بدن (42) ۔ انتقالِ خون/وہاراامباکر

انتقالِ خون سے ہر سال بہت سی زندگیاں بچتی ہیں۔ خون کو سٹور کرنا مہنگا کام ہے۔ خون زندہ ٹشو ہے۔ ویسے ہی جیسا دل یا پھیپھڑا یا کوئی اور عضو۔ جیسے ہی اس کو جسم سے نکالا جاتا ہے، یہ خراب ہونے لگتا ہے اور یہ مسئلہ ہے۔
روایتی طور پر، ڈاکٹروں کا یہ طریقہ رہا کہ اگر خون کسی وجہ سے ضائع ہو جائے تو اس کو لگا کر واپس اسی سطح پر لے آیا جاتا تھا۔اگر تین لٹر خون ضائع ہوا ہے تو تین لٹر خون لگا دیا جاتا تھا۔ لیکن پھر ایڈز اور ہیپاٹائٹس سی کی آمد ہوئی۔ خون کے عطیات کے بارے میں زیادہ احتیاط برتی جانے لگی اور انتقالِ خون کم ہونے گا۔ اور حیرت انگیز طور پر یہ بات پتا لگی کہ بہت بار مریض کو خون نہ لگانا بہتر نتائج دیتا تھا۔
کئی کیس ایسے تھے جہاں پر بالکل بھی خون نہ لگایا جائے تو یہ انتقالِ خون سے بہتر تھا۔ یہ دریافت ہوا کہ نیا خون موجودہ خون کی کارکردگی پر اثر ڈالتا ہے۔ اور یہاں پر نائٹرک آکسائیڈ کا کام ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم عام طور پر سمجھتے ہیں کہ خون تمام جسم میں برابر مقدار میں ہے۔ بازو میں جتنا خون ہو گا، اتنا ہی رہے گا۔ لیکن ایسا نہیں۔
اگر آپ بیٹھے ہوئے ہیں تو ٹانگوں کو خون کی اتنی ضرورت نہیں کیونکہ اس کے ٹشوز کو آکسیجن کی اتنی ضرورت نہیں۔ لیکن اگر آپ بھاگ رہے ہیں تو آپ کو یہاں پر زیادہ ضرورت ہے۔ آپ کے سرخ خون کے خلیات نائیٹرک آکسائیڈ کی مدد سے سگنل بھیجتے ہیں کہ لمحہ بہ لمحہ کہاں پر ضروریات کس طرح بدل رہی ہیں۔ نیا خون اس سگنلنگ کے نظام کو کنفیوز کرتا ہے جس کی وجہ سے یہ فنکشن متاثر ہوتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ضرورت کے وقت اور ٹھیک طریقے سے کیا گیا انتقالِ خون بہت سی زندگیاں بچاتا ہے لیکن بہت سی اور بچائی جا سکتی ہیں۔
ایک اندازے کے مطابق دنیا میں بیس لاکھ سے زائد لوگوں کی موت زیادہ خون بہہ جانے سے ہوتی ہے۔ ان میں حادثات یا جنگوں میں ہونے والے زخمی شامل ہیں۔ ان میں سے بہت سی زندگیاں بچ سکتی ہیں اگر انتقالِ خون فوری اور محفوظ طریقے سے کیا جا سکے۔ سرد جگہ پر ٹھیک سٹور کئے گئے تازہ خون کی فوری فراہمی آسان نہیں اور یہاں پر ہماری خواہش ہے کہ ایک پراڈکٹ بنائی جا سکے جو دنیا میں بڑی تعداد میں زندگیاں بچا سکتی ہے۔
یہ خواہش مصنوعی خون بنانے کی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تھیوری میں اس کام کو مشکل نہیں ہونا چاہیے۔ کیونکہ مصنوعی خون کو قدرتی خون والے سارے کام کرنے کی ضرورت نہیں۔ اس کو صرف ہیموگلوبن اٹھانے کی ضرورت ہے۔
لیکن عملی طور پر یہ اتنا سادہ نہیں رہا۔ اس پر کام کرنے والے ڈاکٹر ایلن کہتے ہیں کہ خون کے خلیات آکسجن کے لئے مقناطیس کی طرح ہیں۔ اس مقناطیس کو پھیپھڑے سے ایک مالیکول چپکانا ہے اور منزل تک لے جانا ہے۔ ایسا کرنے کے لئے اسے یہ پتا ہونا چاہئے کہ آکسیجن کے مالیکیول کو کہاں لے جانا ہے اور کہاں جا کر اسے چھوڑ دینا ہے۔ اور اسے راستے میں گرانا نہیں۔ اور یہ مصنوعی خون کا مسئلہ ہے۔ بہترین مصنوعی خون بھی کبھی کبھار آکسیجن کے کسی مالیکیول کو گرا دیتا ہے۔ اس کا نتیجہ خون میں آئرن آ جانا ہے۔ اور یہ زہریلا ہے۔ چونکہ دورانِ خون کا نظام بہت مصروف ہے، اس لئے کبھی کبھار کا ایسا ہونا بھی جلد زہر کی سطح میں اضافہ کر دیتا ہے۔ اس لئے ڈلیوری کے نظام کو پرفیکٹ ہونا ضروری ہے۔ اور اس حوالے سے قدرتی نظام پرفیکٹ ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
پچاس سال سے محققین مصنوعی خون بنانے کی کوششیں کر رہے ہیں اور اس پر دسیوں لاکھ ڈالر خرچ کرنے کے باوجود ابھی اچھی کامیابی نہیں ہو سکی۔ 1990 کی دہائی میں کئی مصنوعات ٹرائل تک پہنچی تھیں۔ لیکن پھر ٹرائلز میں معلوم ہوا کہ اس میں حصہ لینے والوں میں ہارٹ اٹیک اور سٹروک کا خطرہ بہت بڑھ جاتا ہے۔ 2006 میں ایف ڈی اے نے خراب نتائج کی وجہ سے تمام ٹرائل بند کر دئے۔ اس کے بعد مصنوعی خون بنانے کی کوشش کئی اداروں کی طرف سے ترک کی جا چکی ہے۔ اس وقت اس بات کی حوصلہ افزائی کی جا رہی ہے کہ انتقالِ خون کم کیا جائے۔ سٹینفورڈ ہسپتال نے اس میں حالیہ برسوں میں ایک چوتھائی کمی کر لی ہے۔ اس سے نکلنے والے نتائج اچھے رہے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نینوٹیکنالوجی میں ہونے والی بہتری کے سبب مصنوعی خون کے پراجیکٹ میں بھی پیشرفت ہوئی ہے۔ ڈاکٹر ایلن کی ٹیم نے ایک سسٹم بنایا ہے جس میں ہیموگلوبن پولیمر کے خول کے اندر ہے۔ اس خول کی شکل سرخ خلیات جیسی ہی ہے لیکن یہ سائز میں پچاس گنا چھوٹے ہیں۔ اس پراڈکٹ کی بہترین بات یہ ہے کہ اس کو فریز کر کے دو سال تک محفوظ کیا جا سکتا ہے۔
ڈاکٹر ایلن کا خیال ہے کہ وہ انسانوں میں تجربات سے تین سال دور ہیں اور اگلے دس سال میں کلینکل ٹرائل تک پہنچ سکتے ہیں۔
اور اس دوران ۔۔ ہمارے لئے یہ ایک عاجزی پیدا کرنے والی سوچ ہے کہ وہ شے جو ایک نوزائیدہ بچے کا بدن ایک سیکنڈ میں دس لاکھ بار بنا لیتا ہے ۔۔۔ ہماری ٹیکنالوجی ابھی اس کو کرنے سے قاصر ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔
اور ہمارے لئے کرنے کا کام خون کے عطیات باقاعدگی سے دینا ہے۔ زندگی کا یہ مائع ہمارے جسموں کے سوا فی الحال کہیں اور نہیں بنتا۔ اور یہ زندگیاں بچانے کے کام آتا ہے۔ اور اس میں دلچسپ بات یہ ہے کہ نہ صرف دوسروں کی بلکہ خود اپنی بھی۔ اس کا باقاعدہ عطیہ ہارٹ اٹیک کا امکان کم کر دیتا ہے۔
(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply