ناسا نے 2021 میں اپنی سب سے جدید روبوٹک روور “پریزرویرنس” مریخ پر بھیجی۔ مگر مریخ پر بنا کسی پائلٹ یا انسان کے اُترنا خالہ جی کا گھر نہیں۔ اب تک کئی ممالک مریخ پر رورو یا لینڈر کو لینڈ کرانے کی کوشش کر چکے ہیں جن میں سے اکثر کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ہے مگر امریکہ کا خلا کی تسخیر کا ادارہ ناسا وہ واحد ادارہ ہے جسکا اس حوالے سے ماضی سے لیکر اب تک کا ریکارڈ شاندار رہا یے۔
مریخ دراصل زمین سے بے حد دور ہے۔ کتنا دور؟ یہ اس پر منحصر ہے کہ سال میں مریخ اور زمین سورج کے گرد اپنے اپنے مدار میں کہاں ہیں۔ اگر مریخ اور زمین اپنے اپنے مدار میں سورج کے ایک طرف ہوں تو یہ فاصلہ کم ہوتا ہے اور اگر ایک دوسرے کی مخالف سمت میں تو یہ فاصلہ زیادہ۔
دو سال میں ایک مرتبہ ایسا ہوتا ہے کہ مریخ اور زمین کے بیچ فاصلہ سب سے کم ہوتا ہے۔ لہذا مشن کو اس طرح ترتیب دیا جاتا ہے کہ جب مریخ اس جگہ پہنچے جہاں یہ زمین کے سب سے قریب ہو تو اس سے سات یا نو ماہ قبل سپیسکرافٹ کو مریخ کی جناب بھیجا جاتا ہے۔ تاکہ سپیس کرافٹ تبھی وہاں پہنچے جب مریخ اس خاص مقام پر ہو۔
خیر مریخ سے قریب ترین فاصلے پر بھی مریخ سے زمین تک بھیجے جانے والے ریڈیائی سگنل روشنی کی رفتار سے سفر کرتے ہوئے کم سے کم گیارہ منٹ میں زمین تک پہنچتے ہیں۔
اب اربوں ڈالر کی بنائی گئی روور اور اسے لینڈ کرانے کا مشن مریخ کی فضا میں پہنچ جائیں اور اس تک رابطے میں گیارہ منٹ لگتے ہوں جبکہ مریخ کی فضا سے نیچے لینڈنگ میں کل سات منٹ لگتے ہوں تو ناسا کے انجینئرز اور سائنسدان سوائے ٹیکنالوجی کے بھروسے کے اور انتظار کے اور کچھ نہیں کر سکتے۔ مشن کی تکمیل کے لیے اسکے تمام مراحل اور تمام پرزوں کو خود ہی ایک تریتیب اور پروگرام کے تحت بغیر کسی انسانی مدد کے آٹو پائلٹ پر لینڈنگ کرنا ہو گا۔
ان سات منٹ میں زمین پر موجود مشن کنٹرول کے افراد محض یہ اُمید کر سکتے ہیں کہ انکے برسوں کی گئی محنت اور سالوں کی انتھک تحقیق اور تجربات سے بنائی گئی ٹیکنالوجی وقت آنے پر صحیح طور پر کام کر سکے۔ اور یہ بعض اوقات کام نہیں بھی کرتی یا کبھی کبھی لینڈنگ سائٹ پر بڑے پتھر یا گڑھے ہوں تو کیا کیا جا سکتا ہے؟ تبھی مشن کی پلاننگ نہایت دیکھ بھال کر کی جاتی ہے۔ انتہائی احتیاط سے لینڈنگ سائٹ کا انتخاب کیا جاتا ہے۔ مشن کے تمام کھلنے والے پرزوں کو بار بار چیک کیا جاتا ہے اور آٹو پائلٹ اور نیویگیشن سسٹم سے کئی بار زمین پر لینڈنگ کے تجربات مشکل سے مشکل حالات میں کرائے جاتے ہیں۔
18 فروری کو پریزرویرنس نے بھی کچھ ایسا کیا۔ 30 جولائی 2020 کو زمین سے بھیجا جانے والا یہ مشن ایک سپیس کرافٹ میں اس رورو کو اُٹھائے خلا میں داخل ہوا اور تقریباً ساڑھے چھ ماہ بعد اس سپیس کرافٹ نے ہیٹ شیلڈ اور لینڈنگ سسٹم میں چھپی یہ روور مریخ کی فضا میں چھوڑ دی۔
اندازہ کیجئے 20 ہزار کلومیٹرفی گھنٹہ کی رفتار سے یہ ہیٹ شیلڈ میں محفوظ یہ روور مریخ کی فضا میں داخل ہوتی ہے اور اسے اپنی رفتار اس قدر آہستہ ہونا ہے کہ یہ بغیر کسی نقصان کے مریخ کی ایک مقررہ سائٹ پر لینڈ کر سکے۔ ہیٹ شیلڈ کی فضا میں رگڑ سے اسکی رفتار فضا میں داخلے کی رفتار سے تقریباً دس گناہ کم ہو جاتی ہے یعنی تقریباً 2 ہزار کلومیٹر فی گھنٹہ۔ گویا یہ آواز کی رفتار سے بھی تقریباً ڈیڑھ گنا زیادہ رفتار ہے۔ پھر اسکے ساتھ جڑے سپرسونک اور بڑے بڑے پیراشوٹ کھلتے ہیں جو اسکی رفتار کو مزید کم کر دیتے ہیں۔ ساتھ ہی ہیٹ شیلڈ الگ ہو جاتی ہے۔ اور اسکو لینڈ کرانے والے انجن کے نیویگیشن سسٹم میں موجود ریڈار لینڈنگ سائٹ کو لاک کرتا ہے جیسے کون بنے گا کروڑ پتی میں امیتابھ بچن کمپیوٹر جی کا جواب لاک کرتے ہیں۔ پھر اسکے انجن میں موجود تھرسٹرز اسکی رفتار کو مزید کم کرتے ہیں اور مریخ کی سطح سے کچھ میٹر اوپر لینڈنگ انجن سے کرین کی صورت مضبوط تاروں سے روور کو نیچے سافٹ لینڈنگ کرائی جاتی ہے اور انجن دوبارہ سے اوپر کو اُٹھ کر لینڈنگ سائٹ سے دور جا گرتا ہے تاکہ روور محفوظ رہے۔
ان سات منٹ میں زمین پر ناسا کے مشن کنٹرول روم میں بیٹھے سائنسدان اور انجنیئرز محض انتظار ہی کر سکتے ہیں اور اُنہیں لیندنگ کے چندمنٹ بعد ہی سگنل موصول ہوتا ہے کہ لینڈنگ بحفاظت ہو چکی ہے۔ کئی انسانوں کی محنت، ٹینکالوجیز اور انتھک کاوشوں سے زمین سے کروڑوں کلومیٹر دور ایک سیارے پر لیندنگ کرانا عقل کی معراج نہیں تو اور کیا ہے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں