردہ “سواک” کی بلیک لسٹ والے طلباء کو ملازمت مشکل سے ملا کرتی تھی۔

محمد رضا شاہ پہلوی اور جدیدیت

پہلوی خاندان کے دونوں بادشاہوں کے عہد میں “ماڈرنائزیشن” ذکر بہت زیادہ آتا ہے اس کی بنیاد سکول اور کالج کی تعلیم اور ساتھ ہی یونیورسٹی کا قیام بھی ہے۔ بادشاہ رضا شاہ دوم نے کوشش کی کہ ایران کے اندر انڈسٹری میں اضافہ ہو۔ اس کے ساتھ زمین کے ملکیتی حقوق کے بارے میں بھی اصلاحات کیں۔ یہ سب پالیسیاں جنہیں ہم اصلاحات کہہ رہے ہیں، یہ کس حد تک اصلاحات تھیں یا کس حد ماڈرنائزیشن یا جدیدیت تھی؟ اس کے لئے تھوڑی تفصیل کی ضرورت ہے۔ہو سکتا ہے کئی طالب علموں کے ذہن میں جدیدیت یا ماڈرنائزیشن کا تصور واضح نہ ہو۔ اس لئے سب سے پہلے ماڈرنائزیشن کیا ہے؟ اس کو سمجھنے کے واسطے چند ایک بنیادی باتیں کرنا ضروری ہیں۔

ماڈرنائزیشن کے کم سے کم تین پہلو ہیں۔  سماجی، سیاسی اور معاشی۔ تاریخی طور پر ماڈرںائزیشن کا عمل سرمایہ دارانہ نظام کے ساتھ بندھا ہوا ہے۔ اس میں تعلیم اور اس کا نصاب سرمائے کے نظام کو چلانے اور قائم رکھنے کے لئے وضع کیا جاتا ہے۔ عوام زرعی پیداواری نظام کو چھوڑ کر صنعت و حرفت کو اپنانے لگتے ہیں۔ اس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ لوگ دیہاتوں سے اٹھ کرشہروں میں بسنے لگتے ہیں۔ ان کے روایتی سماجی بندھن ٹوٹتے ہیں۔ اس سےان کی سوچ میں انفرادیت اور انفرادی حقوق کے تصورات جنم لیتے ہیں۔ یہی تصور جب سیاسی نظریے میں ڈھلتا ہے تو ماڈرنائزیشن کا عمل جمہوریت کو اور جمہوری حقوق کو فروغ دیتا ہے بشمول عورتوں کے حقوق۔ اس میں ہر مذہب اور مکتبہ فکر کے حقوق برابر ہوتے ہیں۔یوں ماڈرنائزیشن اور سیکولرائزیشن ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑ چلتے ہیں۔ سرمایہ دارانہ نظام کے اندر یہ سماجی ارتقاء کا عمل ہے۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ اس نظام میں معاشرے کے سب طبقات کا ارتقاء برابر نہیں ہوتا اور یوں معاشرے کے اندر ناہمواری بڑھتی چلی جاتی ہے جسے کم کرنے کے لئے مختلف قسم کی تھیوریاں پیش کی جا رہی ہیں اور ان پر مباحث جاری ہیں۔ تاہم ان کے ذکر کا یہاں موقع نہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

https://www.mukaalma.com/108812/

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply