سیسے والا پٹرول۔۔وہاراامباکر

سیسے والا پٹرول محفوظ ہے۔ اس کے موجد کو اس بات کا یہ یقین تھا۔ تھامس مجلے نے اس کو دکھانے کے لئے ایک برتن اٹھایا اور اس میں سے مائع انڈیل کر سب کے سامنے اس سے ہاتھ دھوئے۔ “میں یہاں پر کوئی خطرہ مول نہیں لے رہا۔ میں یہ کام روزانہ کر سکتا ہوں۔ یہ بالکل محفوظ ہے”۔
یہ مائع ٹیٹرا ایتھائیل لیڈ تھی اور یہ پٹرول میں ڈالنے جانے والا وہ اضافی کیمیکل تھا جس کے محفوظ ہونے پر سوال اٹھائے گئے تھے۔
جہاں تک ہم جانتے ہیں، تھامس مجلے کو واقعی اس بات کا یقین تھا کہ یہ بالکل محفوظ ہے، اگرچہ کسی ایسے واقعات تھے جن کو بادی النظر میں دیکھ کر لگتا ہے کہ انہیں نظرانداز کر دینا دانشمندی نہیں تھی۔
یہ وہ ایجاد تھی جس کی تلاش کی جا رہی تھی۔ اس سے انجن کی ناکنگ ختم ہو جاتی تھی۔ انجن کی عمر بڑھانے والی، پٹرول کی ایفی شنسی بہتر کرنے والا یہ بہت اہم کیمیکل تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مجلے کی ایجاد کے ساتھ کام کرنے والا ہر شخص خوش نصیب نہیں رہا تھا۔ اور یہ وہ وجہ تھی کہ سوال اٹھائے گئے تھے جن کا جواب مجلے سب کے سامنے ڈرامائی طریقے سے دے رہے تھے۔ اکتوبر 1924 کو ارنسٹ اولگرٹ hallucinate کرتے ہوئے دہشت زدہ ہو کر لیبارٹری میں دوڑنے لگے تھت۔ اس سے اگلے روز اولگرٹ آپے سے باہر ہو گئے تھے اور ان کی بہن کو پولیس بلوا کر انہیں بندھوانا پڑا تھا اور اس سے اگلے روز وہ انتقال کر گئے تھے۔ اس لیبارٹری میں چار لوگ وفات پا گئے تھے اور پینتیس لوگ ہسپتال میں داخل ہوئے تھے۔ اور اس لیبارٹری میں صرف انچاس لوگ کام کرتے تھے۔
ٹیٹرا ایتھائیل لیڈ کے ساتھ کوئی مسئلہ تھا۔ سٹینڈرڈ آئیل، جنرل موٹرز اور ڈو پونٹ وہ تین کمپنیاں تھیں، جو اس ایجاد کا حصہ تھیں۔ ان کے لئے یہ خبر نہیں تھی۔ پہلی پروڈکشن لائن میں دو اموات ہوئیں جس کی وجہ سے پروڈکشن کو روک دیا گیا۔ اس کے تیسرے پلانٹ پر کام کرنے والوں کو اڑتے ہوئے کیڑے دکھائی دیتے تھے اور وہ انہیں مارنے کی کوشش کرتے تھے۔ اس لیبارٹری کو “تتلیوں کا گھر” کہا جاتا تھا۔ لیکن اصل سوال اس کیمیکل کو بنانے والوں کی صحت کا نہیں بلکہ یہ تھا کہ کیا پٹرول میں اس کا کیا جانے والا معمولی سا اضافہ عام پبلک کی صحت پر کوئی فرق ڈال سکتا تھا؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سیسے والا پٹرول اب دنیا بھر میں تقریباً ہر جگہ پر بین ہے۔ اور یہ ہمیں ریگولیشن کی اہمیت کا بتاتا ہے۔ سیسے کے پٹرول نے اس بارے میں شدید تنازعہ کھڑا کیا تھا۔
کیا اس کیمیکل کا پٹرول میں اضافہ دانشمندی تھی جب کہ یہ گاڑیوں کے دھویں کا حصہ بن جاتا تھا؟ تھامس مجلے کا کہنا تھا کہ “نہیں، یہ دھویں میں اتنی کم مقدار میں ہو گا کہ اس کو کسی آلہ سے بھی ڈیٹکٹ نہیں کیا جا سکے گا۔ اتنی کم مقدار میں یہ خوف حماقت ہےکہ اس کا صحت پر کوئی اثر ہو سکتا ہے”۔ کیا اس دعوے کے پیچھے کوئی سائنس تھی؟ نہیں۔ سائنسدانوں نے اس پر تحقیق کرنے کے لئے زور دیا۔ اس پر تحقیق کئے جانا منظور ہو گیا لیکن اس کو فنڈ جنرل موٹرز نے کیا تھا اور اس شرط پر کہ کمپنی تحقیاتی رپورٹ کو منظور کرے گی۔
اس کی ریسرچ رپورٹ آ گئی اور اس کے مطابق ٹیٹرا ایتھائل سیسے کو محفوظ قرار دیا گیا تھا۔ لیکن اس سے لوگوں کی تسلی نہیں ہوئی۔ مئی 1925 میں بڑا مقابلہ ہوا۔ ایک طرف ایتھائل کارپوریشن (جنرل موٹرز اور سٹینڈرڈ آئل کا مشترک وینچر) کے نائب صدر فرینک ہارورڈ تھے جو سیسے والے پٹرول کو “خدا کا تحفہ” کہتے تھے۔ “یہ موٹر کے ایندھن کی کامیابی کے لئے ایک اہم اور بڑا قدم ہے۔ آنے والے سویلائزیشن کا انحصار اس پر ہے”۔
دوسری طرف ڈاکٹر ایلس ہیملٹین تھیں جو سیسے کے بارے میں ماہر تھیں اور ان کا کہنا تھا، “جہاں پر بھی سیسہ ہو گا، وہاں پر جلد یا بدیر کسی نہ کسی طرح کی زہرخوانی آئے گی، خواہ کتنی ہی احتیاط کیوں نہ کر لی جائے۔ ہمیں خطرہ مول نہیں لینا چاہیے”۔
ہیملٹن جانتی تھیں کہ سیسہ ہزاروں سال سے انسانوں کے لئے زہر رہا ہے۔ 1678 میں وہ مزدور جو سفید سیسہ بناتے تھے (رنگ کا ایک پگمنٹ) انہیں طرح طرح کی لاحق ہونے والی بیماریاں ریکارڈ پر تھیں۔ قدیم روم میں سیسے کے پائپ پانی لے کر جاتے تھے۔ (سیسے کو لاطینی میں پلمبم کہا جاتا ہے اور پلمبر کا لفظ اسی سے نکلاہے)۔ اس وقت بھی کچھ لوگ اس کے مخالف تھے۔ سول انجینیر وٹروویس نے دو ہزار سال پہلے اس کی مخالفت کی تھی۔ “سیسے پر کام کرنے والے مزدوروں کا رنگ دیکھا جا سکتا ہے۔ اس کے پائپوں کا پانی ٹھیک نہیں ہو گا”۔ ان کے دئے گئے، مٹی کے پائپ بنانے کے مشورے کو نظرانداز کر دینا رومیوں کی صحت کے لئے اچھا نہیں رہا تھا۔
ڈاکٹر ہیملٹن کو بھی وٹروویس کی طرح نظرانداز کر دیا گیا۔ سیسے والے پٹرول کی منظوری مل گئی۔ پچاس سال بعد حکومت نے اپنا ذہن تبدیل کر لیا۔ امریکہ میں 1970 میں “صاف ہوا کا قانون” منظور ہوا جس کے بعد سیسے کے پٹرول والے گاڑیوں کو رفتہ رفتہ ختم کئے جانا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس سے بیس سال بعد اکانومسٹ جیسکا رائیس نے ایک دلچسپ چیز کا مشاہدہ کیا۔ پرتشدد جرائم کے ریٹ بھی گرنا شروع ہو گئے۔ ظاہر ہے کہ اس کی بہت سی وجوہات ممکن تھی لیکن رائیس نے ایک سوال کیا۔ بچوں کے دماغ سیسے کی زہرخوانی کا شکار آسانی سے ہوتے ہیں۔ کیا یہ ممکن ہے کہ جن بچوں نے سیسے والے پٹرول کو نہ سونگھا ہو، وہ بڑے ہو کر کم متشدد بنے ہوں؟ لیکن اس کو معلوم کیسے کیا جائے؟
امریکہ میں مختلف ریاستوں نے مختلف وقتوں میں اس کو ختم کیا۔ رائیس نے صاف ہوا کے قانون اور جرائم کے ڈیٹا کا موازنہ کیا۔ انہوں نے اس سے نتیجہ نکالا کہ اس کا آپس میں کسی حد تک کوریلیشن ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور یہ ہمیں ایک اہم سوال کی طرف لے آتا ہے۔ کیا سیسے والے پٹرول کو منظور کرنے کا ابتدائی فیصلہ اخلاقی لحاظ سے غلط تھا؟ آلودگی کے بارے میں جب ہم رویہ دیکھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ جب ملک غریب ہوں تو عام طور پر آلودگی پر دی جانے والی توجہ کم ہوتی ہے۔ جب آمدنی بڑھتی ہے تو صاف پانی اور صاف ہوا جیسی چیزوں پر دھیان بھی زیادہ ہوتا ہے۔ اس کو “ماحولیاتی کوزنیٹ کرو” کہتے ہیں۔
لیکن سیسے والے پٹرول میں یہ ٹریڈ آف نہیں تھا۔ یہ اضافی ڈالا جانے والا مرکب انجن کو زیادہ ایفی شنٹ بناتا تھا۔ لیکن یہی کام ایتھائیل الکوحل سے بھی کیا جا سکتا تھا۔ ایتھائیل الکوحل کو اگر آپ پیتے ہیں تو الگ بات لیکن محض سونگھنے کی وجہ سے دماغ کے ساتھ گڑبڑ نہیں کرتی۔ تو پھر جنرل موٹرز نے اس پر زور کیوں دیا؟ ناقدین کا کہنا ہے کہ اس کی وجہ یہ تھی کہ ٹیٹرا ایتھائیل لیڈ کو پیٹنٹ کیا جا سکتا تھا۔ ایتھائیل الکوحل بنانے کا طریقہ تو ہزاروں سال سے معلوم تھا۔
لیکن حکومتیں کیوں اتنا زیادہ عرصہ اس کی اجازت دیتی رہیں؟ یہی کہانی ہمیں اسبیسٹوس کے ساتھ یا پھر تمباکو کے ساتھ نظر آتی ہے۔ کوئی بھی پراڈکٹ جو ہمیں آہستہ آہستہ مارتی ہے، اس کے ساتھ ایسا ہی معاملہ رہا ہے۔ اس کی ذمہ داری کی وجہ کا تعین کرنا آسان نہیں۔ اور تحقیق میں conflict of interest کے قوانین ہی 1960 تک موجود ہی نہیں تھے۔
آج ہمارے پاس بہت سے سوالات ہیں جہاں پر آہستہ آہستہ مارنے والے چیزوں کا خطرہ اصل ہو سکتا ہے۔ کیا وائی فائی واقعی محفوظ ہے؟ نینوپارٹیکلز کے بارے میں کیا خیال ہے؟ لیکن ایک اور بڑا مسئلہ یہ بھی ہے کہ ڈاکٹر ایلیس ہیملٹن کی دانائی کو غیرمنطقی انکار کرنے والے کی پریشانی سے کیسے الگ کیا جائے؟ سیسے کے پٹرول کی کہانی ہمیں یہ بتاتی ہے کہ تحقیق اور ریگولیشن ہمیں سیسے کے زہر سے بالآخر بچا لیتی ہے۔ لیکن یہ کہنے کے لئے کہ اس قسم کے معاملات مسئلہ نہیں رہے ہیں ۔۔۔ آپ کو رجائیت پسند ہونا پڑے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سیسے والے پٹرول کے موجد تھامس مجلے کے ساتھ کیا ہوا؟ تھامس مجلے بہت شریف الفنس اور خوشگوار طبیعت انسان اور بہترین محقق کہے جاتے تھے۔ لیکن قسمت کی ستم ظریفی یہ کہ ان کی بڑی ایجادات بڑی بھاری ثابت ہوئیں۔ ان کی دوسری بڑی ایجاد کلوروفلوروکاربن تھی۔ اس نے ریفریجریشن کا نظام بہتر کر دیا لیکن اوزون کی تہہ تباہ کر دی۔
ادھیڑ عمری میں انہیں پولیو نے آن لیا اور مفلوج کر دیا۔ انہوں نے اپنا موجد والا ذہن اس مسئلے کو حل کرنے پر لگایا۔ ایک بہت ہی اچھوتا سسٹم بنایا جس میں رسیاں اور پلیاں شامل تھیں۔ وہ اس کی مدد سے خود کو بستر سے اٹھا سکتے تھے۔ لیکن اس بار بھی وہ ایک بہت مفید ایجاد کے غیرمتوقع اثرات کا لگانے میں ایک بار پھر ناکام رہے۔
ان کی دو بڑی ایجادوں کے نتائج کی طرح اس ایجاد کا نتیجہ بھی خوشگوار نہ رہا۔ ایک روز یہ رسی ان کی گردن کے گرد الجھ گئی۔ اس روز، ان بہترین موجد کی اپنی ایجاد نے اپنے تخلیق کار کا گلا گھونٹ کر جان لے لی۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply