الفاظ نہیں حقیت تک رسائی کیجیے۔۔۔حافظ صفوان محمد

الفاظ وہ تحریری یا تقریری علامات ہوتے ہیں جن سے کسی خیال کا ابلاغ کیا جاتا ہے۔ بعض اوقات محض ایک لفظ سے پورے خیال کی ترسیل بھی ممکن ہو جاتی ہے اور بسا اوقات پورا مضمون بھی ایک چھوٹے سے خیال کی درست ترسیل میں ناکام رہتا ہے۔ اس صفت کو عجزِ بیان کہتے ہیں۔ بعض اوقات خیال کی کامل ترسیل کے لیے ایک لفظ بھی نہیں کہنا پڑتا۔ آنکھوں آنکھوں میں باتیں ہو جاتی ہیں۔ خاموشی بھی بہت کچھ کہہ جاتی ہے۔ انسان تو انسان، جانور بھی خیال کی ترسیل کرتے ہیں اور ایک لفظ کہے بغیر کرتے ہیں۔

جب بھی کوئی جملہ بطورِ قانون یا حکم بولا جاتا ہے تو اس میں مستثنیات کی ایک لازمی فہرست ازخود شامل ہوتی ہے۔ مثلًا ایک مشہور جملہ ہے: ستر چھپانا فرض ہے۔ ہر آدمی حتیٰ کہ ٹھوٹھ جاہل تک جانتا ہے کہ اس جملے کا کیا مطلب ہے۔ ستر کس کس سے چھپانا ہے، کب اور کس موقع پر چھپانا ہے، کس کے سامنے کھولنا ہے اور کس کے سامنے کھولنے کا حکم ہے، وغیرہ وغیرہ، یہ باتیں انسان کے خمیر میں رکھ دی گئی ہیں۔ جب مذہب نے یہ تعلیم دی کہ ستر چھپانا فرض ہے، تو یہ انسان کے پاس موجود علم میں کی گئی تہذیب و ترمیم تھی۔ چنانچہ حکم “ستر چھپانا فرض ہے” کا مقصود یہ بتانا ہے کہ ستر کس کس سے چھپانا فرض ہے اور کب اور کس کے سامنے کھولنا فرض ہے۔ اس حکم میں تعمیم (ہر ایک کے لیے یکساں ہونا) نہیں ہے کہ ستر کوئی ایسی چیز ہے جسے ہمیشہ کے لیے کنکریٹ کی دیواروں میں مقید رکھا جائے گا۔

“نماز ہر مسلمان پر فرض ہے” کے اسلامی حکم میں کئی لوگوں بشمول عورتوں کا مختلف مواقع کا استثنیٰ شامل ہے اور اس کی یہ قرآنی وضاحت بھی شامل ہے کہ “بے شک نماز مومنین پر وقتِ مقررہ پر فرض کی گئی ہے” ورنہ مسلمان ہر وقت نماز میں رہتا۔ بارہ مہینے چوبیس گھنٹے حالت نماز میں رہنا نہ مقصود ہے نہ ممکن ہے، اور نہ عقل ہی اسے تسلیم کرتی ہے۔ “ہتھ کار ول تے دل یار ول” ایک صوفیانہ کہاوت ہے جسے بہت پھیلا کر دکھایا جاتا ہے۔ بہرحال یہ بڑی خوبی ہے کہ انسان کسی وقت خدا کی یاد سے غافل نہ ہو۔ لیکن ہر مسلمان کی یہ کیفیت بن جائے، یہ نہ ممکن ہے اور نہ مطلوب ہے، اور ایسا نہ کبھی ہوا ہے اور نہ ہوگا.

“اے ایمان والو تم پر روزہ فرض ہے جیسے پچھلی امتوں پر فرض رہا ہے” کے قرآنی حکم کے ساتھ ان لوگوں کا صراحت سے ذکر ہے جنھیں عذر کی وجہ سے رخصت دی گئی ہے. جب صحت پر بن آتی ہو تو روزے کا چھوڑنا اور صحت کی حفاظت فرض کی گئی ہے جیسے حاملہ یا دودھ پلاتی عورت، دائم المرض اور شیخِ فانی وغیرہ.

“حج فرض ہے” کے ساتھ اس راستے کی استطاعت فرض کی گئی ہے. جس کے پاس مال اور استطاعت ہوگی صرف وہی حج کرے گا. قلاش بے زر پر حج فرض نہیں ہے. جو کسی کا حق مار کر یا چوری ڈاکہ زنی کرکے حج کر آئے اس کو زیارات کی نیکی ضرور ملے گی لیکن اس کی مشقت کو قرآن کی واضح نص کی روشنی میں حج کہنا ایک بڑی جرات ہوگی.

“زکوٰۃ فرض ہے” کا مطلب یہ نہیں ہے کہ زکوٰۃ ہر ایک پر فرض ہے۔ سوا لاکھ صحابہ میں سے گنتی کے چند لوگ تھے جن پر شروع میں زکوٰۃ فرض تھی جو صرف حکومت وصول کرتی تھی۔ دورِ نبوی و صحابہ میں حکومت کے علاوہ کسی نے زکوٰۃ جمع نہیں کی اور نہ کسی کو انفرادی طور پر زکوٰۃ دی گئی (خیرات صدقات البتہ دیے جاتے رہے) چنانچہ زکوٰۃ اصل میں حکومت کو دیا جانے والا ویلتھ ٹیکس ہے۔ جوں جوں مالی آسودگی بڑھی اور اسلام پھیلا، زکوٰۃ دینے والے بڑھتے رہے۔ چنانچہ دیکھنا پڑے گا کہ زکوٰۃ کس پر فرض ہے اور کس وقت فرض ہے۔ “زکوٰۃ فرض ہے اور اسلام کے پانچ بنیادی ارکان میں سے ہے” کا مطلب یہ نہیں ہے ہر مسلمان بہرحال زکوٰۃ دے گا۔ ممکن ہے کہ وہ خود زکوٰۃ کا مستحق ہو۔

روٹی، کپڑا، مکان، سواری اور شادی، یہ پانچ بنیادی انسانی ضرورتیں ہیں جن کے حصول کے لیے محنت کرنا اور اس محنت میں رات دن ایک کرنا ہر انسان کا بنیادی فرض ہے۔ امام غزالی کہتے ہیں کہ ان پانچ بنیادی حقوق کے حصول کے لیے کوشش کرنے والا خدا کے راستے کا مجاہد ہے۔ جب تک آدمی ان بنیادی ضرورتوں کو حاصل نہیں کر پاتا تب تک وہ مسکین کے حکم میں آتا ہے۔

جس کے پاس اپنا گھر نہیں، اپنی سواری نہیں، جو اپنی یا اپنے بچوں کی شادیوں کے لیے پیسہ جوڑ رہا ہے، جو اپنے زیرِ کفالت لوگوں کی روٹی کپڑے کی ضرورت بمشکل پوری کر رہا ہے اس پر کوئی زکوٰۃ نہیں ہے۔ جس دن آپ کا اپنی حیثیت کے مطابق گھر بن جائے، آپ کی ضرورت کے مطابق سواری حاصل ہو جائے، اپنی اور بچوں کی شادیاں کرلیں، اور زیرِ کفالت لوگوں کے لازمی اخراجات ادا کردیں اور اس کے بعد آپ کے پاس ساڑھے باون تولے چاندی کی مالیت (2016 میں ساڑھے پینتیس ہزار روپے) موجود رہے تب آپ صاحبِ نصاب ہوگئے، اور یہ مال آپ کے پاس ایک سال تک موجود رہے اور ایک دن بھی اس سے کم مالیت نہ ہو تب آپ کی سیونگز یعنی بچت پر زکوٰۃ لگے گی۔ (یاد رہے کہ یہ نصاب حکومت کا مقرر کردہ ہے؛ کسی آیت یا حدیث میں زکوٰۃ کا نصاب یا شرح مذکور نہیں ہے.)

جس آدمی پر قرضہ ہے اور وہ قرضہ ادا کر رہا ہے جیسے مثلًا رہائشی گھر یا ذاتی استعمال کی گاڑی کی اقساط ادا کر رہا ہے، اس پر زکوٰۃ نہیں ہے۔ بیٹی کو شادی میں مروجہ جہیز اور زیور دینے کے لیے جوڑے گئے پیسوں پر زکوٰۃ نہیں ہے۔ وغیرہ وغیرہ۔ عام مشاہدے کی بات ہے کہ ملازم آدمی کمانے کے باوجود ساری زندگی صاحبِ نصاب نہیں ہو پاتا جب کہ اس کی بیوی کچھ نہ کمانے کے باوجود صاحبِ نصاب بن جاتی ہے کیونکہ اس کے پاس زیور کی صورت میں سیونگ ہوتی ہے. یہ الگ بات کہ استعمال کے زیور پر زکوٰة صرف پاکستان ہندوستان میں چلنے والی فقہ حنفی میں ہے باقی کسی فقہ میں نہیں۔

نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بہترین خیرات وہ ہے جس کے دینے کے بعد آدمی مالدار رہے۔ پھر صدقہ پہلے انھیں دو جو تمھارے زیرِ پرورش ہیں۔
Reference: Sahih al-Bukhari 1426
In-book reference: Book 24, Hadith 30

زکوٰۃ فرض اور اس کا لینا ریاست و حکومت کا حق ہے کیونکہ وہ غریب پر اسے خرچ کرتی ہے۔ زکوٰۃ صرف حکومت کو دیجیے اور اس کا حساب کرتے وقت اس شعبے کے ماہر عالم مفتی سے پوری بات بتاکر مشورہ لیجیے، ورنہ بینک کی کٹوتی پر اعتماد کیجیے۔ جو شخص خود زکوٰة جمع کر رہا ہو اس سے زکوٰة کا مسئلہ پوچھنے میں بڑے خطرے اور خدشات ہیں.

Advertisements
julia rana solicitors london

مال کا ضائع کرنا حرام ہے، اور زکوٰۃ کے پیسے کا ضائع کرنا دوہرا حرام ہے کیونکہ یہ غریب کا حق تھا جو آپ نے ضائع کیا۔ اللہ سمجھ دے۔

Facebook Comments

حافظ صفوان محمد
مصنف، ادیب، لغت نویس

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply