انگریز کےبے لوث غلام اور حقائق۔۔۔۔۔ یاسر ہاشمی

غلامی کی کئی اقسام ہیں، ان میں سے ایک ذہنی اور فکری غلامی ہے، ہمارے ہاں تواتر کے ساتھ فکری غلامی کی زہر فروشی کی جاتی ہے تاکہ ہم اپنے پرانے آقاوں اور انکے زر خرید ننگِ ملت غلاموں کی نئی نسل کی حکمرانی کو تسلیم کرتے رہیں۔ اپنوں کے خون کا سودا کرنے والے عسکری دلال ہوں، انگریزوں کے تلوے چاٹ کر جاگیریں بنانے والے زمیندار ہوں یا غریبوں کے خون چوسنے والے ساہو کار۔ ان سب کی نسل کا اس ملک پر ہنوز قبضہ ہے۔ اکتہر سالوں سے انگریز کا بنایا ہوا قانون اور تعلیمی نظام اس نسل کی طرح ہمارے ساتھ چمٹا ہوا ہے۔ انگریز ہمیں ۱۹۴۷ میں جسمانی آزادی تو دے گیا مگر نہ تو ہم نے فکری آزادی کے لیے جدوجہد کی نہ ہی میر جعفر کی اولاد اور اسکے حواریوں سے نجات پانے کے لیے کچھ کیا۔

شاید یہی وجہ ہے کہ آج اکہتر سالوں کے بعد بھی کچھ لوگ اپنے پرانے آقا کو یاد کرتے ہوئے رنجیدہ ہو جاتے ہیں اور قلم کی نوک پہ ہمیں باور کرانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں کہ انگریز کا دور بہترین تھا۔ یہ بابو انگریز کی انصاف پسندی، تعلیمی نظام، ریل کا نظام، نہری نظام اور جمہوریت کو تاریخ کا ایک درخشاں باب مانتے ہیں۔ بے شک قصور ہمارا اپنا ہے کہ انفرادی طور پر اور بحیثیت قوم ہم ہر سطح پر ناکام رہے ہیں۔ مگر اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ اپنی ناکامیوں کی آڑ میں ہم تاریخ کو ہی مسخ کر ڈالیں۔

ذیل میں کچھ تاریخی حقائق ہیں جو  ششی  تھرور کی کتاب انگلوریس ایمپائر، بی بی سی اور ڈاکٹر احید احسن کے تحقیقی مکالوں سے لئے گئے ہیں۔

۱۔نظریہ تقسیم و حکمرانی

انگریز کا اس خطے میں سب سے بڑا ظلم برصغیر کی صدیوں پُرانی وحدت کو  ختم کرنا ہے ، اس نے اپنی حکمرانی اور استحصال کو قائم رکھنے کے لیے مذہبی، معاشرتی، سیاسی اور طبقاتی تقسیم کا ایسا بیج بویا جو آج ایک تن آور درخت بن چکا ہے اور ہماری حکمران اشرافیہ اس شجرِ ممنوعہ سے بوقت ضرورت خوب فیض یاب ہوتی ہے اور پُرانے آقا کی ذہانت کے گن گاتی ہے۔

۲۔ برصغیر اور ہندوستانیوں کا استحصال

امریکی تاریخ دان میتھیو وائٹ نے ‘دا گریٹ بُک آف ہاریبل تھنگز’ کے نام سے ایک کتاب لکھی ہے جس میں انھوں نے تاریخ کی ایک سو بدترین سفاکیوں کا جائزہ پیش کیا ہے جن کے دوران سب سے زیادہ انسانی جانیں ضائع ہوئیں۔ اس کتاب میں تاریخ کی چوتھی بدترین سفاکی برطانوی دور میں ہندوستان میں آنے والے قحط ہیں جن میں وائٹ کے مطابق دو کروڑ 66 لاکھ ہندوستانیوں کی جانیں ضائع ہوئیں۔ اس تعداد میں وائٹ نے دوسری جنگِ عظیم کے دوران بنگال میں آنے والے قحط کو شمار نہیں کیا جس میں 30 سے 50 لاکھ کے قریب لوگ مارے گئے تھے۔

اگر اس قحط کو بھی شامل کر لیا جائے تو ایسٹ انڈیا کمپنی اور بعد میں برطانیہ کی براہِ راست حکومت کے دوران تین کروڑ کے قریب ہندوستانی قحط کے باعث جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔

ہندوستان کا شمار دنیا کے سب سے زرخیز خطوں میں ہوتا تھا اور اب بھی ہوتا ہے، پھر اتنے لوگ کیوں بھوکوں مر گئے؟

وائٹ نے ان قحطوں کی وجہ ‘تجارتی استحصال’ (commercial exploitation) قرار دی ہے۔

انڈیا کے سابق وزیرِ اعظم اور ماہرِ اقتصادیات من موہن سنگھ نے انگریزوں کے استحصال کے بارے میں تاریخی الفاظ کہیے۔

‘اس میں کوئی شک نہیں کہ سلطنتِ برطانیہ کے خلاف ہماری شکایات کی ٹھوس بنیاد موجود ہے۔۔۔ 1700 میں انڈیا تنِ تنہا دنیا کی 22.6 فی صد دولت پیدا کرتا تھا، جو تمام یورپ کے مجموعی حصے کے تقریباً برابر تھی۔ لیکن یہی حصہ 1952 میں گر کر صرف 3.8 فیصد رہ گیا۔ 20ویں صدی کے آغاز پر ‘تاجِ برطانیہ کا سب سے درخشاں ہیرا’ درحقیقت فی کس آمدنی کے حساب سے دنیا کا غریب ترین ملک بن گیا تھا۔’

اب اس سوال کی طرف آتے ہیں کہ انگریزوں کے دو سو سالہ استحصال نے ہندوستان کو کتنا نقصان پہنچایا۔

اس سلسلے میں مختلف لوگوں نے مختلف اندازے لگانے کی کوشش کی ہے۔ ان میں سے زیادہ قرینِ قیاس ماہرِ معاشیات اور صحافی منہاز مرچنٹ کی تحقیق ہے۔ ان کے مطابق 1757 سے لے کر 1947 تک انگریزوں کے ہاتھوں ہندوستان کو پہنچنے والے مالی دھچکے کی کل رقم 2015 کے زرمبادلہ کے حساب سے 30 کھرب ڈالر بنتی ہے۔

۳۔برصیغر میں جمہوریت اور انگریز

اس سے بڑا جھوٹ اور فریب اور کیا ہو گا کہ برصیغر میں جمہوریت انگریز کی دین ہے۔ 1920 کے آخر تک، منتخب کونسلوں پر بھارتی نمائندوں کو محدود اور انتخابی طور پر منتخب کیا گیا تھا کہ 250 ہندوستانیوں میں سے صرف ایک ہی ووٹ دینے کا حق تھا. تعلیم اور صحت کی طرح، ٹیکس، قانون اور حکم سمیت، اصل طاقت، بھارتی قانون سازوں کی طرف سے کسی بھی ووٹ کو منسوخ کرنے کا اختیار، صوبوں کے برطانوی گورنر کے پاس تھے۔. یہ ظلم اور شدید ظلم ہے ,200 سال تک لوگوں کو قیدمیں رکھنا اور پھر اس کے آخر میں دعوی کرنا کہ انگریزجمہوری ہیں .

۴۔ انگریز انصاف پسند تھا؟

انگریز بہت انصاف پسند اور رحمدل تھے۔یہ بھی جھوٹ ہے۔ایک انگریز نے اپنے بھارتی ملازم کو ہلاک کر دیا، اس کے لیے سزا صرف چھ ماہ کے جیل کا وقت مقرر کی گئی اور ایک معمولی جرمانے 100 روپے کے بعد اسے چھوڑ دیا گیا۔جبکہ ایک ہندوستانی جس نے ایک انگریز عورت  کی عصمت دری کرنے کی کوشش کی تھی، جس میں 20 سال قید کی سزا تھی۔

برطانوی حکومت کے دو صدیوں میں، ہندوستانیوں کے قتل کے الزام میں صرف تین مقدمات مل سکتے ہیں، جبکہ برطانیہ کے ہاتھوں لاکھوں افراد کی ہلاکت ہوگئی. برطانوی فوج میں ایک ہندوستانی کی موت ہمیشہ ایک حادثہ قرار دی جاتی تھی۔

۵۔ ریل نیٹ ورک

برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی نے صرف اپنے فائدے کے لیے ریلوے کی تعمیر شروع کی تھی۔گورنر جنرل ہارڈنگ نے 1843 میں دلیل دی کہ ریل ویز \تجارت، حکومت اور ملک کے فوجی کنٹرول پر فائدہ مند ہوگا\.,انگریزوں کے تصور اور تعمیر میں، بھارتی ریلوے ایک نوآبادیاتی قبضے کا حصہ تھے ,برطانوی حصص داروں نے ریلوے میں سرمایہ کاری کے لیے پیسے کی رقم صرف کی، جس پہ انہیں برطانوی حکومت کی طرف سے دوہرے منافعے کی نوید سنائی گئی تھی اور یہ ساری رقم ہندوستان کی لوٹ مار اور ہندوستان کی عوام پہ ڈالے جانے والے بھاری لگان یعنی ٹیکس سے ادا کی گئی ۔ریلوے کا مقصد برطانوی فوج کی نقل و حمل، ہندوستان سے لوٹے گئے کوئلے، لوہے اور کپاس کی آسانی سے بندرگاہوں اور پھر آگے برطانیہ کی طرف ترسیل تھا۔لوگوں کی نقل و حمل بعد کی بات تھی اور وہ بھی اس طرح کہ ہندوستانی ریل کے سب سے گھٹیا طبقے میں سفر کر سکتے تھے۔ ہندوستانیوں کو ریلوے میں کوئی بڑی ملازمت نہیں مل سکتی تھی جب تک وہ انگریزوں کے بہت بڑے خوشامدی نہ ہوں۔

انگریزوں کا موجودہ نقطہ نظر یہ تھا کہ ریلوے کو خاص طور پر سرمایہ کاری کی حفاظت کے لیےیورپ کے ذریعہ  خصوصی طور پر چلانا پڑے گا. ، لیکن 20 ویں صدی کے آغاز میں پالیسی بے بنیاد سطح تک بڑھ گئی تھی کہ سگنل میں اور جو لوگ بھاپ ٹرینوں کو چلاتے اور بحال کرتے تھے، ریلوے بورڈ کے ڈائریکٹر ٹکٹ جمع کرنے والے تمام اہم ملازمین انگریز تھے. جن کی تنخواہ اور فوائد بھی یورپی، نہ کہ ہندوستانی سطح کے اور بڑے پیمانے پہ تھے، ٹرینوں کو برقرار رکھنے کے لئے 1862 میں بنگال میں جمال پور میں اور راجپوتانہ کے اجمیر ریلوے ورکشاپیں تعمیر کی گئی، لیکن ان کے ہندوستانی میکانکس اتنے قابل اطمینان بن گئے کہ 1878 ء میں انہوں نے اپنی گاڑیوں کو ڈیزائن اور تعمیر کرنے کا آغاز کیا. ,ان کی کامیابی نے برطانویوں کو تیزی سے دھمکی دی، کیونکہ ہندوستانی انجنیر صرف اچھے تھے اور ان کے بنائے گئے انجن برطانوی انجنوں سے بہت سستے تھے۔ انگریز نہیں چاہتے تھے کہ ہندوستانی ترقی کریں یا خود کفیل ہوں۔ لہذا 1912ء میں برطانویوں نے ایک قانون منظور کیا اور ہندوستانی ریلوے انجنوں کے بنائے جانے پہ پابندی لگا دی گئی۔

۶۔ نہری نظام

کیا انگریزوں نے ہندوستان میں دنیا کا سب سے بڑا نہری نظام قائم کرکے اس علاقے پہ بہت بڑا احسان کیا ۔خود کچھ انگریز مورخین کے مطابق یہ نہری نظام اس لیے تعمیر کیا گیا تھا کہ برصغیر کی زیادہ سے زیادہ زرعی دولت لوٹ کر برطانیہ منتقل کی جا سکے۔عام ہندوستانی اس نظام کے ہر طرح کے فائدوں سے محروم تھے۔1600 ء میں، جب ایسٹ انڈیا کمپنی قائم ہوئی تو، برطانیہ دنیا کی جی ڈی پی کا صرف 1.8٪ پیدا کررہا تھا، جبکہ برصغیر کچھ 23سے27% یعنی دنیا میں سب سے زیادہ پیدا کر رہا تھا. 1940ء تک، راج کے تقریباً  دو صدیوں کے بعد، برطانیہ نے دنیا بھر میں جی ڈی ڈی کا تقریبا 10 فیصد حصہ لیا، جب کہ برصغیر انگریزوں کی طرف سے ان دو صدیوں کی بے تحاشا لوٹ مار کی وجہ سے دنیا کا غریب ترین خطہ بن چکا تھا۔ 90% افراد غربت کی نچلی لکیر پہ زندگی گزار رہے تھے۔برصغیر میں اوسط عمر صرف 32 سال تھی۔یہ کونسا دنیا کا سب سے بڑا نہری نظام اور زرعی ترقی تھی جس کے بعد بھی برصغیر جہالت، غربت اور بیماریوں کا شکار تھا۔

۷۔ صنعتی ترقی

سترہویں صدی میں، برصغیر ایک نسبتاً  شہری اور تجارتی ملک تھا جس کے نتیجے میں برآمد کی تجارت کرتاتھا، جس میں زیادہ تر کپاس کی ٹیکسٹائل پر مشتمل تھا، بلکہ ریشم، مصالحے اور چاول بھی شامل تھے,برصغیر کا کپاس ٹیکسٹائل کی دنیا کا مرکزی پروڈیوسر تھا اور یہ وہ ایسٹ انڈیا کمپنی کے ذریعہ برطانیہ کے ساتھ ساتھ بہت سے یورپی ممالک کو برآمد بھی کیا کرتاتھا,اس کے باوجود 18 ویں صدی کی ابتدا کے دوران برطانوی لوٹ مار کے نتیجے میں برطانوی کپاس کی صنعت نے تکنیکی انقلاب کی راہنمائی کی تھی، اور ہندوستانی صنعت کو مستقل طور پر روک دیا۔ یہاں تک کہ 1772ء تک برصغیر کے مقابلے میں دنیا کا کوئی ملک کپاس کی مصنوعات پیدا نہیں کر رہا تھا لیکن پھر برطانوی لوٹ مار کے نتیجے میں ایک نہ رکنے والے معاشی زوال کا سلسلہ شروع ہوا۔ کئی معاشی مؤرخ جیسا کہ پروانن پارتیسرتی کے مطابق18 ویں صدی میں بنگال  اور میسور میں مزدور کی روزانہ کی آمدنی اس وقت کے برطانیہ اور یورپ سے زیادہ تھی۔برطانوی مزدور بنگال اور برصغیر کے مزدوروں کی نسبت کم تنخواہ میں زیادہ کام کرتے تھے۔اقتصادی مورخوں کے مطابق آئینولیل والیرسین، عرفان حبیب، پیسیفیل سپیئر اور اشوک دیسی کے مطابق مغل دور کا سترہویں صدی عیسوی کا برصغیر زرعی طور پہ بیسویں صدی کے برطانوی دور اور برطانیہ سے زیادہ ترقی یافتہ تھا۔

انگریزوں کی آمد سے قبل ہندوستانی لوہا اپنے معیار کی بدولت دنیا میں مشہور تھا۔ انگریزوں نے لوہا بنانے کی مقامی تکنیک سیکھی اور اٹھارویں صدی کے اختتام تک مقامی صنعت زبردستی بند کروا دی۔ 1912ء کے  دوران ٹاٹا نے بمشکل ایک سٹیل مل قائم کی تو اس کے راستے میں روڑے اٹکائے گئے۔

۸۔ تعلیمی ترقی

جب برطانوی برصغیر میں آئے تو یہاں شرح خواندگی 90% تھی لیکن جب گئے تو شرح خواندگی صرف 16% تھی۔انگریزوں نے ہندوستان کی عوام کو جان بوجھ کر جاہل رکھا اور ہندوستانیوں میں تعلیم صرف ایک خاص طبقے تک محدود رکھی تاکہ اس طبقے کو ہندوستان کی باقی عوام کو کنٹرول میں رکھنے کے لیے استعمال کیا جا سکے۔اس عمل نے طبقاتی تعلیم اور سیاسی جاگیرداری کو فروغ دیا جن کی نسل آج بھی پاکستان کے سیاہ و سفید کی مالک ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

بجائے اسکے ہم اس تاریخی لوٹ مار، ظلم و ستم اور بدترین استحصال پر برطانیہ سے ہرجانے اور معافی کا مطالبہ کریں ، نام نہاد دانشور اور لکھاری تاریخ کو مسخ کر کے ہمیں مزید  ذہنی غلامی کی طرف دھکیل رہے ہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”انگریز کےبے لوث غلام اور حقائق۔۔۔۔۔ یاسر ہاشمی

  1. شرح خواندگی کے حوالے سے پیش کی گئے اعداد و شمار کہاں سے لئے گئے حوالہ مل سکتا ہے؟

Leave a Reply