انڈیا میں شدت پکڑتا اسلامو فوبیا۔۔حامد خبیری

حال ہی میں وزیراعظم نریندرا مودی کی سربراہی میں ہندوستان کی قوم پرست انتہاپسند جماعت بھارتیا جنتا پارٹی کے دو اعلی سطحی رہنماوں نے رسول اکرم حضرت محمد مصطفی ص کی شان میں گستاخانہ بیانات دیے ہیں جن پر عالمی سطح پر شدید ردعمل سامنے آیا ہے۔ اگرچہ بھارتیا جنتا پارٹی نے ان دونوں رہنماوں کو پارٹی سے نکال دیا ہے تاہم اب تک سفارتی میدان میں اچھا خاصہ پایا جاتا ہے۔ قطر کے دارالحکومت دوحہ میں بھارتی سفارتخانے نے ایک بیانیہ جاری کیا ہے جس میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ یہ بیانات ان سیاسی رہنماوں کی ذاتی رائے پر مشتمل تھا اور ان کا حکومت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ بھارتیا جنتا پارٹی نے بھی اپنے بیانیے میں مذہبی شخصیات کی توہین کی مذمت کی ہے۔ لیکن نریندرا مودی جب سے برسراقتدار آئے ہیں اسلاموفوبیا کی لہر شدت اختیار کر گئی ہے۔

اسلاموفوبیا، ہندوستان میں ہمیشہ سے قوم پرست ہندو سیاسی جماعتوں کی ایک اہم خصوصیت رہی ہے۔ 1925ء میں بھارت میں ہندووں کی قوم پرست مسلح تنظیم آر ایس ایس کی بنیاد رکھی گئی۔ اس تنظیم کا نصب العین بھارت کو ایک ہندو سرزمین میں تبدیل کرنا ہے۔ آر ایس ایس کے بانی اور پہلے سربراہ بلبرام ہجوار نے اعلان کیا تھا کہ ہندوستان کی بنیاد ہندو ثقافت پر استوار ہے لہذا اگر ہم ہندوستان کی حفاظت کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں ہندو ثقافت کو مضبوط بنانا ہو گا۔ اس قوم پرست مسلح تنظیم کے رہنما اپنے نظریات کے مخالفین خاص طور پر مسلمانوں کو “متکبر اور گستاخ” قرار دیتے ہیں۔ اسی بنیاد پر 1929ء میں آر ایس ایس کے رہنماوں نے مسلمانوں کو ہندوستان کی تہذیب سے اجنبی قرار دے دیا۔ انہوں نے اعلان کیا کہ اسلام نے ایک ایسی سرزمین میں جنم لیا ہے جو خشک اور بیابانی تھی لہذا اس کا بھارت سے کوئی تعلق نہیں ہے
ء میں آر ایس ایس کا سیاسی ونگ تشکیل دیا گیا جس کا نام بھارتیا جناسنگ رکھا گیا اور 1977ء میں ایک اور سیاسی ونگ جنتا کے نام سے سامنے آیا۔ بعد میں ان دونوں سیاسی دھڑوں کو ملا کر بھارتیا جنتا پارٹی تشکیل دی گئی۔ بھارتیا جنتا پارٹی اپنی انتہاپسند بنیادوں کی وجہ سے ہمیشہ اسلاموفوبیا کی حامی رہی ہے اور الیکشن کے دنوں میں اس کا زیادہ پرچار کرتی دکھائی دیتی ہے۔ یہ سیاسی جماعت ہمیشہ سے سیکولرازم پر مبنی نظریات کی مذمت کرتی آئی ہے اور انتہاپسندانہ نظریات کی حامل ہے۔ بھارت کے اندر اور دنیا کے دیگر ملکوں میں ہندو قوم پرست نظریات کی ترویج میں وشوا ہندو پریشاد یا وی ایچ پی نے بہت اہم کردار ادا کیا ہے۔ یہ ایک بین الاقوامی ہندو کونسل ہے جس کی بنیاد 1964ء میں رکھی گئی تھی۔

وشوا ہندو پریشاد نے گائے راکشا (گائے کی حفاظت)، عیسائی چرچ، اسلامی دہشت گردی اور بنگلہ دیشی مسلمانوں کے دین کو تبدیل کر کے ہندو بنانے جیسے نعرے لگائے ہیں۔ 1992ء میں بین الاقوامی ہندو کونسل سے وابستہ ایک گروہ نے بھارتیا جنتا پارٹی اور دیگر انتہاپسند ہندو گروہوں کے تعاون سے مشہور بابری مسجد مسمار کر ڈالی تھی۔ یاد رہے یہ مسجد سولہویں صدی عیسوی میں معروف مغل بادشاہ ظہیرالدین بابر نے تعمیر کروائی تھی۔ قوم پرست ہندووں کا کہنا تھا کہ ظہیرالدین بابر نے ایک مندر گرا کر اس کی جگہ یہ مسجد تعمیر کی تھی اور یہ مندر ہندووں کے دیوتا لارڈ راما کی جائے پیدائش تھا۔ موجودہ بھارتی وزیراعظم نریندرا مودی، سیاسی میدان میں سرگرم ہونے سے پہلے آر ایس ایس کے فعال رکن رہے ہیں۔ 1985ء میں انہوں نے بھارتیا جنتا پارٹی کی رکنیت اختیار کی تھی۔

2014ء میں نریندرا مودی کے وزیراعظم بننے کے بعد بھارت میں اسلاموفوبیا ریاستی پالیسی کی شکل اختیار کر گئی۔ ان کا حقیقی چہرہ اس وقت زیادہ کھل کر سامنے آیا جب انہوں نے 2019ء میں ملکی آئین سے شق نمبر 370 اور 35 A کو ختم کر دیا جن کی رو سے کشمیر کو ایک خصوصی حیثیت کا حامل خطہ قرار دیا گیا تھا اور وہاں موجود ہندو مہاجرین زمین کا مالک نہیں بن سکتے تھے۔ یوں انہوں نے قوم پرست ہندووں کی ایک دیرینہ آرزو پوری کر دی۔ اسی طرح 2019ء میں ہی مودی حکومت نے نیا شہری قانون منظور کیا جس کی رو سے پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان سے غیر مسلم مہاجرین کو تو شہریت عطا کرنے میں سہولت فراہم کی گئی تھی لیکن انہی ممالک سے مسلمان مہاجرین کو شہریت دینے سے منع کر دیا گیا تھا۔

مودی حکومت کی جانب سے اسلام اور مسلمان دشمنی پر مبنی یہ پالیسیاں اب بھی زور و شور سے جاری ہیں۔ لہذا اس پس منظر میں بھارتیا جنتا پارٹی کے اعلی سطحی دو رہنماوں کی جانب سے پیغمبر اکرم ص کی شان میں گستاخی محض اتفاق محسوس نہیں ہوتا۔ بھارتی حکومت نے اب تک ملک کے اندر پائی جانے والی اس شدید اسلاموفوبیا پر مبنی فضا کے باوجود بہت مہارت سے اسلامی ممالک، خاص طور پر خلیجی ریاستوں سے وسیع اقتصادی تعلقات استوار کر رکھے ہیں۔ لیکن اب اسے یہ تعلقات خطرے میں پڑتے محسوس ہو رہے ہیں جس کے باعث بھارتیا جنتا پارٹی کے تمام رہنماوں کو مذہب کے بارے میں اظہار خیال کرتے ہوئے انتہائی محتاط رہنے کا حکم دیا گیا ہے۔ لیکن اس کا مقصد صرف سفارتی سطح پر اسلامی ممالک سے تعلقات بہتر رکھنا ہے لہذا ملک کے اندر مسلمانوں سے شدید بدسلوکی ختم ہونے کی امید دکھائی نہیں دے رہی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

بشکریہ اسلام ٹائمز

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply