ذہن ۔ زندگی (24)۔۔وہاراامباکر

شعور کیا ہے؟ فلسفی، آرٹسٹ، نیوروبائیولوجسٹ، سب کو یہ سوال پریشان کرتا رہا ہے۔ جب سے ہم باشعور ہوئے ہیں، اس سوال کے جواب کی تلاش میں ہیں۔

کوانٹم مکینکس مقناطیسی قطب نما، فوٹوسنتھیسز، سونگھنے، انزائم ایکشن جیسی چیزوں کے لئے تو ضروری ہے لیکن روایتی کیمسٹری اور فزکس سے بھی ان کے بارے میں بات کی جا سکتی ہے۔ اور جہاں پر کوانٹم مکینکس آتی ہے، وہ خواہ ہمارے کامن سینس سے دور کیوں نہ ہو، ریاضی اس کو بہت ہی پریسائز طریقے سے بتا دیتی ہے۔ لیکن شعور کا معاملہ فرق ہے۔ کسی کو معلوم نہیں کہ اس کو سائنس میں کس طریقے سے فٹ کیا جائے۔ کوئی اچھی ریاضیاتی مساوات نہیں۔ کیا یہ ہر قسم کی زندگی کی خاصیت ہے؟ زیادہ تر لوگوں کا خیال ہے کہ نہیں۔ اس کے لئے نروس سسٹم کا ہونا ضروری ہے۔ لیکن پھر سوال یہ کہ کتنے اور کیسے نروس سسٹم کا ہونا ضروری ہے؟

کیا کلاوٗن فش کو اپنے گھر جانے کی تمنا ہوتی ہے؟ کیا لال چڑیا کو خواہش پیدا ہوتی ہے کہ وہ سردیوں میں ہجرت کر جائے یا پھر یہ عمل ویسے ہے جیسے کسی ڈرون جہاز کا؟ بس خودکار سا۔

جانور پالنے والے اس پر قائل ہوں گے کہ ان کے پالتو کتے یا گھوڑے شعور رکھتے ہیں۔ تو پھر ممالیہ میں یہ خاصیت کیسے آئی؟ کیا یہ صلاحیت ممالیہ سے خاص ہے؟ جو لوگ طوطے اور مینا پالتے ہیں وہ اتنے ہی قائل ہیں کہ ان کے پالتو اپنی شخصیت رکھتے ہیں اور اپنا پیچھا کرنے والی بلی کی طرح ہی باشعور ہیں۔ اگر شعور پرندوں اور ممالیہ میں ہے تو یہ خاصیت ان کے کسی مشترکہ باشعور جد میں بھی ہو گی؟ جو تیس کروڑ سال پہلے رہنے والا ایمنیوٹ تھا۔ اور پرندوں، ممالیہ اور ڈائنوسار کا جد تھا۔ اور اگر ایسا ہے تو ڈائنوسار بھی باشعور ہوں گے؟ کیا دلدل میں پھنسا ڈائنوسار خوف زدہ تھا؟ اپنے آخری لمحوں میں اس کے احساسات کیا ہوں گے؟ آبی جانوروں کے ساتھ کام کرنے والے کہیں گے کہ آکٹوپس اور مچھلیاں بھی باشعور ہیں۔ اور اگر ایسا ہے تو پھر شعور کی ابتدا کے لئے ہمیں پچاس کروڑ سال پہلے جانا پڑے گا۔

یہ شروع کب، کہاں اور کیسے ہوا؟ ہمیں معلوم نہیں۔ ہمیں تو آج کے جانداروں کے شعور یا کیفیت کا بھی معلوم نہیں۔ اور اس کو جانے بغیر ہم یہ کبھی نہیں جان سکیں گے کہ زندگی کی کونسی قسم میں یہ خاصیت موجود ہے۔ ابھی کے لئے آسان راستہ پکڑتے ہیں اور ان بحثوں کے قریب سے دبے پاوٗں نکل کر اس پر اتفاق کر لیتے ہیں کہ تیس ہزار سال پہلے غار میں ریچھ اور بھینسوں اور گھوڑوں کی تصاویر بنانے والا آرٹسٹ باشعور تھا۔

تین ارب سال سے زیادہ قبل، جب قدیم کیچڑ سے جرثومے ابھر رہے تھے سے تیس ہزار سال قبل جب انسان اپنے غاروں کو سجا رہے تھے، اس عرصے کے درمیان میں کہیں زندہ اجسام میں ایک عجیب ہی خاصیت نمودار ہوئی۔

کچھ مادہ اپنے وجود سے آشنا ہو گیا۔

اس کائنات کے بارے میں سب سے عجیب فیکٹ جس کا ہمیں علم ہے، وہ یہ ہے کہ ہم اس کے بارے میں بہت کچھ جانتے ہیں۔ اور اس کی وجہ ہماری کھوپڑی کے بیچ میں مادے کی یہ انتہائی عجیب خاصیت ہے۔

جب ہم شاوے کے غار پر قدیم مصور کے کام کو دیکھتے ہیں تو اس میں بہت سے شواہد موجود ہیں جو خیالات کی گہرائی کا بتاتے ہیں۔ انسانی دھڑ پر بھینسے کا سر بنانے کے لئے خیالات کو آپس میں جوڑنے، توڑنے اور مروڑنے کی ضرورت ہے۔

لیکن خیالات کیا ہیں؟ یہ پیچیدہ انفارمیشن کی نمائندگی کرتے ہیں۔ اس نصف انسان اور نصف بھینسے کا غار کے باسیوں کے لئے کوئی معنی ہو گا۔ مرزا غالب ہوں یا آئن سٹائن یا یہ مصور۔ شعور پیچیدہ انفارمیشن کو اپنے مختلف حصوں کے ساتھ پکڑ لینے اور ان کا مکمل معنی بنا لینے کی صلاحیت دیتا ہے۔ خیالات اور تصورات کی بنیاد پر ردِ عمل اور حرکت کی اجازت دیتا ہے، نہ کہ محض سٹیمولس کی بنیاد پر۔

لیکن نیورونل انفارمیشن کیسے اکٹھی ہو کر شعور میں ایک مربوط خیال بنتی ہے؟ یہ شعور کا پہلا معمہ ہے جس کو بائنڈنگ پرابلم کہا جاتا ہے۔ دماغ میں پراسسنگ الگ حصوں میں ہوتی ہے۔ خوشبو، آواز، رنگ، ساخت کی انفارمیشن الگ الگ نہیں بلکہ ایک تصور بناتی ہے۔ پھول، شخص، درخت کے طور پر۔

آنکھ کے راڈ اور کون، چھونے کے مکینوسینسیٹو اعصاب، برقی لہروں کے الگ سگنل ہیں۔ یہ اکٹھے ملکر ایک تصور اور ایک یادداشت بناتے ہیں۔

اہم نکتہ یہ ہے کہ انسانی دماغ کے ایک کھرب نیورونز میں، جہاں یہ وسیع انفارمیشن کا بہاوٗ پہنچتا ہے اور کسی شے کا تصور بناتا ہے۔ اس کو دماغ میں انفارمیشن کا سفر سمجھا جا سکتا ہے۔ سگنل جو نیورون کے اس گنجلک سے گزرتے ہیں۔ بائنڈنگ پرابلم یہ ہے کہ آخر کیسے یہ الگ الگ سگنل اکٹھے ہو کر ایک تصور کی تخلیق کرتے ہیں۔

اور یہاں یکجا صرف حسیات نے ہی نہیں ہونا۔ شعور کا خام مال صرف حسیات سے الگ الگ موصول ہونے والا ڈیٹا نہیں۔ بلکہ ان کو معنی پہنانے والے تصورات بھی ہیں۔ ہر ایک پیچیدہ انفارمیشن سے لدا ہوا۔ سیاہ رنگ کا، بدبودار، خوفناک، بڑے جثے والا اور یہ سب الگ الگ نہیں۔ ایک بھینسا بن جاتا ہے۔ اور اس تصور کو کوئی مصور اپنے کینوس پر بنا سکتا ہے۔

بائنڈنگ پرابلم کو محض حسیات کے بجائے خیالات کا ربط دینے کا مسئلہ ہمیں شعور کے مرکزی مسئلے کی بہتر آگاہی دیتا ہے۔ کیسے خیالات ذہن کو اور پھر جسم کو حرکت دے سکتے ہیں؟ کیا تصویر بناتے وقت یہ سوچا گیا تھا کہ یہ تاریک گوشے کو خوبصورتی دے گا؟ کیا اس لئے کہ مصور کا خیال تھا کہ اس کے ساتھیوں کو اسکی پہچان یا شکار میں آسانی ہو گی؟ یا بس ایسے ہی؟ معلوم نہیں۔ لیکن ہم ایک چیز کے بارے میں یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ تصویر بنانے کا فیصلہ مصور کا “آئیڈیا” تھا۔

خیال مادے کو کیسے متحرک کر سکتے ہیں؟ مکمل طور پر کلاسیکل آبجیکٹ کے طور پر اِن پُٹ کی بنیاد پر آوٹ پٹ کی وضاحت کی جا سکتی ہے۔ جیسے کوئی کمپیوٹر (یا زومبی)۔ لیکن یہ شعور، جو بازو، ٹانگوں یا زبان کو حرکت دیتا ہے؟ اس کی یا پھر فری وِل کی کلاسیکل دنیا میں کوئی جگہ نہیں۔ کیونکہ ایسی دنیا میں کازیلیٹی کی زنجیر سب کی وضاحت کر دیتی ہے۔ کازیلیٹی کی زنجیر مصور کی تصویر کی وضاحت کو کھینچ کر بگ بینگ تک لے جا سکتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

قدیم ترین مصوری کا غار دریافت کرنے والی جین میری اپنے احساس کا بتاتی ہیں جب ان کی نظر پہلی بار اس پر پڑی تھی۔ جین کے مطابق یہ ان کے گروپ کیلئے یہ بڑا گہرا روحانی تجربہ تھا۔ جب ہم انسان یا کسی جانور کی کھوپڑی کے بیچ میں دیکھتے ہیں تو گیلا مادہ ہی نظر آتا ہے جو ران کے گوشت سے زیادہ مختلف تو نہیں۔ لیکن جب یہ دماغ کے بیچ میں ہے تو یہ خودآگاہی رکھتا ہے، محسوس کر سکتا ہے، ان تجربات کو جو مادی دنیا میں نہیں۔ اور یہ شعوری ذہن ۔۔ ہمارے دماغ کے مادے کو حرکت دینے کی “وجہ” ہے (یا کم از کم ہمارا ادراک تو یہی کہتا ہے)۔ یہ معمہ جس کو مائیڈ باڈی پرابلم یا شعور کی مشکل گتھی کہا جاتا ہے ۔۔۔ یقیناً ہمارے پورے وجود کا گہرا ترین اسرار ہے۔

یہاں پر ایک انتباہ: شعور کے بارے میں تمام تر خیالات، خواہ کسی بھی نوعیت کے ہوں، قیاس آرائی ہیں کیونکہ کوئی نہیں جانتا کہ شعور کیا ہے اور کیسے کام کرتا ہے۔ یعنی نہ ہی اس کی کوئی بھی آئیڈنٹیٹی تھیوری ہے اور نہ ہی کازل تھیوری۔ نیوروسائٹسٹ، سائیکولوجسٹ، کمپیوٹر سائنٹسٹ اور مصنوعی ذہانت کے محققین کا اس پر کوئی اتفاق نہیں اور ان شعبوں میں کام کرنے والے اس کو عام طور پر نظرانداز کر دیتے ہیں کیونکہ عملی کام کرنے کے لئے یہی مناسب طریقہ ہے۔ (عملی جواب اور حتمی جواب کو کنفیوز کئے جانا عام ہے)۔ ایک اور مقبول خیال یہ ہے کہ انسانی شعور خود اپنا احاطہ نہیں کر سکتا۔ یہ اس کی بساط سے باہر ہے۔ ایک اور خیال یہ کہ شعور ایپی فینا ہے یعنی جیسے روشنی دیتے بلب کا ایک سائیڈ ایفیکٹ حرارت ہے، ویسے اس کو ایک فالتو شے کہہ کر قالین تلے سِرکا دیا جاتا ہے۔ اور یہ وہ وجوہات ہیں جن کی وجہ سے ٹیگمارک اس کو سائنس کے کمرے کا بڑا ہاتھی کہتے ہیں۔

تاہم ہر کوئی آسانی سے شکست مان لینے کو تیار نہیں۔ شعور کے بارے میں وضاحت کے لئے بہت سے خیالات ہیں اور کتابوں پر کتابیں لکھی جا چکی ہیں۔ ایک بار پھر ہم آسان راستہ پکڑ کر دبے پاوٗں ان سب کے قریب سے نکل جاتے ہیں اور ابھی کے لئے صرف ایک سوال: کیا یہ کوانٹم مکینیکل ہے؟ اس پر کئی طرح کے خیالات ہیں۔ چند مثالیں بہت ہی اختصار کے ساتھ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ابتدا پینروز اور ہیمروف کے پیش کی گئی آرک اور تھیوری سے ہوئی، جس میں مائیکروٹیوبیولز کو کوانٹم کمپیوٹنگ کی اوریجن کے طور پر بتایا گیا ہے۔ یہ تھیوری کئی بار ریوائز کی جا چکی ہے۔ لیکن سائنسدانوں کی بڑی تعداد کو قائل نہیں کر سکی۔ حالیہ برسوں میں بہت سے دوسرے مختلف خیالات سامنے آنا شروع ہوئے ہیں۔ دماغ میں کوانٹم مکینکل فینامینا کے لئے کئی جگہیں ممکن ہیں۔ ایک مثال کوانٹم آئیون چینل ہیں۔ یہ نیورل انفارمیشن پراسسنگ میں مرکزی کردار ادا کرتے ہیں۔ ان کی لمبائی ایک میٹر کا ایک اربواں حصہ جبکہ چوڑائی اس سے نصف ہوتی ہے۔ یہاں سے آئیون ایک قطار بنا کر نکل سکتے ہیں۔ اور اس کی رفتار بہت تیز ہوتی ہے۔ دس کروڑ فی سیکنڈ۔ اور یہ چینل ٹھیک آئیون کے انتخاب کے بارے میں سخت گیر ہیں۔ پوٹاشئیم کے دس ہزار آئیون کے بعد سوڈئم کا ایک آئین۔ حالانکہ سوڈئم کا سائز پوٹاشئم سے چھوٹا ہے اور آپ شاید توقع رکھیں کہ سوڈئم کے لئے پھسل جانا آسان ہو گا۔ یہ کیسے کیا جا سکتا ہے؟ یہ حل طلب مسئلہ ہے۔ یونیورسٹی آف سالزبرگ میں نیوروسائنس اور فزکس کے شعبوں کی طرف سے بنائی گئی سمولیشن اس کی وضاحت آئیون کی نان لوکلائزیشن سے کرتی ہے۔ اس ٹیم نے نتیجہ نکالا کہ کوانٹم کوہرنس یہاں سے آئیون گزرنے میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے اور یہ ہمارے سوچنے کے عمل کا ضروری حصہ ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

زیادہ تر نیوروسائٹنسٹ الیکٹرومیگنیٹک فیلڈ کا کردار نظرانداز کرتے رہے ہیں لیکن یہ دماغ کے مختلف حصوں میں تال میل کروانے میں بڑا اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔ یہ خیال حال میں بائنڈنگ پرابلم اور سنکرونائزیشن کے حل کے لئے پیش کیا گیا ہے۔ نرو کی فائرنگ یہ فیلڈ پیدا کرتی ہے اور خود اس سے اثرانداز ہوتی ہے۔ اور اس خیال سے اس کی گتھی سلجھانے میں آگے بڑھنے کی امید ہے۔ کیوں؟

آپ کی نظروں کے سامنے کوئی شے پڑی ہے اور آپ اسے ڈھونڈ نہیں پا رہے اور اچانک توجہ جانے پر وہ مل جاتی ہے۔ فرق کہاں آیا؟ نیورون کی فائرنگ میں بالکل بھی نہیں۔ صرف ان کی سنکرونائزیشن میں۔ اور الگ حصوں میں ہو جانے والی یہ سنکرونائزیشن، شعوری اور غیرشعوری سوچ کو ممتاز کرنے میں اس کا کردار ہو سکتا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یا پھر سٹورٹ کافمین جو عہدِ حاضر کے بڑے پولی میتھ سمجھے جاتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر آج سے پندرہ سال قبل شعور اور کوانٹم مکینکس کا اکٹھے ذکر کیا جاتا تو ایک قہقہہ بلند ہوتا۔ کافمین اس بارے میں ایک بالکل نئی انسائٹ دیتے ہیں۔

کافین ارتقائی ماڈلنگ سے بتاتے ہیں کہ شعور کا ارتقا نان رینڈم اور جزوی لاءلیس دنیا کے بغیر ممکن نہیں تھا اور یہی ذمہ دار فری وِل کی بھی وجہ ہے۔ اگر میں ایک ذمہ دار فری وِل والا شیر ہوں جو ذمہ دار فری وِل والے ہرن کا پیچھا کر رہا ہوں تو میں یہ “دیکھ” سکتا ہوں کہ ہرن کیا انتخاب کر رہا ہے اور اس کے مطابق اپنے فیصلے کا انتخاب کر سکتا ہوں۔ لیکن میں فری وِل والے ہرن کے بارے میں کمپیوٹ نہیں کر سکتا۔ نان رینڈم اور جزوی لاء لیس دنیا کے بغیر ارتقا میں شعور کی کوئی گنجائش نہیں بنتی کیونکہ بغیر شعور کا آبجیکٹ ہمیشہ زیادہ ایفی شنٹ ہوتا۔ اس کو ایولیوشنری ماڈلز سے بآسانی پرکھا جا سکتا ہے۔

کافین کے کام کا خلاصہ اگر ایک فقرے میں کیا جائے تو وہ یہ ہو گا کہ ذہن دماغ کا وہ سسٹم ہے جو کوانٹم کوہرنس کو برقرار رکھتا ہے، ڈی کوہئیر کرتا ہے اور پھر واپس ری کوہرنس کرتا ہے۔ (ان کی کتاب کا لنک آخر میں)۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ اور اس طرح کے بہت سے اور خیالات اس بارے میں آگے بڑھنے میں مدد کر سکتے ہیں۔ ابھی ہم اس کی فزکس کے بارے میں بہت کم جانتے ہیں لیکن کیا شعور کوانٹم مکینیکل فینامینا ہے؟ ہمارے پاس کوئی دھواں دیتی بندوق نہیں جس کو دیکھ کر کہا جا سکے کہ اس کی وضاحت کوانٹم مکینکس کے بغیر نہیں کی جا سکتی۔ صرف اتنا ہی کہا جا سکتا ہے کہ جہاں پر زندگی کے کئی بنیادی پراسس کوانٹم مکینیکل ہیں تو یہ غیرمعمولی دعویٰ ہو گا کہ شعور میں کوانٹم مکینکس کا بڑا ہاتھ نہیں ہے۔ (کلاسیکل فزکس کا کازل کلوژر بنیادی طور پر شعور کے موجود نہ ہونے کی پیش گوئی کرتا ہے)۔ لیکن بائیولوجی میں کوانٹم کے مین سٹریم ہو جانے سے اور کوانٹم انفارمیشن پراسسنگ میں پیش رفت کے بعد امید پیدا ہوئی ہے کہ اس بڑی گتھی کے کچھ حصوں کو سلجھانے کے بارے میں پیشرفت ہو سکتی ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اب ہم واپس فرانس کی تاریک غار کی طرف آتے ہیں۔ مشعل کی ٹمٹاتی روشنی میں دیوار کے آگے کھڑا آرٹسٹ کچھ سوچ رہا ہے۔ اس کے ذہن میں اس روز اس بڑے جانور کا خیال آیا تھا۔ شاید دیوار پر پڑتی ٹمٹاتی روشنی کا بھی اس میں ہاتھ ہو۔ یہ کافی تھا کہ اس کے ذہن میں خیال کا بیج پڑ جائے۔ شاید دماغ کے ای ایم فیلڈ کی فلکچوئشن ہو جس نے آئیون کے چینل کھول دئے اور نیورون فائر کرنے لگے۔ ان کی سنکرونائزیشن سے ریڑھ کی ہڈی میں سگنل پہنچا اور پھر موٹر نرو تک۔ اس کے پٹھے حرکت کرنے لگے۔ جسم کے اعضاء کا تال میل ہوا۔ ہاتھوں میں حرکت ہوئی۔ انگلی کا رنگ غار کی دیوار پر منتقل ہوا۔ لکیر بننے لگی۔ پھر کوئلے سے رنگ بھرے جانے لگے۔ اور اس کا احساس یہی ہے کہ اس کا یہ ایکشن شروع کرنے کی”وجہ” شعوری ذہن میں ٹپکنے والا آئیڈیا ہے۔ ہمارا مصور محض زومبی نہیں تھا۔

تیس ہزار سال بعد مہم جووٗں نے اس دیوار پر روشنی ڈالی اور وہ قدیم آرٹسٹ جو کب کا مر کر مٹی ہو چکا تھا، اس کا یہ آئیڈیا واپس ایک بار پھر زندہ ہو گیا۔ یہ آئیڈیا اس دیوار کو تکنے والے انسانوں کے نیورونز میں ہزاروں سال بعد ایک بار پھر جھلملا رہا تھا۔

(جاری ہے)

Advertisements
julia rana solicitors

سٹورٹ کافمین کی کتاب

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply