خاموش نعرے۔۔خنساء سعید

گرمیوں کے طویل اور تھکا دینے والے دن تھے، وہ آج  سویرے ہی گھر سے نکل پڑا کیونکہ آج اُس کو اپنے کام نپٹا کر دوستوں کی طرف سے دی گئی دعوت پر جانا تھا۔
اس وقت صبح کے آٹھ بج رہے تھے۔ سڑک پر گاڑیوں کا تانتا بندھا ہوا تھا۔ فضا میں ہر طرف گاڑیوں کا بے ہنگم شور گونج رہا تھا۔ موٹر سائیکلیں،گاڑیاں ایک دوسرے کے پیچھے ایسے رینگ رہی تھیں جیسے کوئی زنجیر کا سرا پکڑ کر گھسیٹ رہا ہو۔ہر شخص جلدی میں تھا ہر کوئی بھاگ رہا تھا جیسے کوئی ریس لگی ہو ،جسے ہر کوئی جیتنا چاہتا ہو،بچے کندھوں پر بھاری بھر کم بستوں کا بوجھ اُٹھائے سوجے ہوئے چہروں کے ساتھ اپنی اپنی درس گاہوں کی جانب رواں دواں تھے۔
وہ ہر گزرنے والی ٹیکسی، آٹو رکشہ کو ہاتھ ہلا ہلا کر رکنے کا اشارہ کرتا، مگر وہ تیزی سے فراٹے بھرتے پاس سے گزر جاتے دھوئیں، گرمی، حبس سے اُس کا دم گھٹنے لگا،اسی اثنا میں وہ چلتا چلتا اُس جگہ پہنچا جہاں ہمیشہ چار پانچ رکشے کھڑے سواریوں کا انتظار کر رہے ہوتے،وہاں پہنچا تو سامنے اُسے ایک دنگل دیکھنے کو ملا دو رکشے والے آپس میں جھگڑ رہے تھے دونوں نے ایک دوسرے کا گریبان پکڑا ہوا تھا۔
ایک کہتا،” تیرا لیڈر چور، بھکاری، امریکی غلام، لیٹرا، مار ڈالے گا ہم غریبوں کو.”
تو دوسرا کہتا، “تیرا لیڈر کون سا فرشتہ ہے، ایک نمبر کا جھوٹا، فراڈیا، نیم پاگل ہے. ملک کے ٹکڑے ٹکڑے کر دینا چاہتا ہے، ملک پر ایٹم بم گرانا چاہتا ہے۔”
اتنی دیر میں تیسرا ڈرائیور جو شکل سے ایک اچھا خاصا سمجھدار آدمی لگ رہا تھا کہنے لگا،
بھائیو
“چھوڑو اس لڑائی کو”
اب اس جھگڑے میں مزید کیا رکھا ہے؟؟
ہم کسی کے سپورٹر نہیں، ہم تو روٹی کے سپورٹر ہیں ،سب سے بڑے سپورٹر ،ہر روز صبح روٹی کی خاطر گھر سے نکلتے ہیں ،تا کہ ہمارے بچے رات کو بھوکے نہ سوئیں ،ہمارے گھروں میں راشن نہیں، ہمارے بٹوے خالی ہیں ،بھوک ہمارے گھروں میں پابجولاں رقص کرتی ہے
اپنی تو سانسوں کا تانا بانا روٹی سے جڑا ہوا ہے
اپنا تو سب کچھ روٹی ہے۔
یہ سن کر دونوں نے ایک دوسرے کا گریبان چھوڑا اور کچھ سوچنے کے بعد اپنے اپنے رکشوں میں سوار ہو گئے
وہ جو کافی دیر سے کھڑا اُن کی باتیں بڑے انہماک سے سن رہا تھا چپ چاپ ایک رکشے میں سوار ہو گیا
جی صاحب کہاں جانا ہے آپ کو؟؟
مجھے چوبرجی چوک تک لے جاؤ، بتاؤ کرایہ کتنا لو گے؟؟
چوبرجی کا پانچ  سو کرایہ لیتے ہیں آجکل آپ کو پتہ ہی ہے پٹرول کی قیمتیں،
کیا پانچ سو روپے!
یہ سن کر اُس کی آنکھیں حیرت سے پوری کی پوری کھل گئیں ،بس صاحب جی ہماری بھی روزی روٹی کا مسئلہ ہے۔
چلو پھر یوں کرو کہ سواریوں کے ساتھ لے چلو، مگر ذرا جلدی کرنا مجھے آج جلدی پہنچنا ہے۔
جی صاحب جی ،اب وہ ہر موڑ پر رُک کر آوازیں لگاتا مگر کوئی سواری آج نہیں مل رہی تھی،
ارے بھئی جلدی کرو،مجھے دیر ہو رہی ہے۔ایک تو جان لیوا گرمی ہے اوپر سے تمہارا یہ ہر جگہ رُکنا۔۔
صاحب جی میرا کیا قصور کوئی سواری ملے گی تو چلوں گا،اتنے میں دو سواریاں آکر بیٹھیں تو رکشہ چلنے لگا۔
رکشہ بس چوک سے دس منٹ دُور ہوتا ہے کہ پھر رک جاتا ہے
ارے بھائی اب کیا مسئلہ ہو گیا ہے؟؟؟
بھائی صاحب! سامنے جلوس نکلا ہوا ہے لوگ نعرے بازی کر رہے ہیں ،آپ کو یہیں اُترنا ہو گا
وہ پہلے ہی گرمی اور تاخیر سے تلملا رہا تھا جلدی سے اُترا اور چلنے لگا۔
وہ رکشہ سے اُتر کر ہجوم کی جانب بڑھتا ہے تو دیکھتا ہے لوگوں نے ہاتھ میں بجلی گیس کے بل پکڑے ہوئے ہیں ،حکمرانوں کے پتلے بنا کر لوگ اُن کو جوتے مار رہے ہیں ہر طرف ایک ہی شور ہے۔
یہ مہنگائی ہمیں مار ڈالے گی ،ہم لوگ بھوک سے مر جائیں گے
وہ ان نعروں کو سنتا ہے، سمجھتا ہے،محسوس کرتا ہے،
مگر پھر وہ اپنے ذہن سے سب کچھ جھٹک کر آگے بڑھتا ہے
وہ ہجوم سے نکل کر جلدی جلدی آفس پہنچتا ہے ،کیونکہ آج اُس کو شہر کے سب سے بڑے ہوٹل میں اُس کے دوستوں نے  ایک دعوت پر مدعو کر رکھا ہے،اس لیے وہ ہر کام جلدی جلدی کرتا ہے۔

اُس نے اپنے سارے کام نپٹائے اور ہوٹل کی طرف روانہ ہو گیا ،راستے مین پھر اُس کو وہ ہی ہجوم نظر آیا ،اب کہ وہ ہجوم تھورا مشتعل اور دُکھی دکھائی دے رہا تھا ،ہجوم  کی طرف سے مختلف نعرے بلند ہو کر فضاؤں میں جا کر ساکت ہو رہے تھے

اے ظالمو جابرو

ہم پر کچھ تو رحم کرو

اس شدید گرمی میں بیس بیس گھنٹے کی لوڈشیڈنگ ہم لوگ سہیں ،گرمی میں ہم لوگ تڑپیں اور ہزاروں کا بل بھی ہم لوگ بھریں  ،کیوں ؟؟آخر کیوں ؟؟

ہجوم میں کچھ لوگ باقاعدہ رو رہے ہوتے ہیں۔

اے وقت کے فرعونو

جن پیسوں میں ہم پہلے دال روٹی کھا لیتے تھے اب اُن پیسوں کو ہاتھ میں پکڑ کر سوچتے ہیں کہ کیا کھائیں ان پیسوں سے؟؟

آٹا مہنگا، چینی مہنگی، گھی مہنگا، آئل کی قیمتیں آسمان کو چھو رہی ہیں۔

تم مار ڈالو گے ،ہمیں بھوک  سے ،مہنگائی سے

انصاف کرو

انصاف کرو

مہنگائی کم کرو

ہمیں ہمارے جینے کا حق دو

بھوک سے ہم کو مت مارو

اے وقت کے فرعونو،ہم پر رحم کرو

وہ شدید گرمی میں دھوپ میں کھڑے ہو کر احتجاج کرنے والے لوگوں کے نعرے سنتا ہے تو اُس کا سر چکرانے لگتا ہے وہ جلدی سے ہوٹل پہنچتا ہے،ہوٹل میں ابھی وہ قدم رکھتا ہی ہے کہ خوشبو میں رچی بسی اے سی کی ٹھنڈی یخ بستہ ہوا اُس کو خوش آمدید کہتی ہے۔

اُس کو یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے وہ جہنم سے نکال کر جنت میں پھینک دیا گیا ہو

وہ طرح طرح کے لذیذ کھانوں سے سجے میز پر جا کر بیٹھ جاتا ہے، جہاں اُس کے دوست پہلے سے ہی باہر جگہ جگہ نکالے گئے جلوسوں پر  تبصرے کررہے  ہوتے ہیں

“عجیب پاگل، فضول لوگ ہیں یہ سڑکیں بند کی ہوئی ہیں ،جائیں جا کر کام کاج کریں اپنا اپنا،

اب موجودہ حکومت بیچاری کیا کرے، سابقہ حکومتوں کے قرضے اُتارے یا عوام کی دال روٹی کی فکر کرے،موجودہ حکومت اتنے کام تو کر رہی ہے سڑکیں بنوا رہی ہے پل تعمیر ہو رہے ہیں حکومت نے غریبوں کو ریلیف بھی دینا شروع کر دیا ہے اور تو اور اب تو غیر ملکی امداد بھی ملنا شروع ہو چکی ہے

سب کچھ ایک ہی رات میں تو ٹھیک نہیں ہو سکتا نا۔

حکومتوں کے اپنے کچھ مسئلے ہوتے ہیں، حکومتی مسائل کی باریکیوں کو یہ جاہل ان پڑھ طبقہ کیا سمجھے گا

اُس کے دوست اس طرح کی اور بھی بہت سی باتیں کرتے ہیں ،مگر اُس کے کانوں میں وہ ہی نعرے گونج رہے ہوتے ہیں

ہم اپنے بچوں کا پیٹ کہاں سے پالیں؟

اُن کو پڑھائیں کیسے؟

کاپیوں کتابوں کی قیمتیں بڑھ گئی ہیں، اسکولوں کی فیسیں بڑھ گئی ہیں، غریب بیمار ہوجائے تو دوائی کہاں سے لائے،دوائیاں اتنی مہنگی ہو گئی ہیں۔

اے ظالمو اے جابرو

رحم کرو رحم کرو

اُسے لگا اُس کی جگہ یہاں نہیں ہے اُس کو بھی باہر ہجوم میں ہونا چاہیے،باہر اُن لوگوں کے ساتھ مل کر نعرے لگانے چاہئیں اپنےحق کے لیے اُس کو بھی آواز بلند کرنی چاہیے۔

Advertisements
julia rana solicitors

مگر باہر شدید گرمی، حبس، اور چیتھڑوں میں لپٹے جسموں سے اُٹھتی پسینے کی بد بو کا خیال آتے ہی ہوٹل میں   اے سی کی یخ بستہ  ہوا لمبے لمبے سانس لے کر اپنے اندر اُتارتا ہے، اپنے اندر سر اُٹھانے والے نعروں کو خاموش کروا کر  اپنے منہ میں لذیذ کھانوں کے لقمے بھر بھر کر ڈا لتا ہے ،یہ ہی لقمے اُس کو احتجاج سے روکے رکھتے ہیں ۔۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply