• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • انقلاب ایران: “اٹھا ہوں آنکھوں میں اک خواب ناتمام لیے”( قسط اول)… ڈاکٹر طاہر منصور قاضی

انقلاب ایران: “اٹھا ہوں آنکھوں میں اک خواب ناتمام لیے”( قسط اول)… ڈاکٹر طاہر منصور قاضی

ایڈیٹر نوٹ:

ڈاکٹر طاہر منصور قاضی طب کے پیشے سے وابستہ ہیں ۔علم وادب سے ان کا  شغف  ,تحقیق و جستجو کی راہوں میں سے موتی چن چن کر لاتا ہے۔انقلابات  زمانہ  ان کا خاص موضوع تحقیق ہے۔اس سے قبل مکالمہ پر ان  کی انقلاب فرانس  کے حوالہ  سے تحریر شائع ہوچکی ہے۔ اب کی بار  ڈاکٹر صاحب نے  انقلاب ایران کی مبادیات اور جدلیات پر ایک طویل  تحریر رقم کی ہے جس کو بالاقساط  مکالمہ پر پیش کیا جائے گا۔ ڈاکٹر صاحب نے کسی مذہبی بحث میں الجھے بغیر اس انقلاب کی بنیاد، اس کے مابعد انقلاب اثرات  پر ایک تجزیہ پیش کیا ہے۔ مکالمہ ان کی تحریر کو من و عن شائع کر رہا ہے۔ اگر کوئی صاحب  ان کے مکالمہ کا جواب دینا چاہیں تو یہ صفحات   ان کے نقطہ نظر کے لئے بھی حاضر  ہیں.

زیر نظر مضمون کی تحریک برادرم وجاہت مسعود کے ایک سوالیہ ریمارک سے ہوئی جو انہوں نے ہم سب پر شائع ہونے والے کالم “ڈاکٹر علی شریعتی، معاشرہ اور تبدیلی” پر دیا تھا۔ اس کالم کے مصنف محترم ڈاکٹر شاہد صدیقی تھے۔ وجاہت صاحب پوچھ رہے تھے،”سوال یہ ہے کہ فروری 1979 کا انقلاب ایران کیا علی شریعتی کے خواب کی تعبیر تھا؟ گزشتہ 40 برس سے ایران میں قائم سیاسی بندوبست کیا علی شریعتی کے افکار سے مطابقت رکھتا ہے؟” یہ سوال سن کر طالب علم کو حیرانی ہوئی کیونکہ اس طرح کے کاٹ دار سوال پوچھنے کا چلن عام نہیں۔ ان دو سوالوں کے اندر انقلابات عالم کے ساتھ وابستہ سسکتی امیدوں اور تاریخ کے المیے کی ایک لمبی داستان ہے۔

ایران کی محبوب شاعرہ فروغ فروخ زاد  کا خواب “اگر بہ خانہ من آمدی برای من ای مہربان چراغ بیار ۔۔ و یک دریچہ کہ از آن ۔۔ بہ ازدحام کوچہ خوش بخت بنگرم”۔ اے مہربان تم اگر میرے گھر  آؤ تو میرے لئے ایک چراغ لیتے آنا اورایک دریچہ بھی جس میں سے میں ہجوم خوش بختاں کو دیکھ سکوں۔ انقلاب کے بارے میں رومانوی تصورات ہر قوم اور ہرنسل کا خاصہ ہیں مگر انقلابات کی تاریخ کےعالمی تجزیہ نگار وینڈیل فلپس Wendell  Phillips  کا مشہور قول یاد آیا: “انقلاب پرپا نہیں کیے جا سکتے، یہ خود سے آتے ہیں Revolutions  are  not  made, they  come”۔ اس تاریخی حقیقت اور رومانوی تصور کے درمیان ہماری خوش نوا شاعرہ کا خواب کہاں تجسیم ہوا اور کہاں بکھرا۔ یہ تاریخ کی پگڈنڈیوں کا سفر ہے۔ آیئے دیکھتے ہیں۔

انقلاب میں شخصیات کی اہمیت

ڈاکٹر علی شریعتی اپنے زمانے کا بہت بڑا نام تھے۔ کئی لوگ انہیں انقلاب ایران کا والٹیر  کہتے ہیں۔ بہت سے لوگ انقلاب کو شخصیات کا مرہون منت سمجھتے ہیں اور یہ خیال بہت عام ہے۔ انقلابات عالم کا ادنی  طالب علم ہونے کے ناطے عین ممکن ہے یہ کم علمی ہو  مگر یہ طالب علم اس رائے سے اختلاف رکھتا ہے کہ صرف شخصیات انقلاب کی محرک ہوتی ہیں۔ اس بارے میں تو دو رائے نہیں ہو سکتیں کہ انقلاب کے دوران زور آور شخصیات ابھر کر سامنے آتی ہیں جو یقینا” اہم ہو تی ہیں۔

انقلاب قوموں کے پاوں تلے زمین ہلا دیتے ہیں اور عالمی سیاست کا منظر نامہ بدل کر رکھ دیتے ہیں۔ انقلابات کی تاریخ اور تھیوری کو پڑھتے ہوئے  طالب علم یہ سمجھنے سے ہمیشہ قاصر رہا ہے کہ انقلاب کو کیسے کسی ایک شخصیت کے ساتھ منسوب کیا جاسکتا ہے؟ یہ بات  ایران کے ڈاکٹر علی شریعتی اور انقلاب فرانس کے والٹئر دونوں کے باب میں درست ہے۔اور  یہ بات اسی طرح امام خمینی کی شخصیت کے لئے بھی درست ہے۔ انقلاب ایران میں اور بھی بہت سی شخصیات کا نام اہم ہے۔ ان میں مہدی بازرگان جو روشن خیال جمہوری اسلام کے حامی تھے۔ ان کےعلاوہ بھی کئی اور اہم نام لئے جا سکتے ہیں۔ ایران کی بائیں بازو کی جماعت تودھے پارٹی اور لبرل قوم پرست جماعتیں بھی اہم ہیں۔ اس انقلاب میں کسان، دیہاتی اور شہروں میں بسنے والے سبھی لوگ شامل تھے۔ ایران کے اس وقت کے معروضی حالات کے نتیجے میں رضا شاہ پہلوی کی حکومت کے خلاف  کئی گوریلا گروپ بھی وجود میں آ چکے تھے لیکن ساری بات کا مقصد یہ ہے کہ 1979  کا انقلاب ایران کسی ایک شخص  یا  کسی ایک گروپ کی چابک دستی کا نام نہیں۔

ایرانی  انقلاب کے موضوع پر تجزیاتی کتابوں میں ڈاکٹر شریعتی کا نام حوالے کے طور پر دو طرح سے آتا ہے۔ ایک تو یہ کہ وہ شاہ کے مخالف تھے اور  دوسرے انہوں نے مذہبی دائرے میں رہتے ہوئے کلچر میں آزاد فکر  انقلابی مذہبیات کے خدو خال پیش کئے۔ ان سے نسبت رکھنے والوں میں یونیورسٹی کےطلبا اور درمیانے طبقے سے تعلق رکھنے والے فکری طور پر آزاد لیکن مذہبی روایت سے وابستہ لوگ تھے۔ کہتے ہیں کہ تہران میں ان کے لیکچر کو سننے کے لئے بہت بڑا مجمع اکٹھا  ہو جاتا تھا۔

ڈاکٹر شریعتی کے خیالات سے متاثر “مجاہدین”  کےنام سے  ایک تشدد پسند گروپ نے بھی جنم لیا جو  ستر کی دہائی میں خاص طور پر شاہ پہلوی کے زیر عتاب رہا۔ ڈاکٹر شریعتی کے افکار اور مجاہدین کی کاروائیاں دیکھ کر محسوس ہوتا ہے کہ مجاہدین کا گروپ ڈاکٹر شریعتی  کے افکار کے مقابلے میں بہت زیادہ تشدد پسند تھا۔ ڈاکٹر شریعتی مذہبی خیالات اور مشرقی اور مغربی تعلیم کا خوبصورت نمونہ تھے مگر وقت کی مصلحت ان کے حق میں نہیں تھی۔ شاہ کے دور میں ڈاکٹر شریعتی کو قید و بند کی صعوبتوں سے گزرنا پڑا اور پھر دیس نکالا دیا گیا۔ انہوں نے 1977 میں پراسرار حالات میں انگلینڈ میں وفات پائی۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ انہیں قتل کیا گیا تھا کیونکہ وہ شاہ کی آمریت کے خلاف تھے۔

امام خمینی انقلاب ایران کی اہم  ترین شخصیت ہیں۔ ان کا نام ایران کے انقلاب کےساتھ لازم و ملزوم ہے۔ امام خمینی  یکم فروری 1979 کو پندرہ سال کی جلاوطنی کے بعد فاتح کی حیثیت سے ایران واپس آئے۔ اس کے باوجود ہم یہ سمجھتے ہیں کہ دنیا کے دیگر انقلابات کی طرح انقلاب ایران میں یہ سب شخصیات اس وجہ سے اہم ہوگئیں  کیونکہ اس وقت ایران کی زمین انقلاب کے پچیدہ مگر غیر واضح مراحل سے گزرنے کے لئے بالکل تیار تھی۔ ہمارے مطالعے اور تجزیے کے مطابق ایران میں احتجاج اور مزاحمت کے کلچر  کی روایت بہت پرانی ہے جس کا تعلق شیعہ مسلک کی تاریخ اور اس کی کلچرل روایت سے ہے جس کی تفصیل  پرفیسر حامد داباشی کی کتاب “شیعہ ازم” میں بڑی خوبصورتی سے بیان کی گئی ہے۔   اس وقت کتاب پر تبصرہ کرنے کا محل نہیں۔ اسے ہم کسی اور دن پر اٹھا رکھتے ہیں۔

انقلاب ایران سے پہلے ساٹھ کی دہائی میں امام خمینی نے احتجاج اور مزاحمت کی روایت کو جہاں بھی ممکن ہوا سماجی سیاست کے لئےاستعمال کیا۔ اس طریقہ احتجاج کے علم برداروں میں شیعہ مسلک سے تعلق رکھنے والے اور بھی بہت سےعلماء اور رہنما شامل تھے۔ جب خمینی صاحب پردیس میں تھے تب بھی ان مذہبی راہنماوں نےاحتجاجی سیاست کو برقرار رکھا۔ اسی لئے کچھ عالمی دانشور انقلاب کے عمل میں احتجاج کے کلچر کو بڑی اہمیت دیتے ہیں۔ ان کے مطابق یہ مزاحمت کا کلچر ہے جو انسان  کی آرزوں اور امنگوں پر پروان چڑھتا ہے مگر انقلاب کے عمل میں شخصیت کے کردار کو سمجھنے کے لئے ہمیں ایران کے انقلاب کی وجوہات  کا جائزہ لینا ہو گا۔ اس لئے شخصیات کی گفتگو  کو ہم یہیں چھوڑ دیتے ہیں۔

تاریخ کے تناظر میں انقلاب کی نیچرل ہسٹری

ایران میں انقلاب کی تفصیل سے پہلے تھوڑی سی تمہیدی بات دنیا میں برپا ہونے والے انقلابات کی “نیچرل ہسٹری” پہ ضروری ہے تاکہ تجزیہ کرنے میں آسانی رہے۔ ہماری نظر میں انقلاب ایک واقعہ نہیں بلکہ  واقعات کا تسلسل ہے جو ایک لمبے عرصے پر محیط ہوتا ہے۔ معاشرتی انقلاب کے محققین نے انقلاب کو  کم سے کم تین حصوں میں بانٹ رکھا ہے ۔۔۔ انقلاب کی وجوہات، ا نقلابی عمل اور انقلاب کے نتائج۔

انقلاب کی وجوہات، انقلابی عمل اور نتائج، یہ تینوں حصے سیدھی لکیر  کبھی نہیں ہوئے۔ یہ ایک رولر کوسٹر  کی طرح ہوتے ہیں۔ انقلاب کے راستے میں انجانے پیچ و خم کے علاوہ بے شمار ان دیکھے خطرات اور مقامات بھی آتے ہیں جن کی وجہ سے انقلاب کی وجوہات موجود ہونے کے باوجود ، انقلابی عمل کی کامیابی کی ضمانت نہیں ہوتیں۔ انقلابی عمل کہیں بھی ادھر ادھر بھٹک سکتا ہے اور اس کا اثر لامحالہ انقلاب کے نتائج پر پڑتا ہے۔ پروفیسر چارلس ٹلی  Charles  Tilly   کہتے ہیں کہ نچلے طبقے کےعوام کے اکٹھے ہو جانے سے ریاست کے خلاف جذبات کو انقلابی عمل میں ڈھالنے اور اسے قائم رکھنے کے لئے “تنظیم”  کا ہونا لازمی امر ہے۔  یہی وجہ ہے کہ تاریخ عالم میں بہت سی جگہوں پر انقلاب کے واسطے موزوں حالات کے باوجود  تاریخ میں انقلاب بہت کم آئے ہیں۔ ہمیں تاریخ میں بغاوتیں اور انقلابی لہریں تو بہت ملتی ہیں مگر اس کے مقابلے میں انقلاب بہت کم برپا ہوئے ہیں اور  جہاں برپا ہوئے، وہاں بھی انقلابی عمل کے ساتھ وابستہ توقعات تشنہ ہی رہی ہیں۔ ایرانی انقلاب میں بھی یہی ہوا۔

پہلوی خاندان کی بادشاہت

ایران میں انقلاب کی سونامی نے پہلوی خاندان کی حکومت کا تختہ الٹا جس کے ساتھ ہی ایران میں ڈھائی ہزار سالہ لمبی بادشاہت کا سلسلہ اپنے اختتام کو پہنچا۔ پہلوی خاندان کے صرف دو بادشاہ ہوئے جن کا مجموعی زمانہ 54 برسوں پر محیط تھا۔ پہلوی بادشاہت کی بنیاد محمد رضا شاہ پہلوی کے والد نے برطانوی اور روسی  اہلکاروں کی مدد سے  1925 میں رکھی تھی۔ 1941 میں روس اور برطانیہ کی ساز باز پر  تخت اپنے بیٹے محمد رضا شاہ کے حوالے کر دیا اور خود  جنوبی افریقہ میں جلا وطن ہوئے۔ ان کی وفات بھی وہیں ہوئی۔ مگر لطف کی بات یہ ہے کہ محمد رضا شاہ کی تاج پوشی تخت سنبھالنے کے چھبیس سال بعد ہوئی۔کہتے ہیں کہ بادشاہ محمد رضاشاہ نے اپنی تاج پوشی کےالتوا کی وضاحت یوں کی کہ وہ تاج سر پہ رکھنے سے پہلے بادشاہت کے  قابل ہو جانا چاہتے تھے۔ بادشاہوں کےمنطق عجیب ہوتے ہیں۔ایران کے پہلوی خاندان کے دوسرے بادشاہ محمد رضا شاہ پہلوی حکومت تو  بزور بازو کرتے رہے مگر انہوں نے چھبیس سال تک اپنے آپ کو بادشاہت کے قابل نہ سمجھا۔ کیسی منطق ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ تاریخ کے بہاو میں یہ ان کی شاہانہ قابلیت ہی تھی جو  بالآخر انقلاب پر منتج ہوئی، تو یہ بات  درست ہے مگر  مکمل درست نہیں۔  اس کے لئے ہمیں تاریخ کے کئی اور اوراق پلٹنے ہوں گے۔

رضا شاہ پہلوی دوم ایران کے مطلق العنان بادشاہ  تھے اور اس کے لئے انہوں نے فوج اور پولیس کے علاوہ ‘سواک” جیسی خفیہ اور  تشدد پسند تنظیم بھی پال رکھی تھی۔ وہ سمجھتے تھے کہ تشدد پر مامور یہ تنظیمیں ان کے مفادات اور ان کی بادشاہت کی ضمانت ہوں گی مگر یہ خام خیالی تھی۔ تاریخ میں زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں، سب جانتے ہیں کہ رضا شاہ  دوم بھی پہلے باشاہوں کی طرح دنیا کے عالمی سرمایہ دارانہ نظام کا حصہ تھے اور ایران میں اسی نظام کا پرچار کرتے تھے اور اسی نظام کے مفادات کے محافظ تھے۔  ان کے زمانے میں ایران کی ملکی معیشت کا دارومدار تیل کی آمدنی پر تھا۔ ایران میں تیل کے وسائل  پر تاریخی طور پر برطانوی اجارہ داری تھی جسے وزیراعظم مصدق نے پچاس کی دہائی میں بڑی حد تک آزاد کرایا تھا۔

مصدق حکومت کی تیل کی پالیسی اور حکومت کا خاتمہ

1953 میں ایک عالمی سازش کے تحت برطانیہ،سی،آئی، اے اور بادشاہ محمد رضا شاہ پہلوی  کی ملی بھگت سے وزراعظم مصدق کی حکومت ختم کر دی گئی۔ 1953 میں مصدق کا تختہ الٹنے کے پلان کی تفصیلات شائع ہو چکی ہیں [سی، آئی، اے کی یہ تمام دستاویزات عام مطالعے کے لئے کھول دی گئی ہیں اور انٹرنیٹ پر موجود ہیں] ۔ وزیراعظم مصدق نے تیل کی صنعت کو قومیانے کے بعد اس آمدنی کو سماجی ترقی کے لئے استعمال کرنے کے بارے میں سوچنا شروع کردیا تھا۔ مصدق کے بعد تیل کی آمدن کے فوائد کو عام آدمی تک پہنچانے کی سوچ کو  حکومتی پالیسی میں سرے سےنظر انداز کر دیا  گیا ۔ مصدق کا تختہ الٹنے کے پلان کی تفصیلات پڑھ کر معلوم ہوتا ہے کہ مصدق کی حکومت کو ختم کرنے کی سازش میں رضا شاہ دوم کی درپردہ آشیرباد کے علاوہ فوج اور بازاری دکانداروں کے علاوہ بہت سے شیعہ مذہبی علماء  بھی تھے جوسی، آئی، اے کے پلان میں باقائدہ حصہ دار تھے۔

مصدق کی قوم پرست پالیسیاں سرمایہ دارانہ نظام کے مفادات پر زد لگا رہی تھیں، اس لئے وزیراعظم مصدق کو راستے سے ہٹانا ضروری تھا۔ مصدق سے پہلے تیل کی آمدنی پر ایران کا حصہ صرف 16 فیصد تھا۔ وزیراعظم مصدق کی قانونی ترمیمات کے نتیجے میں ایران کی تیل کی آمدنی میں بے پناہ اضافہ ہوا۔ مصدق کے جانے کے بعد رضا شاہ دوم اس دولت کے سیاہ و سفید کے مالک تھے۔ انہوں نے اپنے عسکری اخراجات میں بھی اسی تناسب سے اضافہ کر دیا اور شاہ دلی کے ساتھ  مغرب سےاسلحہ کی خریداری  کی گئی۔ اس کے کئی دور رس نتائج نکلے جو بالآخر 1979 کے انقلابپر  منتج ہوئے۔ ایران کے انقلاب کی وجوہات تلاش کرتے ہوئےمعاشی صورت حال پر گفتگو ہم آگے جا کر کریں گے۔

ایران میں تیل کی آمدنی کے تناظر میں کچھ بات ” ریسورس کرس   Resource  Curse”  کی بھی ضروری ہے۔ تاریخی اور سماجی تجزیات ہمیں بتاتے ہیں کہ اگر کسی ریاست کا ذریعہ آمدن زمینی وسائل ہوں تو  حکومت کا انتظام و انصرام عوام کی بجائے ایک چھوٹے سے مفاد پرست طبقے کے ہاتھ میں چلا جاتا ہے اور یوں ریاست بالواسطہ امراء کے مفادات کی محافظ بن جاتی ہے۔ ایران میں بھی دولت اور حکومتی طاقت ایک چھوٹے سے طبقے کے ہاتھوں میں ارتکاز کر رہی تھی جو سیاست میں شاہ کے قریب تھے اور صاحب اختیار تھے۔ تیل کی آمدنی کے فوائد عام آدمی تک پہنچ نہیں رہے تھے۔ اس میں شک نہیں کہ شاہ نے تعلیم کے میدان میں کچھ پیش رفت کی مگر ملکی دولت جس تیزی کے ساتھ بادشاہ کے حواریوں کے ہاتھوں میں جمع ہو رہی تھی اس کا عشر عشیر بھی سماجی ترقی پر خرچ نہیں ہوا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے۔۔۔۔۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”انقلاب ایران: “اٹھا ہوں آنکھوں میں اک خواب ناتمام لیے”( قسط اول)… ڈاکٹر طاہر منصور قاضی

  1. اب تک کی تحریر میں ‘انقلاب سے وابستہ علمی بحث ‘ اور اس وقت کے ایران کے زمینی حقائق پر بہت عمدگی کے ساتھ روشنی ڈالی گئی ہے ۔
    ہمیں اگلی تحریر کا شدت سے انتظار رہے گا ۔
    میری درخواست ہے کہ ڈاکٹر صاحب اردو کے محاورے ‘ آسمان سے گرا، کھجور میں اٹکا ‘ والی کیفیت پر بھی بات کریں گے تاکہ کسی بھی سرزمین پر رونما ہونے والے انقلاب کے نتیجے میں عوام الناس کے بنیادی مفادات کے تحفظ کو یقینی بنایا جا سکے

Leave a Reply