جمہوریت کی تعریف یوں کی جاتی ہے کہ ایسی حکومت جو عام لوگوں کے لیے ہو، عام لوگوں کی ہو اور عام لوگ ہی اس کا چناؤ کریں، لیکن بات اگر مقامی سطح کی ہو تو پھر مقامی حکومت یا بلدیاتی حکومت ہی وہ بنیادی ادارہ ہے کہ جس کا تعلق براہ راست عام آدمی سے ہے، روزمرہ معاملات چاہے وہ گلی محلے کی صفائی ستھرائی کے ہوں،پانی کی فراہمی کے ہو، گلیوں کی مرمت کے ہو ں یا کسی بھی طرح کی مقامی ترقی کی ہو،بلدیاتی حکومت/اداروں کی موجودگی کے بغیر ناممکن ہے۔،بلدیاتی اداروں کی ایک اہم ذمہ داری مستقبل کے لیے مؤثر سیاسی قیادت کی تیاری بھی ہوتی ہے کیونکہ بلدیاتی ادارے بنیادی سیاست کو سمجھنے اور سیاست میں آگے بڑھنے کے لیے بہت کارگر ثابت ہوتے ہیں ، ہمارے ملک میں عام آدمی کی زندگی تو ویسے ہی مشکلات سے عبارت ہے، اس کی مشکلات کو بد امنی، مہنگائی،اور افسر شاہی نے مزید بد حال کیا ہوا ہے، لیکن ان سب سے بڑھ کر عوامی خدمات سرانجام دینے والے اداروں کی ناقص کارکردگی نے جینا محال کر رکھاہے، سرکاری دفاتر میں کام ہونا نہ ہونا تو اور بات ہے،مگر سرکاری اہلکاروں اور افسران کے مزاج ہی اتنے آسمان پر ہوتے ہیں کہ عام آدمی کو اپنے جائز کام کے لیے بھی منت سماجت اور صدائے التجاء بلند کرنی پڑتی ہے۔
پاکستان میں جنرل مشرف کے دور میں مقامی حکومتوں کا بہترین نظام نافذ ہوا، جس میں یونین کونسل کی سطح پر ناظم اور نائب ناظم کے ساتھ کونسلرز موجود ہوا کرتے تھے، اس دور میں بلدیاتی ادارے نا صرف مضبوط ہوئے بلکہ پروان بھی چڑھے، لوگوں کی اپنے منتخب عوامی بلدیاتی نمائندوں تک براہ راست رسائی تھی، صفائی ستھرائی کا مؤثر نظام موجود تھا،گلی، محلے کی سطح پر سیوریج کا نظام بہتر بنایا گیا، کچی گلیوں کو پختہ کیا گیا، نئی سڑکوں کی تعمیر ہوئی اور مقامی طور پر انفراسٹرکچر کی بہتری کے ساتھ ساتھ محصولات کی وصولی بھی بہت قابل ذکر تھی۔
مشرف دور کے بعد تو بلدیاتی ادارے مکمل طور پر نظر انداز کردیے گئے، اور رہی سہی کسر مسلم لیگ نواز کے سابقہ دور نے پوری کردی، مسلم لیگ نواز کے دور میں جماعتی بنیادوں پر بلدیاتی انتخابات کرائے گئے اور نام نہاد بلدیاتی حکومتوں کا قیام عمل میں لایا گیا، کونسلر اور چیئرمین دونوں ہی بے اختیار عہدے تھے ان کو فنڈ تک مہیا نہ کیے گئے مگر پھر بھی کچھ ہلکا پھلکا صفائی ستھرائی کا کام تو چلتا رہا ، اگست 2018 میں پاکستانی تحریک انصاف کی حکومت آئی، اور اس حکومت نے بلدیاتی حکومتوں کو ختم کردیا، بلدیاتی حکومت نہ ہونے سے مسائل کے انبار کھڑے ہوچکے ہیں، موجودہ حکومت نے نئے بلدیاتی نظام کی نوید سنائی ہے اور نیا آرڈیننس متعارف کروایا ہے۔
جس پر اختیارات کے حوالے سے ایک نئی بحث چِھڑ گئی ہے، مگر سب سے زیادہ تکلیف دہ بات یہ ہے کہ، بلدیاتی اداروں میں معاملات کو چلانے کے لیے انتظامی افسران کو اضافی ذمہ داریاں سونپی ہوئی ہیں جس کی بناء پر، ان کے اپنے بنیادی فرائض کافی حد تک نظر انداز ہوتے ہیں جس کا خمیازہ بھی بالواسطہ یا بلاواسطہ عوام الناس کو بھگتنا پڑتا ہے۔

مقامی حکومتوں کی عدم موجودگی کی وجہ سے ویسے تو پورا صوبہ پنجاب ہی بے حد متاثر ہے مگر سب سے زیادہ اثر جنوبی پنجاب کے اضلاع ہوئے ہیں جہاں پینے کا صاف پانی تک دستیاب نہیں ہے اور سونے پہ سہاگہ صفائی ستھرائی نہ ہونے کی وجہ سے صحت کے مسائل جنم لے رہے ہیں، حکومت کو چاہیے کہ جلد از جلد بلدیاتی انتخابات کا انعقاد کروائے اور اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی کرے ایک مؤثر ترین بلدیاتی نظام کو عمل پیرا کرے، اس نظام میں منتخب نمائندے عوام کو بجا طور پر جواب دہ ہوں ان نمائندوں کو اس طرح سے اختیارات دیے جائیں ،کہ ان کو عوامی مسائل کے پیش نظر مکمل طور پر فیصلہ سازی کے ساتھ ساتھ اس پر عملدرآمد کا اختیار بھی ہو ،تاکہ عوام الناس کے دکھوں کا ازالہ ہو سکے، صفائی ستھرائی کا نظام بہتر ہو، گلی محلوں کی بدترین صورتحال میں کچھ بہتری لائی جائے تاکہ عام آدمی کے دکھوں کا کچھ تو مداوا ہوسکے۔
Facebook Comments
Not doubt it’s fact …?