جنت میں کیرم بورڈ کی محفل سجے گی ۔۔حسام عالمگیر عباسی

آج سے برسوں پہلے مجھے حجامت کے لیے پیسے دیے گئے۔ تب دس بیس کے نوٹ کم ہی دیکھنے کو ملتے تھے۔ ان دنوں جن پاپڑ، کراری اور کشمیری چورن محلے کے بچوں کی پسندیدہ خوراک ہوا کرتی تھی۔ میں بھی کراری کشمیری چورن میں ڈبو کر کھاتا تھا۔ میں نے سوچا بیس روپے میں چاہت خریدنا حجامت سے افضل ہے۔ بازار کی طرف جانے لگا تو خیال آیا کہ ایسا کیسے ممکن ہے۔ کراری تو ختم ہو جائے گی, بے عزتی سے کون بچائے گا۔ واپس آیا تو دیکھتا ہوں دادا ابو کرسی پہ بیٹھے کش پہ کش لگائے جا رہے ہیں۔ ان کے پاس اوزار ہر طرح کے دستیاب ہوتے تھے۔ ہتھوڑے اور کیلوں کی مدد سے الماری بنانے سے لے کر آرے و کلہاڑے سے لکڑیاں چیرنے تک وہ سب ٹولز آپ کے صندوقچے میں دستیاب رہتے تھے۔ آپ نے اپنے اوزاروں کو رنگا ہوا تھا تاکہ نشانی باقی رہے۔ جب بھی کبھی کسی اوزار کی ضرورت پڑی, سب نے آپ کو یاد کیا۔ میں نے سوچا یقیناً قینچی بھی آپ کے پاس پائی جاتی ہو گی۔ آپ نے حجامت کے لیے حامی بھر لی۔ سٹور روم میں شیشے کے سامنے لے گئے اور ایسے بال بنا دیے کہ پیشہ ور بھی عش عش کر اٹھے۔ پیار سے سب ان کو چاچو بلاتے تھے۔ میں بعد ازاں کشمیری چورن اور کراری کا کرارا مزہ بھی لیتا رہا جو میرا اور چاچو کا راز رہا, سوچا آج اگلنے کے بہانے آپ کی یاد بھی تازہ کر لینے کی شب ہے۔

ایک دفعہ مسجد میں تھے۔ نوجوانان بھی ہمراہ تھے۔ بچوں کی ایک فوج نماز کے لیے جمع تھی۔ چاچو سے نماز پڑھانے کی گزارش کی۔ کافی اصرار کے بعد آپ نے حامی بھر لی اور امامت کے لیے آگے تشریف لے گئے۔ آپ ضعیف تھے۔ ان عوامل سے پرہیز کرتے تھے جہاں بھول جانے کا اندیشہ ہو۔ نماز کے پابند تھے لیکن امامت کا فریضہ انھوں نے کبھی انجام نہیں دیا تھا۔ ہمارا اصرار ان کی مجبوری بن گئی۔ اقامت کہی گئی۔ تکبیر کے ساتھ کٹھن مراحل کا آغاز ہوا۔ عموماً دو رکعتوں کے بعد امام صاحب ‘التحیات’ کے لیے بیٹھتے ہیں لیکن آپ نے ایسا نہیں کیا۔ غالباً لقمے بھی دیے گئے لیکن آپ نے وہی کیا جو آپ کو صحیح لگا۔ ہم نے بھی آمین کہتے ہوئے نماز جاری رکھی۔ مسلسل چار رکعتوں کے بعد دوبارہ ‘التحیات’ کی باری آئی۔ ہم فرشتوں کو سلام پیش کرنے کے لیے بے تاب تھے۔ کچھ دیر بعد آپ واپس کھڑے ہو گئے اور یوں چار کی جگہ آٹھ رکعتوں کی نماز متعارف ہو گئی۔ چاچو سے محبت نے یہ واقعہ ہمیشہ یاد دلایا۔ ہمیشہ ان کے غم میں اس واقعے نے ہنسانے کا کام کیا۔ نماز دوبارہ دہرائی گئی اور چاچو نے اقتداء میں ادا کی۔

کھیلنے کے لیے گاؤں میں گراؤنڈ کی جگہ کھیت ہوتا ہے۔ ہم کھیت کی جگہ روڈ پہ کھیلتے تھے۔ ہمیشہ وہیں کھیل جماتے تھے۔ دیکھتے ہی دیکھتے سامنے والا گھر بسنے لگا۔ ایک دفعہ ہم کھیل رہے تھے اور مغرب کی اذان کے ساتھ ہی کرکٹ چھوڑ دی۔ ان کے گھر سے ایک حضرت آئے اور آئندہ کھیلنے سے منع کیا۔ چاچو بھی آئے روز منع کرتے رہے۔ کرکٹ سے لگن ہی اتنی تھی کہ سب کے سب وقت پہ پہنچ جاتے۔ ایک گیند خرید لاتا تو دوسرا بلے کا بندوبست کرتا۔ ٹیپ پیسے جمع کر کے منگوائی جاتی۔ اگلے ہی روز بعد از نمازِ عصر ہم میدان میں کھیل رہے تھے۔ ابھی گیند ہوا میں ہی تھی کہ آپ تک شکایت پہنچ گئی کہ ہم لوگ ان گھر والوں کی تنگی کا باعث بن رہے ہیں۔ ہم غلطی پر تھے, اس کا احساس بعد میں ہو بھی گیا تھا۔ چاچو اور ان کا غضب تیزی سے ہماری طرف دوڑ رہا تھا لیکن چہرے پہ خوشی و پیار کے آثار تھے۔ آپ نے فاسٹ باؤلر شہریار سے کہا کہ گیند ان کو کیچ کرائے۔ شیری نے اس امید پہ ایسا ہی کیا کہ چونکہ چاچو بھی کبھی کھلاڑی رہے تھے اور اب ضعیف العمری میں بھی اپنے مخصوص انداز میں گیند بازی ان کی پہچان تھی, تو ایک دو گیندیں پھینک کر واپس چلے جائیں گے۔ آپ نے دو نہیں صرف ایک گیند پھینکی تھی جو بلے باز تک نہیں پہنچ پائی۔ گیند دراصل نیچے جہاڑیوں میں پھینک دی گئی تھی۔ آپ نے غصہ فرمایا اور کہا کہ آئندہ کسی کو بھی اس جگہ کھیلنے کی اجازت نہیں ہے گویا فرما رہے ہوں کہ جنت کے حصول کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ پڑوسی آپ سے ناراض نہ ہو۔ ہم نے اپنی راہ لی اور ہمارے رہنما ہمیں سمجھاتے ہوئے اپنی راہ چل دیے۔

آپ نے حلقے کے نادار، غرباء اور ضرورت مندوں پہ ہمیشہ رحمت کا ہاتھ رکھا۔ محنت مزدوری کرنے والے لوگوں سے محبت و معاونت آپ کی عظیم سنت ہے۔ رشتہ داروں کے حقوق کی ادائیگی میں آپ نے کسی بھی کوتاہی کو آڑے نہیں آنے دیا۔ پڑوسیوں کی گواہیاں موجود ہیں۔ آج بھی کوے، گھٹہریاں اور لم دمڑے اس امید پہ صبح گنگناتے ہیں کہ شاید آپ ان کے ناشتے کا بندوبست کریں۔ انہیں کیا معلوم کہ آپ جنت الفردوس میں جگہ بنا چکے ہیں۔ گائے، بکریوں اور بھینسوں نے آپ کے بعد یہاں آنا ہی روک رکھا ہے۔ سب کچھ آپ کے دم سے تھا۔ آپ کی نظر میں زندگی بہت قیمتی تھی۔ آپ نے قائد اعظم محمد علی جناح رح کے قول ‘کام، کام اور صرف کام’ کو صحیح معنوں میں سمجھ رکھا تھا۔ صبح نماز کے بعد سونے کو حرام تصور کرتے اور نماز سے پہلے چائے کی چسکیوں سے دل و دماغ کو تسکین پہنچاتے تھے۔ فجر کے بعد آپ الماری بناتے، کھیت کی ہریالی کا بندوبست کرتے۔ مرغوں اور مرغیوں کو چوری اور دیگر جانوروں کو چارا ڈالتے۔ بکری کو قید سے آزاد کرتے۔ بند نالیاں صاف کرتے اور دیواریں چڑھاتے۔ پانی کی ٹینکی دیکھتے اور صفائی ستھرائی کرتے۔ کھیتوں میں جاتے۔ سبزیاں لگاتے اور آلو زمین سے وصول کرتے۔ موسم کے آتے ہی سیب اور اخروٹ اتارتے۔

جب روڈ پہ کھیلنے سے منع کیا گیا تو ہم نے جگہ بدل لی۔ وہاں پہ آیا کرتے اور اپنے مخصوص پتھر پہ بیٹھ کر تماشہ دیکھتے۔ پیارے پیارے مشورے دیتے۔ ابھی لکھتے ہوئے جو کیفیت ہے, نا قابلِ بیان ہوتی جا رہی ہے۔ رونے کو جی چاہ رہا ہے۔ ایک ایسا موتی کھو دیا ہے جو اب تک نہیں مل سکا۔ ان کا متبادل ڈھونڈنے سے بھی رہے۔ آپ کی بچوں، بڑوں اور بزرگوں سے محبت بے نظیر تھی۔ بچوں پہ تب غصہ کرتے جب وہ خوامخواہ چلاتے اور بہنوں بیٹیوں سے تب الجھتے جب وہ بچوں پہ چیختی تھیں۔ مجھے انھوں نے پیار و محبت دیا۔ ڈانٹ ڈپٹ میں نے ان سے کبھی نہیں کھائی۔ میرے وہ انتہائی قریبی دوستوں میں سے تھے۔ میں نے ایک بہترین دوست و مہربان کھو دیا ہے۔ چاچو سے جو بھی ملا ہے وہ ان کا ہی ہو گیا ہے۔ آپ میرے دادا ابو یعنی اپنے بڑے بھائی سے عقیدت کی حد تک پیار کرتے تھے اور ڈرتے تھے۔ چاچو کے لیے یقیناً الفاظ کم پڑ رہے ہیں۔ لکھنے کو ہزاروں صفحے کالے اور سمندری سیاہی ختم کی جاسکتی ہے لیکن الفاظ میں اب سکت کم پڑ رہی ہے۔ لکھتے لکھتے اس جگہ پہنچ گیا ہوں, جہاں انسان آنکھیں بند کر لیتا ہے اور یادیں ذہن میں آنے لگتی ہیں۔ اسے ہنسنے اور غمگین ہونے کا وقت کہتے ہیں۔ ان کو وفات ملے کئی سال بیت گئے ہیں۔ چند دن قبل شفیق انکل بھی آپ کی طرف روانہ ہوئے ہیں۔ آپ نے ان کا شاندار استقبال کیا ہوگا۔ بڑے ابا اور چھوٹے ابا بھی ساتھ ہوں گے۔ محفل خوب سجائی ہو گی۔ ان شاء اللہ جلد ہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت و سفارش کے نتیجے میں ہم پہ آپ کے درمیان ہوں گے، مل بیٹھیں گے, محفل جمے گی۔

آپ کے ہوتے ہوئے کیرم بورڈ کے بہانے لوگوں کا آنا جانا لگا رہتا تھا۔ محفلیں سجتی تھیں۔ دراصل وہ جان گئے ہیں کہ محفل لوٹنے والے چاچو اب دنیا میں نہیں رہے۔ پیارے چاچو، سب کے چاچو اور سب کے خیر خواہ! آپ کے لیے جن الفاظ کا سہارا لے رہا ہوں, مقدس ہو گئے ہیں۔ آپ کی محبت نے انھیں تقدس عطا کیا ہے وگرنہ قلم میں اتنی پرواز کہاں! آپ وہ شخصیت ہیں جن کو صرف محسوس کیا جا سکتا ہے۔ الفاظ آپ کی شخصیت کے لیے ناکافی ہیں۔ شفیق انکل نماز کے دوران رخصت ہوئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ آپ سب کو جنت میں باغات عطا کرے۔ آمین۔

آپ نے دسمبر کی ٹھنڈ میں وفات پائی۔ آپ کے بعد آپ کی فوتگی پہ آنسو  بہانے والے جمیل ابا نے بھی رکنا پسند نہیں کیا۔ آپ ان کا دل تھے۔ وہ آپ کے بعد زیادہ دیر رک نہیں پائے۔ وہ بھی دار فانی کوچ کر گئے۔ یکے بعد دیگرے یہ تو سانحات بستی کی محرومی کی صورت اختیار کر گئے۔ پیارے صفدر ابا بھی چند ماہ پہلے آپ کے قافلے میں شامل ہو گئے۔ سب جنتوں کے مکین ہیں۔

چاچو! آپ کے بعد آپ کا بیٹا بھی آپ کی راہ پہ ہے۔ صائم انکل بھی انسانوں کا درد رکھتے ہیں۔ ان کے احسانات وہی بتا سکتے ہیں جن کے آپ محسن ہیں۔ آپ کی قبر پہ آپ کے بیٹے توصیف انکل کو دھاڑیں مار کر روتے دھوتے میری آنکھیں دیکھ چکی ہیں۔ ان شاء اللہ آپ سب بھائیوں کا اللہ نے بہترین بندوبست کیا ہو گا۔ ہم دعا کر سکتے ہیں اور ‘ان للہ وان الیہ راجعون’ کہتے ہیں۔ خواتین سے لے کر بچوں تک جو بھی آپ کا نام لیتا ہے, عقیدت سے سر جھکا لیتا ہے۔ آپ کی اپنی بیگم اور ہماری ببو سے محبت بے نظیر تھی۔ آج بھی چاچو کا غم انھیں رلاتا ہے۔ اس جوڑی کی باہمی محبت اور الفت الفاظ کی محتاج ہی نہیں ہے۔

چاچو کی مجھ سے محبت دیکھیں! وہ سوٹڈ بوٹڈ اساتذہ میں شامل تھے۔ بہترین پہنتے اور پہناتے تھے۔ آپ کا لائٹر بیس روپے والا معمولی لائٹر نہیں ہوتا تھا بلکہ ان کے پاس اپنے دور کے سٹائلو آئٹمز میں اس کا شمار تھا۔ وہ آگ کے ختم ہونے کے بعد لائٹر میرے لیے جمع کرتے تھے۔ اس کی لائٹ اور خوبصورتی مجھے محظوظ کرتی تھی۔ آپ کی عادت تھی کہ آپ کھیتوں سے ملنے والی گیندیں جمع کرتے تھے۔ جب سب کھیلنے کو آگے بڑھتے تھے اور گیند نہیں ہوا کرتی تھی, اس موقع پر آپ گیند نکالتے تھے۔ یہ تھے ہمارے چاچو! اگر پلاسٹک اور کپڑے کی گیند خستہ حالت میں ملتی تو گھر لاتے, شاپرز سے بھرتے اور اسے سی دیتے۔ ہمیں دے دیتے اور ہم کھیلنے لگتے۔ ایک دفعہ انھوں نے مجھے وہ جگہ بتائی جہاں انھوں نے گیندیں رکھی ہوئی تھیں۔ دوسری دفعہ اصرار پہ وہ سب گیندیں میرے حوالے کر دی تھیں۔ آپ کو اگر کھیت سے اہم چیز ملتی جو ناکارہ سمجھ کر پھینک دی گئی ہوتی, آپ واپس اٹھا لاتے اور اس کی اہمیت کا بتاتے۔ آپ پانی ضائع کرنے کے سخت خلاف تھے۔ چاچو ہر عید پہ تیسرے دن اپنے قریبی دوست و احباب کے ہاں جاتے۔ میں مسلسل تین سے چار عیدیں ان کے ساتھ جاتا رہا۔ سب کو عیدی دیا کرتے تھے۔ تحریر طوالت کی طرف جا رہی ہے لیکن آپ کی محبت مجھے آپ کی طرف کھینچ رہی ہے۔

آئے ہائے! ایک بات تو بھول ہی گیا! ابھی آنکھ بند کرتے ہی یاد آیا۔ میں ایک دفعہ آپ کے پاس گیا تو آپ سگار سلگائے بیٹھے تھے۔ مجھے کہتے ہیں کہ کیا میں نے کسی کو کان سے دھواں نکالتے ہوئے دیکھا ہے۔ میں نے ‘نہیں’ میں سر ہلا دیا تو کہنے لگے کہ میں ان کے دل پہ ہاتھ رکھوں اور کان پہ توجہ دوں۔ میں نے یہی کیا۔ آپ کی کان کی طرف میری آنکھ اور دماغ کا فائدہ اٹھاتے ہوئے جلتی سگرٹ الٹے ہاتھ پہ لگا دی اور میں نے زور سے ہاتھ پیچھے کر لیا۔ آپ کو ہنستا دیکھ کر میں بھی ہنسنے لگا۔ یہ محبت ہوتی ہے! اسے الفت کہتے ہیں!

آپ کے پاس ایک جن کا لبادہ بھی تھا۔ اس کا بھی بہت چرچا رہا۔ شرارتی بچے اور بڑے ان سے وہ لے کر اوڑھ لیتے اور کمزور دل والوں کو ڈراتے تھے۔ یہ کہانیاں لکھنے بیٹھا تو میری صبح یہاں ہی ہونی ہے! ان کے آخری دنوں میں رات کے وقت ان کے صحن میں بیٹھا ہوا تھا۔ آپ کے کراہنے کی آوازیں مجھے اور شیری کو الم میں مبتلا کر رہی تھیں۔ ہم نے اندر جانا چاہا لیکن سوچا کہ ہم ان کی تکلیف اگر دور نہیں کر سکتے تو کم از کم بڑھانا زیب نہیں دیتا! درد کی کیفیت وہی جانتا ہے جسے ہوتا ہے!

انھوں نے کچھ عرصہ درد و تکلیف کی کیفیت میں بھی گزارا جو یقیناً ان کے گناہوں کا کفارہ ہے۔ انہی دنوں کی بات ہے جب میں اپنے بڑے اور بکھرے بالوں کے ساتھ آپ کے پاس درخواست لے کر گیا۔ مجھے اندازہ تھا کہ اب بھی آپ کے پاس قینچی ہے لیکن شاید صحت کھڑے ہونے کی اجازت نہیں دے رہی تھی۔ میں پھر بھی منہ اٹھا کے پہنچ گیا۔ میں نے کہا بال کٹوانے ہیں۔ کہنے لگے کہ ان کی صحت بحال نہیں ہے۔ وہ زیادہ دیر کھڑے نہیں رہ پائیں گے۔ میں نے ‘کوئی بات نہیں’ کہہ کر اجازت چاہی اور چل دیا۔ آپ نے پیچھے سے آواز دی۔ میں گیا تو اٹھے اور سٹور روم لے گئے۔ پندرہ سے بیس منٹس میں بہترین بال بنا دیے۔ میں نے ان سے اصرار کیا کہ جو بال زمین پہ گر گئے ہیں, میں ان کو سمیٹتا ہوں۔ لیکن وہ ڈٹے رہے اور مجھے ایسا نہیں کرنے دیا۔ اسے ان کی محبت اور میری بے شرمی کہا جا سکتا ہے۔

آپ کی بیماری جب بڑھنے لگی تو گاؤں کی جگہ شہر میں رہنے لگ گئے چونکہ ہسپتال کی سہولت باآسانی میسر ہے۔ آپ کے پاس کئی دفعہ جاتے رہے۔ آپ کے سر پہ اب وہ پیارے پیارے بال نہیں رہے تھے۔ ان کی بیماری نے ان سے ان کے بال چھین لیے اور داڑھی کے جس حد تک بال آ سکتے تھے دے دیے تھے۔ وہ بیماری کے دوران آخری مرتبہ جب گاؤں آئے اور صحت کے بگڑنے پہ واپسی کی راہ لی, تو سب سے ایسے مل رہے تھے جیسے ان کو یقین ہو گیا ہو کہ اب وہ واپس نہیں آ پائیں گے۔ جب تک گھر اور گھر والوں کو خدا کے سپرد کر رہے تھے, میں دوڑتا ہوا نانو کے گھر گیا اور انھیں سڑک پر لے گیا۔ آپ گاڑی پہ آئے اور نانو کے پاس آکر گاڑی رکی۔ آپ نے حتی المقدور نانو کو عقیدت کی نگاہوں سے دیکھا اور دعاؤں کا تبادلہ ہوا۔ جب صائم انکل نے ریس پہ پاؤں دبایا تو میری نگہ آپ کے چہرے پہ تھی۔ وہ چہرے کا ‘اظہار’ بڑا عجیب تھا گویا آپ کہہ رہے ہوں کہ جنت میں کیرم بورڈ کی محفل سجے گی۔ چند دنوں بعد جب میں چڑی چھکا کھیل رہا تھا تو ایک فون بجنے لگتا ہے۔ فون سننے والے نے ‘ان للہ و ان الیہ راجعون’ پڑھا۔ چڑی ہوا میں ہی رک گئی اور چھکا چڑی کا منہ تکتا رہ گیا اور منہ سے بے ساختہ نکلا:

Advertisements
julia rana solicitors

الذین اذا اصابتھم مصیبة قالوا ان للہ وان الیہ راجعون

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply