امام محمد باقر علیہ السلام(1)۔۔شبیر

محمد بن علی بن حسین بن علی بن ابی طالب (57-114ھ)، امام محمد باقرؑ کے نام سے مشہور شیعوں کے پانچویں امام ہیں۔ آپ کا مشہور لقب باقرالعلوم ہے۔ آپ کی مدت امامت 19 برس تھی۔ آپؑ واقعۂ عاشورا کے چشم دید گواہ بھی ہیں اس موقع پر آپ بہت چھوٹے تھے۔ اپنے زمانے میں تشیُّع کے فروغ کے لئے مناسب تاریخی حالات کو دیکھتے ہوئے آپ نے عظیم شیعہ علمی تحریک کا آغاز کیا جو آپ کے فرزند ارجمند امام جعفر صادق علیہ السلام کے زمانے میں اپنے عروج کو پہنچ گئی۔

اکابرین اہل سنت آپؑ کی علمی اور دینی عظمت و شہرت کے معترف ہیں۔ فقہ، توحید، سنت نبوی، قرآن، اخلاق اور دیگر موضوعات پر آپ سے بہت ساری احادیث نقل ہوئی ہیں۔ آپ کے دور امامت میں اخلاق، فقہ، کلام، تفسیر اور کئی دوسرے موضوعات پر شیعہ نقطہ نظر کو اجاگر کرنے میں انتہائی اہم اقدامات اٹھائے گئے ہیں۔

نسب، کنیت اور القاب

محمد بن علی بن الحسین بن علی بن ابی طالب‌، امام محمد باقرؑ کے نام سے مشہور شیعوں کے پانچویں امام ہیں۔ آپ چوتھے امام، امام سجادؑ کے فرزند ہیں؛ آپ کی والدہ امام حسن مجتبی علیہ السلام کی بیٹی فاطمہ بنت حسن ہیں۔ امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: كانت صديقة لَم تُدرَك في آل الحسن امراءةٌ مثلها۔ ترجمہ: میری دادی (فاطمہ بنت حسن) وہ سچی اور پاکیزہ خاتون ہیں جن کی مانند خاتون آل حسن میں نہيں ملتی۔[1]
امام باقرؑ پہلے ہاشمی ہیں جنہوں نے ہاشمی، علوی اور فاطمی ماں باپ سے جنم لیا۔ یا یوں کہیے   کہ  پہلے علوی اور فاطمی ہیں جن کے والدین دونوں علوی اور فاطمی ہیں۔[2]

نامپیغمبر اسلام نے آپ کی ولادت سے دسیوں برس قبل آپ کا نام محمد اور آپ کا لقب باقر مقرر کیا تھا۔ جابر بن عبداللہ انصاری کی روایت سے آپ کے نام گرامی پر تصریح ہوتی ہے۔ روایت جابر بن عبد اللہ اور دیگر روایات بھی اس پر دلالت کرتی ہیں۔[3] علاوہ ازیں آئمہ معصومین کے اسمائے گرامی کے سلسلے میں رسول اللہؐ کے دیگر ارشادات بھی ـ جو دلائل امامت میں شمار ہوتے ہیں ـ بھی اس کی تائید کرتے ہیں۔[4]

القاب اور کنیت: آپ کے القاب میں شاکر، ہادی، اور باقر مشہور ہیں جبکہ آپ کا مشہور ترین لقب باقر ہے۔ باقر کے معنی علم و دانش کا سینہ چاک کرکے اس کے راز و رمز تک پہنچنے والے (شکافتہ کرنے والا) کے ہیں۔ یعقوبی رقمطراز ہے: آپ کو اس سبب سے باقر کا نام دیا گیا کہ آپ نے علم کو شکافتہ کیا۔[5] آپ کی مشہور کنیت ابو جعفر ہے۔[6] حدیث کے منابع میں آپ کو غالبا ابو جعفر کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔

انگشتریوں کے نقش: امام باقر علیہ السلام کی انگشتریوں کے لئے دو نقش منقول ہیں: رَبِّ لَا تَذَرْنِي فَرْداً پروردگار! مجھے اکیلا نہ چھوڑ: [7] اور الْقُوَّةُ لِلّهِ جَمِيعاً[8]

ولادت اور شہادت

امام محمد باقرؑ کی کربلا میں حاضری

امام محمد باقرؑ فرماتے ہیں:
جس وقت میرے جد امجد حسین ابن علیؑ کو شہید کیا گیا اس وقت میری عمر 4 سال تھی۔ آپ کی شہادت اور اس وقت جو مصائب ہمارے اوپر آئے سب مجھے یاد ہیں۔

یعقوبی، تاریخ یعقوبی، ج۲، ص۲۸۹۔

امام محمد باقرؑ بروز جمعہ یکم رجب المرجب سنہ 57 ہجری کو مدینہ میں پیدا ہوئے۔[9] گوکہ بعض منابع میں آپ کی تاریخ ولادت اسی سال 3 صفر بروز منگل ثبت کی گئی ہے۔[10]

شہادت

امام باقرؑ 57 سال کی عمر میں[11] 7 ذی الحجہ سنہ 114 ہجری کو شہید ہوئے۔[12]البتہ بعض منابع میں ذی‌ الحجہ کی جگہ ربیع الاول یا ربیع الثانی کا نام لیا گیا ہے۔[13] امام محمد باقرؑ کی شہادت کے سلسلے میں دوسرے اقوال بھی تاریخ کے صفحات پر درج ہيں۔

امام محمد باقرؑ کی شہادت ہشام بن عبد الملک کے دور خلافت میں واقع ہوئی:[14] چونکہ ہشام سنہ 105 ہجری سے 125 ہجری تک بر سر اقتدار رہا،[15] اور امام محمد باقرؑ کی شہادت کے سلسلے میں مورخین نے جن تاریخوں کا ذکر کیا ہے ان میں سے آخری سال 118 ہجری ہے۔[حوالہ درکار] امام محمد باقرؑ کو کس شخص یا کن اشخاص نے قتل کیا؟ اس سلسلے میں مؤرخین کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے بعض نے لکھا ہے کہ آپ کو شہید کرنے میں ہشام بن عبد الملک براہ راست ملوث تھے۔[16] بعض کا قول ہے کہ آپ کا قاتل ابراہیم بن ولید بن عبد الملک بن مروان ہے جس نے امامؑ کو مسموم کیا۔[17]

امام محمد باقرؑ نے وصیت کی تھی کہ آپ کو اسی لباس میں دفن کیا جائے جس میں آپ ہمیشہ نماز پڑھا کرتے تھے۔[18] آپ امام سجادؑ اور امام حسنؑ کے ساتھ قبرستان بقیع میں مدفون ہیں۔[19] امام نے یہ بھی وصیت کی تھی کہ آپ کے اموال میں سے دس سال تک منا میں آپ کے لئے مجلس عزا برپا کی جائے۔[20]

ازواج اور اولاد

تاریخی منابع میں ام فروہ امام محمد باقرؑ کی زوجہ اور امام جعفر صادق علیہ السلام کی والدہ مروی ہیں۔ نیز آپ کی ایک زوجہ ام حکیم بنت اسید ثقفی تھیں جو امامؑ کے دو فرزندوں کی ماں تھیں جبکہ آپ کے تین دوسرے فرزندوں کی ماں ایک ام ولد تھیں۔[21]

امام محمد باقرؑ کی سات اولادیں 5 بیٹے اور 2 بیٹیاں تھیں جن کے نام کچھ یوں ہیں
جعفر بن محمد اور عبداللہ جن کی والدہ کا نام ام فروہ بنت قاسم بن محمد ہیں۔
ابراہیم بن محمد اور عبید اللہ بن محمد جن کی والدہ ام حکیم بنت اسید ثقفی تھیں؛ یہ دونوں طفولت ہی میں دنیا سے رخصت ہوئے ہیں۔
علی، زینب اور ام سلمہ جن کی والدہ ایک ام ولد تھیں۔[22]

کربلا میں موجودگی

امام محمد باقرؑ نے طفولت کی زندگی (چار سال تک) اپنے والدین کے اور دادا (امام حسین علیہ السلام کے ساتھ گذاری۔
آپ واقعۂ عاشورا کے دوران کربلا میں موجود تھے اور آپ خود ایک حدیث کے ضمن میں فرماتے ہیں: “میں چار سالہ تھا جب میرے جدّ امام حسینؑ کو قتل کیا گیا اور مجھے آپؑ کی شہادت بھی اور وہ سارے مصائب بھی یاد ہیں جو ہم پر گذرے۔[23]

رسول خداؐ کا سلام

شیخ مفید روایت کرتے ہیں کہ امام باقرؑ نے فرمایا:
ایک دفعہ میں نے جابر بن عبداللہ انصاری (رحمۃاللہ علیہ) کو دیکھا اور انہيں سلام کیا؛ انھوں نے میرے سلام کا جواب دیا اور پوچھا:

تم کَون ہو؟ – یہ وہ زمانہ تھا جب جابر نابینا ہوچکے تھے۔

میں نے کہا: میں محمد بن علی بن الحسین ہوں۔

کہا: بیٹا میرے قریب آؤ۔

پس میں ان کے قریب گیا اور انھوں نے میرے ہاتھ کا بوسہ لیا اور میرے پاؤں کا بوسہ لینے کے لئے جھک گئے لیکن میں نے انہیں روک لیا۔

اس کے بعد جابر نے کہا: بے شک رسول اللہؐ تمہیں سلام کہہ رہے ہیں۔

میں نے کہا: و علی رسول اللہ السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ؛ لیکن یہ کیسے اے جابر!

جابر نے کہا: ایک دفعہ میں آپ ؐ کی خدمت میں حاضر تھا جب آپ ؐ نے مجھ سے مخاطب ہوکر فرمایا: اے جابر! مجھے امید ہے کہ تم لمبی عمر پاؤ حتی کہ میرے فرزندوں میں سے ایک مرد کو دیکھ لو جس کا نام محمد بن علی بن الحسین ہوگا، اور اللہ تعالی اس کو نور اور حکمت بخشے گا۔ پس میری طرف سے اس کو سلام پہنچانا۔[24]

امامت

امام محمد بن علی بن الحسین بن علی، باقر علیہ السلام سنہ 95 ہجری میں اپنے والد ماجد امام علی بن الحسین زین العابدین علیہ السلام کی شہادت کے ساتھ ہی منصب امامت پر فائز ہوئے اور سنہ 114 ہجری (یا 117 یا 118 ہجری) میں ہشام بن عبدالملک کے ہاتھوں جام شہادت نوش کرنے تک شیعیان آل رسولؐ کے امام و رہبر و پیشوا تھے۔

دلائل امامت

جابر بن عبداللہ سے مروی ہے: میں نے رسول اللہؐ سے امیر المؤمنین علیہ السلام کے بعد کے آئمہ کے بارے میں استفسار کیا تو آپؐ نے فرمایا: علی کے بعد جوانان جنت کے دو سردار حسن و حسین، ان کے بعد اپنے زمانے کے عبادت گزاروں کے سردار علی بن الحسین اور ان کے بعد محمد بن علی جن کے دیدار کا شرف تم (یعنی جابر) بھی پاؤ گے اور ۔۔۔ میرے خلفاء اور آئمہ معصومین ہیں۔[25]

علاوہ ازیں رسول اللہؐ سے متعدد احادیث منقول ہیں جن میں 12 ائمۂ شیعہ کے اسمائے گرامی ذکر ہوئے ہیں اور یہ احادیث امام باقر العلوم محمد بن علی الباقر علیہ السلام سمیت تمام ائمہؑ کی امامت و خلافت و ولایت کی تائید کرتی ہیں۔[نوٹ 1]

امام سجادؑ اکثر و بیشتر لوگوں کو امام باقرؑ کی طرف متوجہ کرایا کرتے تھے۔ مثال کے طور پر جب آپ کے بیٹے عمر بن علی نے اپنے والد امام زین العابدینؑ سے دریافت کیا کہ آپ محمد باقر کو اس قدر توجہ کیوں دیتے ہیں اور اس خصوصی توجہ کا راز کیا ہے تو امام سجادؑ نے فرمایا: اس کا سبب یہ ہے کہ امامت ان کے فرزندوں میں باقی رہے گی حتی کہ حضرت ہمارے قائم قیام کریں اور دنیا کو عدل و انصاف سے بھر دیں گے؛ چنانچہ وہ امام بھی ہیں اور اماموں کے باپ بھی۔[26]

شیخ مفید رقمطراز ہیں: امام باقرؑ فضل، علم، زہد اور جود و کرم میں اپنے تمام بھائیوں پر فوقیت اور برتری رکھتے تھے اور سب تعظیم کے ساتھ آپ کی مداحی کرتے تھے اور عوام و خواص آپ کا احترام کرتے نظر آتے تھے اور آپ کی قدر و منزلت دوسروں سے زیادہ تھی۔ علم دین، اور نبوی سنت و آثار، قرآنی حقائق، سیرت الہی اور فنونِ اخلاق و آداب کے فروغ اور ترویج میں امام حسن علیہ السلام اورانکے فرزندوں میں سے کسی نے بھی امام باقرؑ جتنے گرانقدر یادگاریں اور ابدی آثار اپنے بعد (بطور ورثہ) میں نہيں چھوڑے ہیں۔ حضرت امام باقرؑ کی خدمت میں شرف حضور حاصل کرنے والے باقی ماندۂ اصحاب رسولؐ امور دینیہ اور دین مبین کے احکام آپ سے اخذ کرتے اور آپ سے اس حوالے سے روایت کرتے تھے۔ نیز تابعین کے اکابرین اور فقہاء مسلمین کے سرکردہ بزرگ آپ کے حضور پر نور سے فیض کثیر حاصل کرتے تھے۔ آپ کے فضیلت و کرامت اس حد تک پہنچ چکی تھی کہ علم و کمال والوں کے درمیان آپ ایک ضرب المثل بن چکے تھے اور شعراء آپ کی شان میں قصائد ارشاد کیا کرتے تھے اور اپنی کاوشوں کو آپ کے نام گرامی سے مزين کیا کرتے تھے۔[27]

ہم عصر خلفا

امام باقرؑ کا عہد امامت درج ذیل پانچ اموی خلفا کے ہمزمان تھا:

  1. ولید بن عبدالملک (86 تا 96) ہجری
  2. سلیمان بن عبدالملک (96 تا 99) ہجری
  3. عمر بن عبدالعزیز (99 تا 101) ہجری
  4. یزید بن عبدالملک (101 تا 105) ہجری
  5. ہشام بن عبدالملک (105 تا 125) ہجری

آپ کے ہم عصر اموی (مروانی خلفاء) میں سے عمر بن عبد العزیز عدل و انصاف کا پابند اموی خلیفہ تھا۔ اس کے سوا باقی خلفا عدل کی راہ پر گامزن نہیں ہوئے اور ان سب نے شیعیان آل رسولؐ سمیت مسلمانوں پر طرح طرح کے مظالم ڈھائے اور ان کے دربار میں بدعنوانی، امتیازی رویے اور آتش انتقام کے شعلے بکثرت دکھائی دیتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply