چند سوال۔۔محمد عامر خاکوانی

وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے حوالے سے بہت کچھ صحافتی، سیاسی میدان میں گردش کر رہا ہے۔ بہت سی خبریں، افواہیں، سازشی تھیوریز ، سینہ گزٹ وغیرہ وغیرہ۔ ان میں سے کچھ ایسا ہے جو ہم اخبار میں لکھ نہیں سکتے کہ کل کو اسے ’’فیک نیوز‘‘کے زمرے میں شمار نہ کر لیا جائے۔ سچ تو یہ ہے کہ دور کہیں ،کسی دوسرے دیس میں مختلف لوگوں کی ملاقاتوں کے حوالے سے ثبوت تو کسی کے پاس موجود نہیں۔ ایسی ملاقاتوں کی پریس ریلیز جاری ہوتی ہے اور نہ ہی تصویر بنتی ہے۔ اخبار نویس مختلف حلقوں سے رابطوں میں رہتے ہیں، خبر ان کی ضرورت ہے ،اس کے لئے وہ کبھی لیڈروں سے براہ راست پوچھتے ہیں، کبھی صف دوم، سوم کے رہنماؤں کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر چپکے سے دریافت کرتے ہیں، ایسا بھی ہوتا ہے کہ کوئی دھماکے دارخبر کسی عام کارکن یا اپنے لیڈر کی ڈرائیوری ٹائپ خدمات انجام دینے والے حامی سے مل جاتی ہے۔ ایسی خبروں کاکوئی ٹھوس ثبوت نہیں ہوتا۔ جس نے خبر دی، بعد میں وہ بھی انجان بن جاتا ہے۔اخبارنویس اس لئے ایسی خبروں کو مختلف طریقوں سے چیک کرتے ہیں ۔ ایک خبر کو مختلف ذرائع سے جانچا جاتا ہے۔ کاؤنٹر چیک در چیک کے بعد ہی کچھ صورت بنتی ہے، اسے بھی یوں اٹھا کر چینل یا اخبار میں چلا نہیں دیا جاتا۔ محتاط صحافی اپنی خبر باؤنس ہونے سے ہمیشہ محتاط رہتا ہے۔ صحافتی دنیا میں’’ ذرائع کے حوالے سے‘‘ خبر دینے کا ایسا جگاڑ ہے جو بہت کچھ ڈھانپ دیتا اور بہت سوں کا پردہ رکھ لیتا ہے۔

کہنا یہ تھا کہ کئی ارکان اسمبلی کی مبینہ فہرستیں ہمارے سامنے بھی ہیں جن کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ وہ تحریک کے موقعہ پر اپنی پارٹی گائیڈلائن سے ہٹ کر ووٹ دیں گے۔ جوڑ توڑ ، ملاقاتیں، خفیہ ملاقاتیں، ان سب کے حوالے سے بھی بہت کچھ ایسا ہے جو اشاروں کنائیوں میں بیان کیا جا سکتا ہے، مگر اس سے کچھ فرق نہیں پڑنا۔ ہمارے ہاں حکومتوں کی تبدیلی کا پہیہ کچھ اور ہی انداز سے چلتا ہے ، کامیابی بھی پس پردہ عوامل کے باعث ہوتی ہے، ناکامی بھی۔ تحریک عدم اعتماد پر غور کرتے ہوئے میرے ذہن میں چندسوال ایسے پیدا ہوئے ہیں جو میں قارئین کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں۔

اگر معاملات اسٹیبلشمنٹ ہی سے طے کرنے تھے تو پھر یہ اینٹی اسٹیبلشمنٹ بیانیہ کیوں چلایا جاتا رہا؟

یہ وہ سوال ہے جو اپوزیشن جماعتوں کے کارکنوں اور حامیوں کو اپنے لیڈروں سے پوچھنا چاہیے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ عمران خان کے خلاف ان کا غصہ اور نفرت اتنی زیادہ ہے کہ وہ شائد اس سوال پوچھنے کی ضرورت محسوس نہ کر پائیں،مگر یہ اہم سوال ہے۔ مسلم لیگ ن اور میاں نواز شریف نے پچھلے چار برسوں میں مسلسل اینٹی اسٹیبلشمنٹ بیانیہ کو زور شور سے بیان کیا۔ بڑے میاں صاحب اور ان کی صاحبزادی مریم بی بی نے اپنی متعدد تقریروں، بیانات اور گفتگو  میں اس پر زور دیا کہ وہ سویلین بالادستی کے حامی ہیں، ان کا کہنا تھاکہ اسٹیبلشمنٹ کو اپنا کردار تبدیل کر دینا چاہیے، وغیرہ وغیرہ۔ سوال یہی ہے کہ کیا وہ تمام مقاصد حاصل کر لئے گئے ہیں؟ کیا اسٹیبلشمنٹ اپنے سیاسی کردار سے تائب ہوگئی ہے؟ کیا نادیدہ قوتوں نے اب یہ تہیہ کر لیا ہے کہ آئندہ کبھی وہ سیاسی محاذ میں دخل نہیں دیں گے اور تمام معاملات صرف سیاستدان چلائیں گے؟کیا واقعی ایسا ہوگیا ہے؟

اگر ایسا ہے تو اس کے مظاہر کیوں نظر نہیں آ رہے ؟

یہ درست کہ اس وقت اسٹیبلشمنٹ عمران خان کے ساتھ کھڑی نظر نہیں آ رہی ۔ غیر جانبداری کے نام پر وزیراعظم کو بے دست وپا چھوڑ دیا گیا ہے۔ اس کی وجوہات بھی سب کے سامنے ہیں کہ ایسا کب ہوا اور وزیراعظم نے کون سی ایسی غلطی کی تھی جس کے بعد غیر جانبداری کی اہمیت کو پہچان لیا گیا۔ ہمارے ماضی میں ایسا پہلے بھی ہوتا رہا۔ خود نواز شریف صاحب کو 1990ء میں اسٹیبلشمنٹ لے کر آئی اور صرف دو ڈھائی سال کے اندر ہی سول ملٹری اسٹیبلشمنٹ میاں نواز شریف کے خلاف کھڑی ہوگئی۔ غلام اسحاق خان جو اسٹیبلشمنٹ کے نمائندہ ہی سمجھے جاتے تھے، وہ جوش وخروش سے سویلین وزیراعظم کے خلاف کھڑے ہوئے ، اپوزیشن کا ہاتھ تھام لیا ۔ جنگ اتنی بڑھی کہ خود غلام اسحاق خان کو بھی وزیراعظم کے ساتھ ہی جانا پڑا اور اگلی باری تب کی اپوزیشن جماعت پیپلزپارٹی کو مل گئی۔ ایسا کرنے سے مگر کیا اسٹیبلشمنٹ پسپا ہوگئی تھی؟

نہیں ایسا نہیں ہوا بلکہ صرف دو ڈھائی سال بعد پھر سے محترمہ بے نظیر بھٹو کو رخصت ہونا پڑا۔ اس بار صدر لغاری نے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ہاتھ ملا لیا تھا۔ اپوزیشن جماعتوں کے کارکنوں اور نظریاتی حامیوں کو اپنے رہنماؤں سے یہ بھی پوچھنا چاہیے کہ حکومتی اتحادیوں سے مذاکرات کر کے انہیں الگ کرنے کی کوئی سیاسی توجیہہ ہوسکتی ہے۔ فارورڈ بلاک کے نام پر ہارس ٹریڈنگ کر کے چند لالچی، مفاد پرست حکومتی ارکان اسمبلی کو ساتھ ملانے سے کون سی جمہوری روایات کی پاسداری ہو گی؟

ویسے تو فارورڈ بلاک کی اصطلاح بھی استعمال نہیں ہونی چاہیے، اس اصطلاح کا ایک نظریاتی پس منظر ہے، ہندوستان میں یہ کانگریس پارٹی کے سبھاس چندر بوس (نیتاجی)کے حامیوں کے لئے استعمال ہوئی تھی، جب وہ گاندھی جی سے اختلافات کی بنا پر کانگریس میں اپنا الگ دھڑا بنانے پر مجبور ہوئے۔ وہ نظریاتی دھڑا تھا، اگلے الیکشن کی ٹکٹ یا کروڑوں روپے مبینہ کیش یا دیگر مفادات کے حصول کی خاطر نہیں بنایا گیا تھا۔ ہمارے ہاں نوے کے عشرے میں بھی ہارس ٹریڈنگ گروپ بنے ، اس کے بعد بھی ایسا ہوا، آج پھر ہونے جا رہا ہے اور یہ سب خود کو نام نہاد فارورڈ بلاک کہلاتے ہیں۔ ہمیں کم از کم اصطلاحات کے حوالے سے تو واضح اور یکسو ہونا چاہیے۔ ایک سوال وزیراعظم عمران خان سے بھی پوچھا جانا چاہیے کہ جو بلنڈر انہوں نے پچھلے ساڑھے تین برسوں میں کئے ہیں، اب چند دنوں میں اس کی تلافی کیسے کر لیں گے؟

سب سے بڑی سیاسی غلطی انہوں نے پنجاب جیسے بڑے صوبے میں ایک نہایت کمزور، اوسط سے کم درجے کے ،سیاسی تدبر وبصیرت سے عاری شخص کو وزیراعلیٰ بنا کر کی۔ جو صاحب زیادہ سے زیادہ پارلیمانی سیکرٹری یا مشیر بننے کے لئے موزوںہوسکتے تھے،انہیں وزیراعلیٰ بنا دیا گیا۔ صرف اس لئے کہ وہ صوبے میں اپنی مرضی سے کچھ نہ کر یں گے اور خان صاحب اسلام آباد سے ریموٹ کنٹرول کے ذریعے صوبہ چلا پائیں گے۔ خان صاحب راضی ہوگئے ؟ پنجاب انہوں نے اسلام آباد سے چلا لیا؟ پنجاب میں شائد ایک بھی ایسا شخص نہ ہو جو وزیراعلیٰ کی کارکردگی سے مطمئن ہو، مگر وزیراعظم اپنے ہر دورے میں بزدار صاحب کے قصیدے پڑھتے رہے، ان کی حمایت کا عندیہ دیتے رہے۔ آج اس کا نتیجہ سامنے ہے۔ پنجاب میں اپوزیشن کی گروپنگ اور جوڑ توڑ کو ناکام بنانا وزیراعلیٰ کی سیاسی ذمہ داری تھی، اس میں وہ کس حد تک کامیاب ہوئے؟

حیران کن بات یہ ہے کہ جس ضلع اور ڈویژن سے ان کا تعلق ہے، وہاں کے ارکان اسمبلی تک ان سے سخت ناخوش ہیں۔ پی ٹی آئی کے جن چند مبینہ ناراض ارکان اسمبلی کی کہانیاں چل رہی ہیں، ان میں سے نصف کے قریب جنوبی پنجاب بلکہ ملتان اور ڈی جی خان ڈویژن سے بتائے جاتے ہیں۔ وزیراعظم سے یہ بھی پوچھا جانا چاہیے کہ ساڑھے تین سال تک انہوں نے اپنے اتحادیوں کو بھلائے رکھا، اپنے ارکان اسمبلی کو وقت نہیں دیا۔ بتایا جاتا ہے کہ کئی ارکان اسمبلی دو دو سال تک کوشش کے باوجود ملاقات کے لئے علیحدہ وقت نہ لے پائے۔ ایساوزیراعظم کی غیر ذمہ داری اور سیاسی بے تدبیری سے ہوا۔ انہیں اپنی پاور بیس کا علم ہونا چاہیے تھا۔ اپنے ساتھیوں کو اگر وہ وقت نہیں دیں گے، ان کے شکوے نہیں سنیں گے تو مشکل وقت میں ان سے کیوں امید رکھی جائے؟

Advertisements
julia rana solicitors

جہانگیر ترین جیسے سیاسی طور پر مفید اور جوڑ توڑ کے ماہر شخص کو خان صاحب نے نہایت معمولی ، سطحی باتوں پر ضائع کیا۔ عبدالعلیم خان کو بزدار صاحب کی خاطر گنوا دیا۔ خان صاحب نے اپنے ان قابل اعتماد ساتھیوں کو اپنے سے دور کر دیا، جن کی وجہ سے وہ اقتدار میں آئے۔ اگر وہ تجربہ کار، زمانہ شناس لوگ ساتھ ہوتے تو شائد جس بحران کا انہیں آج سامنا ہے، وہ پیدا ہی نہیں ہوتا۔ جنوبی پنجاب صوبے کے نام پر سیکریٹریٹ کے لالی پاپ کے سوا کچھ بڑا کام نہیں کیا جا سکا۔ اگر نئے اضلاع بنائے جاتے، احمد پورشرقیہ، خان پور، تونسہ، چشتیاں ، جام پور وغیرہ کو ضلع بنایا ہوتا تو مقامی سطح پر اس کی بے پناہ پزیرائی ہوتی۔ جنوبی پنجاب کے طلبہ کے سر سے انٹری ٹیسٹ کا آسیب ہٹا دیا جاتا، ان کے لئے علیحدہ صوبائی پبلک سروس کمیشن بنتا، نوکریوں کا کوٹہ ہوتا تو آج جنوبی پنجاب کے ارکان اسمبلی کے لئے الگ ہونے کا تصور بھی مشکل ہوجاتا۔ ہر ایک کے لئے الیکشن اہم ہوتا ہے۔ اگر جنوبی پنجاب میں پی ٹی آئی کی لہر چل رہی ہوتی تو الیکٹ ایبلز تک ان سے الگ ہونے کا نہ سوچ پاتے۔ عمران خان نے ہر چیز میں بہت دیر کر دی۔ ملازمتوں کا کوٹہ رکھنے کا اعلان کیا گیا تو کیا فائدہ ؟انہیں غالباً یہ مشورہ دیا گیا ہوگا کہ آخری سال نئے اضلاع بنائے جائیں۔ اگر انہیں آخری سال حکومت کرنا نصیب ہی نہ ہوا تو پھر ؟خان صاحب کو اپنی غلطیوں کا بھی جائزہ لینا چاہیے۔ ممکن ہے قدرت انہیں ایک موقعہ اور دے، تب وہ اپنی اصلاح کر سکیں گے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply