صنفی برابری،حقوقِ نسواں یا کچھ اور۔۔سید عمران علی شاہ

پروردگارِ عالم کی تخلیق کردہ پوری کائنات اس کی کبریائی کی حمد و ثناء کرتی دکھائی دیتی ہے، کائنات کا ذرّہ ذرّہ اس امر کی نشاندہی کرتا ہے کہ، ذات ِ باری تعالیٰ کس قدر بلند اور عظیم ہے، رب کائنات کو اپنی مخلوق سے بے حد و حساب محبت ہے، مگر اس نے انسان کو بہت عالی مرتبت بنایا، اسے تمام جہانوں کی نعمتوں سے نوازا اور اشرف المخلوقات کے شرف کے ساتھ ساتھ اپنا نائب منتخب کیا، انسانی معاشرے میں انسان کی جسمانی خدوخال کی بنیادی  طور پر دو ہی اقسام رکھیں ،یعنی عورت اور مرد، اور ان دونوں کے وجود سے نسلِ  انسانی کو پروان چڑھایا گیا ہے اور یہ سلسلہ تا ابد جاری و ساری رہے گا۔

عورت اور مرد دونوں ہی ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں، دونوں ہی کا کردار معاشرے میں بہت اہم ہے، ایک بغیر دوسرا ادھورا ہے، ہماری یہ بدقسمتی رہی ہے کہ ہمیشہ معاشرے میں تقسیم اور بگاڑ کی کوشش کرنے کے لئے معاشرے کے اندر ہی کوئی نہ کوئی سہولت کار یا گروہ موجود رہا ہے، جس کا مقصد اپنے ذاتی مفاد کی بنیاد پر ملکی معاشرے کو تباہ کرنے کی سازش کا حصہ بننا رہا ہے،گزشتہ چند برسوں سے صنفی برابری کے راگ کو جس طرح سے الاپا گیا ہے، اس سے ایک عجیب و غریب کشمش سی پیدا ہوگئی ہے۔

سوال یہ بنتا ہے کہ پاکستان میں جن مغربی ممالک کی فنڈنگ ایجنسیز صنفی برابری کا ڈھول بجوانے میں پیش پیش ہیں، وہاں کس قدر صنفی برابری موجود ہے،
جہاں تک بات حقوق نسواں کی ہے تو، پاکستانی معاشرے میں آج بھی خواتین پوری آب و تاب کے ساتھ اپنا بھرپور کردار ادا کر رہی ہیں، چاہے وہ امور خانہ داری ہو یا پھر نوکری خواتین کے لیے بہت بہت سی آسانیاں موجود ہیں۔
ملازمت کے لیے نہ صرف الگ کوٹہ موجود ہے ان کے لیے عمر کی رعایت مردوں کی نسبت پانچ سال زائد ہے۔
پاکستانی قوانین میں خواتین کے لیے جس قدر معاونت موجود ہے اس  کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اگر میاں بیوی میں طلاق ہو جائے تو، اس صورت حال میں خواتین کو بچوں سمیت حوالگی اور ان کی بلوغت تک نان و نفقے کا خرچہ مرد کے ذمہ ہوتا ہے۔
شوہر نے اپنی بیوی کو جو بھی دیا ہوا ہوتا ہے وہ طلاق کے بعد بھی عورت کی ملکیت رہتا ہے۔

صنفی برابری کے حوالے سے ایک عجیب بات یہ دیکھنے میں آتی ہے کہ اس  میں صرف اور صرف خواتین کے حقوق کا دفاع کیا جاتا ہے اور ان حقوق کے حوالے سے اگر خدانخواستہ کوئی کمی بیشی واقع ہوجائے تو میڈیا، سول سوسائٹی اور نام نہاد انسانی حقوق کی علمبردار این جی اوز چیخنا چِلانا شروع کر دیتی ہیں۔

یہ بتایا جائے کہ کیا مرد اس معاشرے کا حصہ نہیں ہے، کیا اس کے حقوق نہیں ہیں؟

اگر چند سالوں کی صنفی تشدد کی خبروں کا جائزہ لیا جائے تو جہاں خواتین پر تشدد ہوا ہے وہاں اسی طرح کا تشدد مردوں پر بھی ہوا ہے،
معاشرہ اس بات کو کیوں یاد نہیں رکھتا کہ مرد اپنے گھر کو پالنے کے لیے کیسی کیسی تکالیف اور چیلنجز کا سامنا کرتا ہے، 12,12 گھنٹے کی مشقت کرکے کے فٹ پاتھ پر سوجاتا ہے اور کسی سے شکوہ یا شکایت اس لیے نہیں کرتا کہ اس کو مرد ہونے کی وجہ سے ایسا کرنے کا حق نہیں ہے، شدید سردی ہو یا آگ برساتی ہوئی گرمی ہو، اس کو آرام اس لیے میسر نہیں کہ اگر وہ غافل ہوا تو گھر کا معاشی نظام مفلوج ہو کر رہ جائے گا۔

باپ پوری زندگی اولاد کی خواہشات کو پورا کرنے میں لگا رہتا ہے مگر جب گھر میں میاں بیوی کا جھگڑا ہو جائے تو بچے ماں کی طرف داری کرتے دکھائی دیتے ہیں، کیوں ان کی نظر میں ماں مظلوم ہوتی ہے۔

مشاہدے سے معلوم ہوتا ہے کہ مرد پوری زندگی اپنی ماں، بہنوں اور بیوی کے مابین رشتے کو متوازن رکھنے کی سعی کرتا رہتا ہے، مگر جیسے ہی اس کا توازن کسی ایک طرف کو جھکتا نظر آئے تو مرد ہی موردِ  الزام ٹھہرتا ہے۔

آج سے چند روز قبل ایک ٹی وی پروگرام میں دو خواتین اینکرز وزیراعظم   پاکستان کے میڈیا ایڈوائزر شہباز گل کو یہ باور کروا رہی تھیں کہ، حکومت کا کام  معاشرے میں اسلامی قوانین پر عملدرآمد نہیں ہے، ان خواتین میں سے ایک یہ فرما رہی تھیں کہ میں جیسا چاہے لباس پہنوں، اس سے حکومت کا کوئی سروکار نہیں ہے۔

عجیب بات ہے کہ کیا عورتوں کے حقوق صرف قابلِ اعتراض لباس پہننے سے پورے ہوں گے؟

ایک اور ٹی وی پروگرام میں ایک اینکر یہ کہتی ہوئی سنائی دی کہ نئے نصاب کی کتاب میں ایک تصویر دیکھی جس میں عورت زمین پر بیٹھی ہے اور مرد صوفے پر بیٹھا ہوا دکھائی دے رہا ہے تو مجھے بہت پریشانی لاحق ہوئی کہ ہم عورت کو غلام دکھانا چاہ رہے ہیں۔

یہ کیا عجیب منطق ہے اور اس قسم کے پروگرام کرنے کا مقصد کیا ہے؟۔ ان کے سپانسرز کون ہیں ، ہم صنفی برابری کے نعرے اور خواتین کے حقوق کی آڑ میں کس قسم کی تباہی چاہتے ہیں؟

یہ اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے، تو حکومت کا فرض عین ہے کہ وہ مذہب کی مکمّل عملداری کو یقینی بنائے اور ساتھ کے ساتھ ایسے فتنہ پرور غیر ریاستی عناصر پر بھی نہ صرف غور کرے بلکہ ان کی مکمّل چھان بین کرے۔

پاکستانی میڈیا ہوش کہ ناخن لے اور وہ خواتین کے حقیقی مسائل جیسے کہ تعلیم کے حصول میں دشواری، وراثت کے حصول، صحت کے مسائل یا پھر نوکری کے حصول جیسے مسائل کو اجاگر کرے اور ان کو حل کروائے۔

Advertisements
julia rana solicitors

اس وقت پوری دنیا میں خاندانی نظام دم توڑ چکا ہے، لیکن ہمارے ملک میں یہ ابھی بھی قائم و دائم ہے، اسی کے دم سے ہمارے معاشرے کی بقاء ہے،اب بھی وقت ہے کہ ہم اپنا قبلہ درست رکھیں اور اپنے خاندانی نظام کو مزید مضبوط بنائیں، کیونکہ مغرب پروردہ نام نہاد انسانی حقوق کی تنظیمیں اور صحافیوں کے بھیس میں موجود کالی بھیڑوں کا مقصد صنفی برابری یا خواتین کے حقوق کا حصول نہیں ہے بلکہ ہمارے معاشرے کو تقسیم در تقسیم کرنا اور میاں بیوی جیسے پاک، حلال اور بہترین رشتے کو تباہ کرکے معاشرے کو بدکاری اور گمراہی میں دھکیلنا ہے۔
پروردگارِ عالم پاکستان کو ہر قسم کی سازش سے محفوظ رکھے، ہمارے معاشرے کو خواتین اور بچوں کے لیے ایک بہتر معاشرہ بنائے اور ہمارے فیملی سسٹم کی حفاظت فرمائے

Facebook Comments

سید عمران علی شاہ
سید عمران علی شاہ نام - سید عمران علی شاہ سکونت- لیہ, پاکستان تعلیم: MBA, MA International Relations, B.Ed, M.A Special Education شعبہ-ڈویلپمنٹ سیکٹر, NGOs شاعری ,کالم نگاری، مضمون نگاری، موسیقی سے گہرا لگاؤ ہے، گذشتہ 8 سال سے، مختلف قومی و علاقائی اخبارات روزنامہ نظام اسلام آباد، روزنامہ خبریں ملتان، روزنامہ صحافت کوئٹہ،روزنامہ نوائے تھل، روزنامہ شناور ،روزنامہ لیہ ٹو ڈے اور روزنامہ معرکہ میں کالمز اور آرٹیکلز باقاعدگی سے شائع ہو رہے ہیں، اسی طرح سے عالمی شہرت یافتہ ویبسائٹ مکالمہ ڈاٹ کام، ڈیلی اردو کالمز اور ہم سب میں بھی پچھلے کئی سالوں سے ان کے کالمز باقاعدگی سے شائع ہو رہے، بذات خود بھی شعبہ صحافت سے وابستگی ہے، 10 سال ہفت روزہ میری آواز (مظفر گڑھ، ملتان) سے بطور ایڈیٹر وابستہ رہے، اس وقت روزنامہ شناور لیہ کے ایگزیکٹو ایڈیٹر ہیں اور ہفت روزہ اعجازِ قلم لیہ کے چیف ایڈیٹر ہیں، مختلف اداروں میں بطور وزیٹنگ فیکلٹی ممبر ماسٹرز کی سطح کے طلباء و طالبات کو تعلیم بھی دیتے ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply