• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • سٹریس کو رب کے کھونٹے پر ٹانگ دیں( سٹریس ویکسین سیریز )قسط7۔۔عارف انیس

سٹریس کو رب کے کھونٹے پر ٹانگ دیں( سٹریس ویکسین سیریز )قسط7۔۔عارف انیس

آپ نے سٹریس ٹری والی کہانی تو سنی ہی ہوگی۔
ایک امیر کبیر شیخ صاحب اپنے نئے گھر کی تزئین و آرائش کے لیے لکڑی کے کام کے ماہر کنٹریکٹر بڑھئی کو اجرت پر رکھتے ہیں۔ پہلے دن جب غلام رسول کام پر آتا ہے تو اس کی گاڑی کا ٹائر پنکچر ہوجاتا ہے اور وہ دیر سے پہنچتا ہے، پھر اس کا بجلی کا آرا کام کرتے کرتے جل جاتا ہے۔ جب کام ختم ہوتا ہے تو اس کی گاڑی کا انجن سٹارٹ ہونے سے انکاری ہوجاتا ہے۔ شیخ صاحب سوچتے ہیں کہ دن بھر کام کیا ہے، ساتھ ہی گھر ہے خود ہی چھوڑ آتا ہوں۔
گاڑی میں واپس آتے وقت شیخ صاحب نے دیکھا کہ غلام رسول بارہ، تیرہ گھنٹے کے مسلسل کام کی وجہ سے اور شاید آج کے دن پے درپے پڑنے والی مصیبتوں کی وجہ سے بجھا ہوا اور آوازار سا بیٹھا ہے ۔ جب اس کے گھر کے باہر پہنچے تو اس نے ضد کر کے شیخ صاحب کو چائے پر روک لیا۔ شیخ صاحب نے دیکھا کہ وہ ایک دس مرلے کا مناسب مگر بہت ہی آراستہ گھر تھا جس سے اس کے مکینوں کا عمدہ ذوق چھلک رہا تھا۔

گھر میں داخل ہوتے وقت غلام رسول باہر موجود درخت کے سامنے رکا، پھر شیخ صاحب کو لگا جیسے اس نے کوئی چیز اپنے گلے سے اتار کر درخت پر ٹانک دی ہو۔ گھر کے اندر پہنچے تو شیخ صاحب کو غلام رسول کی حالت میں نمایاں تغیر محسوس ہوا۔ اب بجھا ہوا ہونے کی بجائے وہ چہک رہا تھا اور بات بات پر قہقہے لگا رہا تھا۔ شیخ صاحب رہ نہ سکے اور انہوں نے پوچھ ہی لیا کہ اچانک اس میں کوئی کیا تبدیلی آگئی۔

“شیخ صاحب، میرے گھر کے دروازے پر جو برگد کا درخت ہے، یہ راز اس میں چھپا ہوا ہے۔ جب میں دن بھر کے کام کاج کے بعد واپس آتا ہوں تو اپنے کام کے سارے مسائل، سب تفکرات، سارے سٹریس اس درخت پر لٹکا دیتا ہوں۔ تصوراتی طور پر یوں سمجھیں کہ اپنے گلے سے اتار کر اس درخت کے گلے میں ڈال دیتا ہوں۔ صبح کام پر جاتے ہوئے دوبارہ دیکھتا ہوں اور جو مسئلے، تفکرات، سٹریس موجود ہوتے ہیں انہیں وہاں سے اتار کر گلے میں ڈالتا ہوں اور کوشش کرتا ہوں کہ زیادہ سے زیادہ کو اس دن نبٹا ڈالوں۔ بس فائدہ یہ ہوتا ہے جب رات کو اپنے تفکرات اس درخت کے ساتھ لٹکا دیتا ہوں تو ہلکا پھلکا ہوجاتا ہوں، مجھے انہی مسائل کے ساتھ سونا نہیں پڑتا “۔

آپ میں سے کتنے افراد اس طرح کا کوئی درخت، کوئی کھونٹا حاصل کرنا چاہیں گے، جہاں اس طرح کے تفکرات کو لٹکایا جاسکے؟
ہمارا ایمانی نظام ہی وہ سب سے طاقتور کھونٹا یا اینکر ہے ہے، جہاں ہم اپنے سارے مسائل ٹانک سکتے ہیں۔
“انسان ظالم ہے، جاہل ہے، تھڑدلا ہے، خودغرض ہے، لالچی ہے، بھوکا ہے، گھمنڈی ہے، شیخی خورا ہے، اپنے اوپر اتراتا ہے، مصیبت پڑتی ہے تو واویلا کرتا ہے، آسائش عطا ہوتی ہے تو اپنے بازوؤں کی مچھلیوں کی نمائش کرنے لگ جاتا ہے۔ منجدھار میں کشتی ہو تو مناجات پر اتر آتا ہے، خشکی پر پہنچے تو زمین پر پاؤں مار مار کر چلتا ہے۔”

انسان کا یہ راز انسان کے ، انسان کے خالق نے کھولا ہے اور بنانے والے سے زیادہ انسان کو کون سمجھ سکتا ہے۔ سچی بات تو یہ ہے کہ سٹریس جہاں ایک جسمانی اور نفسیاتی بیماری ہے وہاں اس کا ایک پہلو روحانی بیماری ہونے کا بھی ہے۔ اوپر بیان کردہ خصوصیات، انسان کے سٹریس اور تفکرات میں بہت گاڑھا حصہ ڈالتی ہیں۔
نفسیات کی دنیا میں ہارورڈ، آکسفورڈ، کیمبرج اور پرنسٹن جیسی نامی گرامی یونیورسٹیوں میں کیے گئے ہزاروں مختلف ریسرچ پراجیکٹس میں یہی دیکھا گیا کہ مذہبی یا روحانی افراد میں سٹریس کی مقدار باقی لوگوں سے بدرجہا کم ہے۔

یہ بھی دیکھا گیا کہ مذہبی اور روحانی افراد میں منشیات کا استعمال، نشہ آور ادویات کا رجحان اور خودکشی کا تناسب بھی ایک تہائی سے بھی کم ہے۔ کیونکہ مذہب اور روحانیت ان لوگوں کو وہ کھونٹا مہیا کردیتے ہیں جہاں ہر وہ اپنی زندگی کے مسئلے، مسائل اور تفکرات ٹانک سکتے ہیں۔ تاہم یہ فوائد ان لوگوں کو حاصل ہوتے ہیں جو اپنے مذہبی یا روحانی قدروں کے پریکٹشنرز ہوں۔ اس ضمن میں کچھ نقصانات بھی دیکھے گئے جیسے بیماری یا پریشان کن واقعات کو خدا کے غیض و غضب کی نشانی سمجھنا شامل ہیں، تاہم فوائد نقصانات سے کہیں زیادہ ہیں۔

ایمانی نظام عموماً زندگی کے مقصد اور اس میں چھپے گہرے مطالب سے روشناس کراتا ہے۔ شکر گزاری کے جذبات جگاتا ہے، مایوسی کو رفع کرتا ہے، اور معاف کرنے پر آمادہ کرتا ہے۔ نماز یا عبادت کا نظام ڈسپلن کے ساتھ ساتھ برائیوں سے بچاتا ہے۔ خدا میں یقین کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ انسان تنہائی اور اکلاپے کے احساس سے باہر نکل آتا ہے اور انہیں لگتا ہے کہ کائنات کی سب سے بڑی طاقت زندگی کی مشکلات سے نبرد آزما ہونے کے لیے ان کے ساتھ ہے۔ عبادات ریاضت اور محاسبے پر زور دیتی ہیں اور آزمائش کے مراحل میں ڈھال بن جاتی ہیں۔
ایمانی نظام کا سب سے بڑا کمال یہ ہے کہ وہ انسان کی اس امر پر آنکھ کھولتا ہے کہ وہ صرف ایک جسم نہیں ہے جس میں ایک روح وقتی طور پر رہ رہی ہے، بلکہ دراصل وہ ایک ایک روح ہے، جو وقتی طور پر ایک جسم میں مقیم ہے اور یہی تصور گیم چینجر ہے۔

نفسیاتی تجربات یہ بتاتے ہیں کہ اگر ایمانی نظام موجود نہ ہو تو زندگی کی بے ثباتی، پے درپے وارد ہونے والے دکھ، ناکامیاں، بے وفائییاں، مایوسیاں ہر چار میں سے ایک شخص کو تقریباً خودکشی پر مائل کردیں۔
ایمانی نظام کس طرح ماہرین نفسیات کو پے درپے حیرت میں ڈال رہا ہے اور کس طرح انسانی نفسیات کی تشکیل کرتا ہے اور خاص طور پر زندگی کے مشکل ترین لمحات میں اسے سنبھالے رکھتا ہے، اس پر اگلی قسط میں بات ہوگی، کیوں کہ ایک بات طے ہے کہ اگر آپ اپنے ایمانی/روحانی نظام کو پریکٹس کر رہے /رہی ہیں، آپ اپنی زندگی کی سٹریس کو اس کی پیشانی کے بالوں سے پکڑ سکتے /سکتی ہیں۔ اگر ابھی بھی سٹریس ہے تو کہیں آپ کی پریکٹس میں گڑبڑ ہے۔ ورنہ آپ کی روحانی کنجی سٹریس کے لیے ماسٹر کی بے۔
آپ کی زندگی میں ایمانی نظام آپ کو سٹریس اور نفسیاتی مسائل سے کیسے بچارہا ہے؟ کہاں آپ کو مدد کی ضرورت ہے؟

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply