کینسر (14) ۔ ہالسٹیڈ کا نشتر/وہارا امباکر

ولیم ہالسٹیڈ نے جب سرجری شروع کی تو یہ ایک الگ ہی فیلڈ تھا۔ سینگی یا پچھنا لگوانا، رگ زنی، فصد، جونک لگوانا ۔۔۔ لندن میں یہ کام کرنے والوں کی تنظیم “کمپنی آف باربر سرجن” تھی۔ حجام اور جراح ایک ہی پیشہ سمجھا جاتا تھا۔ کئی سرجیکل پروسیجر حجاموں سے ہی خاص سمجھے جاتے تھے اور حجامہ کہلاتے تھے۔ انیسویں صدی میں وقت کے ساتھ بالوں کی تراش خراش کا پیشہ الگ ہو گیا، جبکہ جسم کی تراش خراش کا الگ۔ (برطانیہ میں سرجن کے لئے ڈاکٹر کا لفظ استعمال نہیں ہوتا بلکہ انہیں مِسٹر کہا جاتا ہے۔ اس کی وجہ یہی تاریخ ہے)۔
جسم سے سیال نکالنے والا کام آزادانہ کیا جاتا تھا۔ “پیپ کی بالٹیاں” اٹھائے نوآموز معالج برآمدوں میں پھرا کرتے تھے۔ سرجری کی انفیکشن کا علاج کرنے والے سرجن کی ڈائری میں 1850 کی دہائی میں:“خاتون کو دورہ پڑتا تھا اور بخار بھی آ گیا تھا۔ میں نے دونوں بازووٗں میں چیرا لگا دیا۔ اتنا خون بہا کہ پھر دورہ رک گیا”۔ گھوڑے یا بھیڑ کی آنت سے بنائے گئے ٹانکوں سے زخم بند کر کے انہیں بغیر ڈھکے چھوڑ دیا جاتا تھا۔ سرجن جیب میں نشتر لئے پھرتے تھے۔ اگر یہ جیب سے فرش پر گر جائے تو اسے جھاڑ کر واپس جیب میں (یا مریض کے بدن میں) ڈال دیا جاتا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اکتوبر 1877 میں ہالسٹیڈ یورپ کے جراحوں کی اس دنیا میں گئے۔ سرجیکل تکینک تبدیل ہو رہی تھیں۔ کینسر سرجری بھی سنڈی سے تتلی میں بدلنے کی سٹیج پر تھی۔ بلروتھ اپنے طلبا کو پیٹ کی سرجری کی اچھوتی تکنیک سکھا رہے تھے۔ لندن، ویانا، زیورخ، برلن میں سرجری کے شعبے کے بڑے ناموں سے یہ فن سیکھ کر ہالسٹیڈ امریکہ واپس گئے اور روزویلٹ ہسپتال میں اس کی پریکٹس شروع کر دی۔ زیادہ پراعتماد اور جراتمند ہالسٹیڈ کو اپنے ہاتھوں پر اعتماد تھا۔ 1882 میں انہوں نے اپنی والدہ کا پِتہ نکالا۔ امریکہ میں ہونے والا یہ ایسا پہلا کامیاب آپریشن تھا۔ ان کی بہن کی زندگی کو زچگی کے وقت خون بہہ جانے سے خطرہ لاحق تھا۔ انہوں نے اپنا خون نکال کر بہن کو لگا کر اس کی جان بچائی (انہیں بلڈ گروپس کا کوئی علم نہیں تھا۔ اتفاق سے یہ گروپ میچ کر گئے تھے)۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نیویارک میں 1884 میں ہالسٹیڈ نے ایک پیپر پڑھا جس میں کوکین کو سرجیکل اینستھیٹک کے طور پر استعمال کرنے کا بیان کیا گیا تھا۔ انہوں نے جرمنی میں سرجن کو ایسا کرتے دیکھا تھا۔ یہ سستی اور آسانی سے میسر ڈرگ تھی جس کو دینا آسان تھا۔ انہوں نے اس کا تجربہ خود اپنے پر کیا۔ انہیں معلوم ہوا کہ اس کا اثر وقتی طور پر سن ہونے سے زیادہ تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ “اس سے تھکان دور ہو جاتی ہے اور میں زیادہ کام کر سکتا ہوں”۔ اگلے پانچ سال ان کا کامیاب سرجیکل کیرئیر اور کوکین کا نشہ ساتھ چلتا رہا۔ اس نشے سے نجات حاصل کرنے کے لئے کوشش کرتے رہے۔ بار بار چھوڑ کر واپس شروع ہو جاتا۔ اس لت سے آزاد ہونے کے لئے سینی ٹوریم میں داخلہ لے لیا، جہاں پر کوکین سے نجات دلانے کے لئے مورفین دی گئی۔ ان کو دونوں نشوں کی عادت پڑ گئی جن سے مکمل چھٹکارا کبھی نہ پا سکے۔
لیکن ولیم ہالسٹیڈ ایک غیرمعمولی سرجن تھے جو اپنی قوتِ ارادی اور انتھک محنت کو اپنے زیرِتربیت طلباء میں دیکھنے کا تقاضا بھی کرتے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہالسٹیڈ نے چھاتی کے کینسر پر بھرپور حملہ کیا۔ انہوں نے جرمنی میں دیکھا تھا کہ باوجود پوری احتیاط اور تفصیل سے کام کرنے کے، چھاتی کا کینسر واپس آ جاتا تھا۔ کئی بار چند مہینوں بعد اور کئی بار چند سال میں۔
کس وجہ سے یہ واپس آتا تھا؟ اس پر برطانوی سرجن چارلس مور نے بہت تفصیل سے کام کیا تھا۔ وہ اصل ٹیومر کا ریکارڈ رکھتے تھے، سرجری کا بالکل ٹھیک ٹھیک ریکارڈ رکھتے تھے اور پھر واپس آنے والے کینسر کے پیٹرن کا۔ ایک ایک نقطہ کر کے ویسا ہی پیٹرن نمودار ہو جاتا تھا۔ ایسے جیسے سرجری مکمل نہ ہوئی ہو۔ کچھ باقی رہ گیا ہو۔ انہوں نے نتیجہ اخذ کیا کہ “آپریشن کے بعد کینسر کی واپس کی وجہ باقی ماندہ کینسر کے ٹکڑوں کی مسلسل بڑھوتی ہے”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
مور کے خیال کا ایک نتیجہ نکلتا تھا۔ اگر چھاتی کا کینسر واپس آ جاتا تھا تو اس کا علاج زیادہ حصہ نکال دینا ہو گا۔ کیوں نہ پہلی سرجری میں مارجن کو ہی بڑھا دیا جائے؟ مور کا کہنا تھا کہ ایسا نہ کرنا “غلط مہربانی” ہے۔ اس کی بنیاد پر جرمنی میں پکٹورلس مائنر کو بھی کاٹنا شروع کر دیا گیا۔
ہالسٹیڈ اس کو ایک قدم اور آگے لے گئے۔ یہ ریڈیکل میسکٹومی کا طریقہ تھا۔ ریڈیکل کا مطلب لاطینی میں “جڑ” کا ہے۔ وہ کینسر کو جڑ سے اکھاڑنا چاہتے تھے۔ انہوں نے پیکٹورالس میجر کا مسل کاٹنا شروع کر دیا۔ یہ وہ مسل ہے جو کندھے اور ہاتھ کو حرکت دیتا ہے۔ لیکن جب کچھ مریضوں میں اس کے بعد بھی کینسر واپس آ گیا تو انہوں نے مزید بڑھا دیا۔ 1898 میں ہالسٹڈ کالر بون کو کاٹ کر اس کے نیچے لمف نوڈ نکالنا شروع ہو گئے۔ سرجیکل کانفرنس میں انہوں نے اپنے اس پروسیجر کے بارے میں بتایا۔
ہالسٹیڈ کی ریڈیکل سرجری اب عام ہونے لگی تھی۔ اور مزید بڑھنے لگی تھی۔ جوزف بلڈگڈ نے کالر بون سے اوپر گردن میں گلینڈ کی چین کو صاف کرنا شروع کر دیا۔ ہاروے کشنگ نے سینے میں گہری لمف نوڈز کو۔
یہ ایک طویل دوڑ تھی۔ کیا کیا جائے کہ کینسر واپس نہ آ جائے۔ زندگی بچ جائے۔ یورپ میں ایک سرجن نے تین پسلیاں نکالنے کی تکنیک بنائی۔ کالر بون اور کندھے کو کاٹ کر نکالنے کا تجربہ بھی ہوا۔
مریضوں کے لئے یہ کنڈیشن مشکل تھی اور معذوری کی حالت تھی۔ اس سے بحال ہوتے مہینوں یا سالوں لگ جاتے تھے۔ زخموں کی دیکھ بھال مشکل کام تھا۔ ہالسٹیڈ کے خیال میں یہ ایک جنگ تھی۔ ایسا کرنا زندگی بچانے کے لئے ضروری تھا۔ ان کے سرجیکل نوٹس میں نظر آتا ہے کہ وہ مریضوں کے لئے پرواہ کرتے تھے۔ “مریضہ نوجوان خاتون تھی۔ میرے لئے آسان نہیں تھا کہ اس کا حلیہ بگاڑ دوں”۔ ایک کیس بند کرتے وقت، “ایک بازو بالکل ٹھیک ہے۔ اس نے لکڑیاں بھی کاٹی ہیں، کوئی سوجن نہیں”۔ “شادی شدہ اور چار بچوں کی ماں”۔ صفحے کے مارجن پر لکھا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال یہ تھا کہ کیا ہالسٹڈ کی ریڈیکل سرجری جانیں بچا رہی تھی اور اس کینسر کا علاج تھی؟ کیا نوجوان خاتون کی شکل و صورت بگاڑ دئے جانے سے خاتون کو فائدہ ہوا تھا؟ ہالسٹیڈ نے اس کا ڈیٹا اکٹھا کرنا شروع کر دیا۔
(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply