بیک ورڈز لا۔۔عارف انیس

ہال میں بھرپور خاموشی کی چادر تنی ہوئی تھی۔ شاید کوئی جمائی بھی لیتا تو تڑخ جاتی۔
“تو مسئلہ یہ ہے کہ تم پچھلے پانچ سال میں پانچویں مرتبہ ڈائٹنگ شروع کر چکی ہو، اور تمہیں بے تحاشا بھوک لگتی ہے اور بس دوسرے، تیسرے مہینے تمہاری بس ہو جاتی ہے اور پھر تم خوراک کی” پنج” نکال دیتی ہو” ڈاکٹر رچرڈ بینڈلر نے اپنی مخصوص بھرائی ہوئی آواز میں پوچھا۔ سٹیج پر بیٹھی ہوئی گول مٹول گوری نے اقراری انداز میں سر ہلایا۔
” اس میں مسئلہ کیا ہے؟ بینڈلر نے استہزائیہ انداز میں پوچھا “تمہاری توقع کیا تھی؟ کیا شوگر، چکنائی اور مزے مزے کے صحت دشمن کھانے چھوڑ کر تمہیں نروان ملنے والا تھا؟ کھانے کے نشے تمہارے جسم میں گھس چکے ہیں، اب یہ نکلیں گے تو تکلیف تو ہوگی “۔ پھر وہ لحظہ بھر رکا اور اس نے کام کی بات کی “حقیقت تو یہ ہے کہ جب تمہیں زور کی تکلیف بھوک لگے تو تم اس کو نشانی سمجھو کہ تم اپنے مقصد میں کامیاب جارہی ہو۔ یہ ایک ٹن وزن اسی طرح ہی کم ہوگا اور یہ تکلیف دراصل تمہارے لیے فتح کی گھنٹی ہے کہ تم صحیح راستے پر ہو۔ جیسے ہی تم اس زاویے سے دیکھو گی، تم اس تکلیف سے لطف اندوز ہونا شروع کر دوگی اور پھر تم واپس نہیں پلٹ سکو گی “۔ گوری کے چہرے پر ایک دم بشاشت کی لہر دوڑ گئی۔ لگتا تھا اس کا مسئلہ حل ہوچکا تھا۔
پرسنل ڈیویلپمنٹ اور موٹیویشن کی سائنس نے جہاں زندگی آسان کرنے کے ان گنت اسرار سمجھائے ہیں وہاں ایک زاویہ کچھ الجھایا ہوا ہے اور وہ ہے ہر چیز میں مثبت رویے کی تلاش اور، کامیابی اور مسرت کی تلاش۔ زندگی میں ایک معاملہ واضح ہے کہ “شٹ ہیپنز” اور اچھے بھلے بندے کو برے معاملات پیش آجاتے ہیں، اگر ان کو قبول نہ کیا جائے تو پھر زندگی ایک گورکھ دھندا بن جاتی ہے۔
ایک چیز واضح ہے کہ اگر انسان اپنے آدرش، مقصد اور منزل کو پانے کے لئے مخلص ہے تو اسے اس راستے میں آنے والی رکاوٹوں کی دوڑ میں بھاگنے کے لیے اپنے آپ کو تیار بھی کرنا ہوگا اور اپنے ہاتھ پاؤں ٹوٹنے کی صورت میں مرمت کی گنجائش بھی رکھنی ہوگی۔ اس حقیقت کو قبول کیے بغیر ہم بچوں کی طرح ہر وقت منہ بسورتے رہیں گے اور اپنی اور باقی لوگوں کی زندگی کو بوجھل بنا لیں گے۔
پروفیسر ایلن واٹس نے اس امر کو اپنے مشہور زمانہ “بیک ورڈز لاء” میں سمیٹا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ جتنا ہم زندگی میں سے منفی سوچوں کو نکالنے کے چکر میں پڑیں گے اور ان کا سامنا کرنے سے اجتناب کریں گے تو منفی پن دوہری طاقت پکڑ لے گا۔ تاہم اگر ہم منفی پن کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اس کا سامنا کریں گے تو اس رستے میں آنے والی صعوبتیں اور مسائل کا سامنا کتنا آسان ہوجائے گا۔ ورنہ خوش رہنے کے لیے جتنی تڑپ ہوگی، اداسی اتنا ہی گھیرا ڈالے گی، جتنا خوبصورت بننے کی کی کوشش کی جائے گی، اپنے اندر اتنی ہی بدصورتی محسوس ہوگی، امارت اور طاقت کا تعاقب اتنا ہی خلا چھوڑ جائے گا۔
پھر حل کیا ہے؟ حل یہ ہے کہ اس اپنے مقاصد کے تعاقب میں رستے میں آنے والی آزمائشوں، مسائل اور صعوبتوں کو اسی راستے کا سنگ میل سمجھنا ہوگا جہاں سے گزر کے ہی اگلی گھاٹی تک پہنچا جاسکتا ہے۔ جب ورزش کرتے ہوئے ہڈیوں کے کڑاکے نکلیں تو وہ ایک صحت مند زندگی کی بنیادوں میں کھاد بنیں گے، جب بزنس، پراجیکٹس میں ناکامی ملے گی تو وہ کامیاب راستے کو ڈھونڈنے کے لیے اشاریے بنیں گے۔
زندگی سیاہ بھی ہے اور سفید بھی ہے۔ اس میں اتار چڑھاؤ آتے رہیں گے۔ زندگی کی انتہا مسرت کی چوٹی ہر اکیلے پہنچنا نہیں ہے بلکہ اس تک پہنچنے کے راستے سے لطف اندوز ہونا ہے، جس میں اترائیاں بھی ہیں اور اونچائیاں بھی ہیں۔ زندگی مثبت اور منفی، کامیابی اور ناکامی، خوشی اور غمی کے درمیان جھولتا ہوا ہنڈولہ ہے اور وہ اپنی جگہ تبدیل کرتا رہے گا۔ زندگی میں اکثر پیکیج دکھ اور مسرت کے ملے جلے آمیزے سے تیار ہوتے ہیں۔ کبھی ہنس ہنس کر آنسو آجاتے ہیں تو کبھی آنسوؤں کے درمیان سے شادمانی کی لہر پھوٹ پڑتی ہے۔
زندگی کی اترائیوں میں “تم کتنا خوش اور کامیاب ہونا چاہتے ہو” سے زیادہ ضروری سوال یہ ہے کہ “تم کتنا درد برداشت کرسکتے ہو؟”۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply