گنگا میّا۔۔بھیرو پرسادگپت(11)۔۔ہندی سے ترجمہ :عامر صدیقی

منڈیر پر آگ سلگ رہی ہے، پاس ہی تمباکو اورکھینی رکھی ہوئی ہے۔ جو تمباکو پیتا ہے، وہ چلم بھر رہا ہے۔ جوکھینی کھاتا ہے، وہ خوردنی تمباکو پھٹک رہا ہے۔ تھوڑی دیر تک بوڑھے بوڑھیوں کی کھوںکھوں سے فضا بھر جاتی ہے۔ پھر فصل کٹنی شروع ہو جاتی ہے۔

کھیت کی پوری چوڑائی میں بنہار اور بنہارنیںقطار لگا کر اکڑوں بیٹھی فصل کاٹ رہے ہیں، بنہار ایک طرف بنہارنیں دوسری طرف۔ ایک سرے پر مٹرو جٹا ہے اور دوسرے پر پوجن۔ پوجن نے بغل کی بوڑھی عورت کو کہنی مار کر ہنستے ہوئے کہا،’’کڑھائو ایک بڑھیا گیت۔‘‘

بوڑھی نے مسکرا کراپنی بغل والی کو کہنی ماری، اور پھر پوری زنجیر جھنجھنا اٹھی۔ نویلیوں نے کھانس کر گلا صاف کیا۔ ایک آدھ لمحے ’’تُوکڑھا،تُوکڑھا ‘‘رہا۔ پھر زمین کی بیٹیوں کے گلے سے زمین کا جنگلی شہد سا میٹھاگیت پھوٹ پڑا۔ چہرے دمک اٹھے، آنکھیں چمک اٹھیں، ہاتھوں میں تیزی آ گئی۔ کام اور سنگیت کی تال بندھی، فضا جھوم اٹھی، چاند اور ستارے ناچنے لگے، گنگا میا کی لہریں بے قابو ہو ہوکر ساحل سے ٹکرانے لگیں-

’’ اے پیا، تو پردیس نہ جا،

وہاں تجھے کیا ملے گا، کیا ملے گا؟

یہاں کھیت پک گئے ہیں، سونے کی بالیاں جھوم رہی ہیں۔

میں درانتی لے کر بھنسارے جاؤں گی،

گا ناچ کر فصلوں کے دیوتا کو ر جھائوںگی،

خوش ہو کر وہ نیا اناج دے گا، میں پھانڑ بھر کر لائوںگی۔

کوٹوںگی، پیسوگی، پہا پکائوںگی،

ٹھہر دے کے پیڑھے پر تجھ کو بیٹھائوںگی!

اپنے ہاتھوں سے رچ رچ کھلاؤنگی۔

یاد ہے تجھے وہ پچھلی فصل کی بات؟

اے پیا، تو پردیس نہ جا۔

وہاں تجھے کیا ملے گا، کیا ملے گا؟ ‘‘

شفق کی سیندوری چمک آہستہ آہستہ کھیتوں میں پھیل کر رنگین جھیل کی طرح مسکرا اٹھی۔ بنہاروں اور بنہارنوں کے چہرے سنہری مورتیوں کی طرح دمک اٹھے۔ ندی کا پانی سنہرے آبِ رواںکے دوپٹے کی طرح لہرا اٹھا۔ کہیں دور سے دریائی پرندوں کی آوازیں شانت، سہانے ماحول میں گونجنے لگیں۔ فطرت نے ایک انگڑائی لے کر خمار بھری پلکیں اٹھائیں۔ سورج کی پہلی کرن نے اسکے قدم چومے اورموجودات نے جھوم کر زندگی اور محبت کی راگنی چھیڑ دی۔

تبھی مٹرو کے کانوں میں آواز پڑی،’’مٹرو بھیا!‘‘

یک لخت مٹرو نے دیکھا اور لپک کر گوپی کے گلے سے لپٹ کر کہا،’’گوپی، ارے گوپی! توُ کب آ گیا، بھیا؟‘‘

’’ خوب پوچھ رہے ہو! چار پانچ مہینے ہو گئے ہمیں آئے، خبر بھی نہ لی؟‘‘ گوپی نے شکایت کی۔

’’ اتنی جلدی کیسے چھوٹ گئے؟ میں تو سوچتا تھا، اس مہینے میں چھوٹوگے۔‘‘اس کے دونوں بازوئوں کو اپنے ہاتھوں سے دباتا مٹرو بولا۔

’’ چھ مہینے مزید چھوٹ کے مل گئے۔ سنا کہ ادھر تم برابر گھر آتے جاتے رہے۔ اس دوران کیوں نہیں آئے؟ میں تو برابر تمہارا انتظار کرتا رہا۔ مزے میں تو رہے؟‘‘ گوپی بولا۔

’’ ہاں، گنگا میا کی سب کرپا ہے! تم اپنی کہو؟ ادھر کاموں میں بہت پھنسے رہے۔ یہاں سے ہٹنا بڑا مشکل ہوتا ہے۔ سوچا تھا کہ فصل ختم ہوتے ہی تمہارے یہاں ایک رات ہو آؤں گا۔ اچھا کیا کہ تم آ گئے۔ میرے تو پاؤں پھنس گئے ہیں۔‘‘اپنی کٹیا کی جانب گوپی کو لے جاتے ہوئے مٹرو نے کہا۔

’’ تم تو کہتے تھے کہ یہاں تم ہی رہتے ہو، میں دیکھتا ہوں کہ یہاں تو ایک چھوٹا موٹا گاؤں ہی بس گیا ہے۔‘‘چاروں طرف دیکھتا ہوا گوپی بولا۔

مٹرو ہنسا۔ بولا،’’سب گنگا میا کی کرپا ہے۔ اب تو سینکڑوں کسان ہمارے ساتھ یہاں بس گئے ہیں۔ مٹرو اب تنہا نہیں ہے۔ اس کا خاندان بہت بڑا ہو گیا ہے!‘‘ اور پھر وہ ہنس پڑا۔

کٹیا کے سامنے لکھنا، کندھے تک دائیں ہاتھ میں پانی بھوسا لپٹائے کر کھڑا انہیں دیکھ رہا تھا۔ مٹرو نے کہا،’’تیرا چچا ہے بے، لگ رہا ہے کیا؟ چل، پاؤں پکڑ!‘‘

لکھنا پاؤں پکڑنے لگا، تو گوپی نے اسے ہاتھوں سے اٹھا کر کہا،’’بڑکا ہے نہ؟‘‘

’’ ہاں۔‘‘مٹرو نے کہا،’’کیوں بے، بھینس دوہ چکا؟‘‘

’’ ہاں۔‘‘لڑکے نے سر جھکا کر کہا۔

’’ تو چل، چچا کے لئے ایک لوٹا دودھ تو لا۔ اور ہاں، لپک کر کھیت پر جا۔ پانتی چھوڑکر آیا ہوں۔‘‘چٹائی پر گوپی کو بٹھاتے ہوئے مٹرو نے کہا۔

’’ ارے، ابھی تو منہ ہاتھ بھی نہیں دھویا۔ کیا جلدی ہے؟‘‘ گوپی نے کہا۔

’’ شیر بھی کہیں منہ دھوتے ہیں؟ اور پھر دودھ کے لئے کیا منہ دھونا؟‘‘ ہنس کر مٹرو نے کہا۔

جیل گھر کی تمام باتیں کہہ کر گوپی نے کہا،’’جان مصیبت میں پڑ گئی ہے۔ تم سے رائے لینے چلا آیا۔ ابھی تم ہی نکالو، تو جان بچے۔ روز روز مہمان گھر آ رہے ہیں۔ سمجھ میں نہیں آتا، کیا کروں۔ بھابھی کی حالت نہیں دیکھی جاتی۔ بڑا مشکل لیتا ہے! اسکی چھاتی پر خوشی منانا ہم سے تو نہ ہو گا!‘‘

’’ سچ پوچھو، تو اسی ادھیڑبن میں ،میں بھی پڑا تھا۔ وہاں جانے پر مائی اور بابوجی تمہاری شادی پکی کرنے کی بات کہتے تھے اور میں ٹال جاتا تھا۔ جب سے تمہاری بھابھی کو دیکھا، دنیا بھر کی لڑکیاں نظر سے اتر گئیں۔ سوچا تھے، تم آ جاؤ، تو کچھ سوچا جائے۔ بھیا سچ کہنا، تیرا دل بھابھی کے ساتھ شادی کرنے کو ہے؟ ہمیں تو لگتا ہے کہ تم اسے بہت مانتے ہو۔‘‘

’’ میرے چاہنے سے ہی کیا ہو جائے گا؟‘‘ گوپی نے اداس ہو کر کہا۔

’’ کیوں نہ ہو گا؟ مرد ہو کہ کوئی مذاق ہو؟ ساری دنیا کے خلاف تمہارا مٹرو اکیلے تمہیں لے کر کھڑا ہو گا! کیا سمجھتے ہو مجھے؟ میں نے تو یہاں تک سوچا ہے کہ اگر تمہارے ماں باپ گھر سے نکال دیں، تو یہاں میری کٹیا کے قریب ایک اور کٹیا کھڑی ہو جائے گی۔ اور دیکھ رہے ہو نہ یہ کھیت! مل جل کر کام کریں گے۔ کوئی سالا ہمارا کیا کر لے گا؟ سچ کہوں گوپی، تیری بھابھی کاسوچ کر میرا بھی کلیجہ پھٹتا ہے۔ تو اسے اپنا لے! بڑا پنیہ ہوگا، بھیا! قصائی کے ہاتھ سے ایک گائے اورچڑی مار کے ہاتھ سے ایک چڑیا بچانے میں جو پنیہ ملتا ہے، وہی تجھے ملے گا۔ بہادر ایسے موقعے پر پیٹھ نہیں پھیرتے!‘‘ گوپی کی پشت ٹھوکتے ہوئے مٹرو نے کہا۔

’’ لیکن اس کی بھی تو کوئی رائے معلوم ہو۔ جانے کیا سوچ رہی ہو۔ وہ تیار ہو گی بھیا؟‘‘ گوپی نے زیرِ لب کہا۔

’’ ارے، پانچ ماہ تجھے آئے ہو گئے اور تجھے یہ بھی معلوم نہیں ہوا؟‘‘ مٹرو نے تعجب ظاہر کیا۔

’’ کیسے معلوم ہو بھیا؟ وہ تو بالکل گونگی ہو گئی ہے۔ بس آنسو بھری آنکھوں سے ایسے ہی دیکھا کرتی ہے، جیسے چھری کے نیچے کبوتری۔ میں کیسے جانوں ۔۔۔‘‘

’’ ابے، تو ایک دن پوچھ کر دیکھ۔‘‘

’’ لیکن، مائی، بابو ۔۔۔‘‘

’’ ایک بات تو سمجھ لے۔ مائی بابو کے چکر میں اگر پڑا، تو یہ نہیں ہو گا! رسم و رواج اورسَنسکار کو بوڑھے جان کے پیچھے رکھتے ہیں۔ عمر بھر کی کمائی عزت آبرو کو وہ جان سے ویسے ہی چپکائے رہتے ہیں، جیسے مرے بچے کو بندریا۔ سمجھا؟ تو ان کے چکر میں نہ پڑ! جوان ہے۔ ابے، تجھے ڈر کاہے کا؟ پھر میں جو ہوں تیری پیٹھ پر! دیکھیں گے کہ تیرے خلاف جاکر کون کیا کر لیتا ہے! ہمت چاہئے، بس ہمت! ہمت کے آگے دنیا جھک جاتی ہے!‘‘

’’ اچھا، تو تم کب آؤ گے؟ تم ذرا مائی بابوجی کو سمجھاتے۔ وہ بڑی جلدی مچائے ہوئے ہیں۔‘‘

’’ بس، چار پانچ دن میں۔ کھیت کٹنے بھر کی دیر ہے۔ میں سب کر لوں گا۔ بس، تو اپنی بھابھی کو سمجھا لے۔ چل، تجھے کھیت دکھاؤں۔ ادھر ہی گنگا میا میں غوطے لگا کر لوٹیں گے۔‘‘

تیرہ

کتنے ہی مہمان آ آکر جب مایوس ہو ہوکر لوٹ گئے، تو ایک دن، جب بھابھی اپنی پوجا میں مستغرق تھی، ماں نے گوپی کو بلایا اور باپ کے سامنے لا کھڑا کیا۔ پِتا کے چہرے پر بے انتہائی سنجیدگی چھائی تھی۔ گوپی سمجھ نہ سکا کہ آخر کیا بات ہے۔

باپ نے اسے اور پاس بلا کر کہا،’’بیٹا، میری اور اپنی ماں کی حالت دیکھ رہے ہو نہ؟‘‘

گوپی نے جیسے کسی خدشے سے بھر کر سر ہلا دیا۔

’’ بیٹا، اب ہمارا کوئی ٹھکانہ نہیں۔ آج کسی طرح کٹ گیا، تو کل دوسرا دن سمجھو۔ ہمارے دل میں کیا کیا ارمان تھے، آج انہیں یاد کر کے ہمارا کلیجہ پھٹ جاتا ہے۔ ٹھیک ہے، بھگوان کی جو خواہش تھی، پوری ہوئی۔ لیکن اب کیا تو چاہتا ہے کہ گھر گرہستی کو اسی اجڑی حالت میں چھوڑ کر ہم ۔۔۔‘‘کہتے کہتے انکا گلا امنڈتے ہوئے غم کے تسلسل سے روہانسا ہو گیا۔

ماں نے سسکتے ہوئے اپنا منہ آنچل سے ڈھک کر پھیر لیا۔

گوپی کے دکھی دل کے زخموں کے ٹانکے جیسے کسی نے ایک جھٹکے میں توڑ دیئے۔ اس کی روح درد کے مارے کراہ اٹھی۔ وہ خودکو مزید سنبھالنے کے قابل نہیں رہا تو وہاں سے ہٹنے لگا، اس پر باپ نے بھرائے گلے سے مجروح لہجے میں کہا،’’ہمارے رہتے ہی اگر تو گھر بسا لیتا، تو کم از کم ہم شانتی سے ۔۔۔‘‘

گوپی آگے کی بات نہ سن سکا۔ وہ چوپال میں جاکر بلک بلک کر رو پڑا۔ اوہ، اسے کوئی کیوں نہیں سمجھ رہا ہے؟ کسی کو اپنی بیٹی کے بیاہ کی فکر ہے، تو کسی کو اس کے کل کے نام و نشان کی فکر ہے۔ ماں باپ کو اجڑا گھر بسانے کی فکر ہے۔ لیکن اس چوٹ کھائے دل کی کیوں کسی کو فکر نہیں ہے؟

یہ سوچ سوچ کر وہ بار بار جھنجھلایا اور اس نے جھنجھلا جھنجھلاکر اسے بار بار سوچا۔ آخر وہ ایک نتیجے پر پہنچ گیا۔ اس نے استقامت کے ساتھ سماج کی جانب سے، دنیا کی جانب سے آنکھیں موندکر جذباتی ہیجان میں فیصلہ کیا کہ وہ گھر بسائے گا، ضرور بسائے گا، لیکن اس طرح بسائے گا کہ ایک ساتھ ہی اس کے دل کی چوٹوں پر بھی مرہم لگ جائے اور اس کی بیوہ بھابھی کی بھسم ہوتی زندگی پر بھی ٹھنڈے پانی کے چھینٹے پڑ جائیں۔

دوسرے دن شام کو جب ماں، باپ کے پیتانے بیٹھ کر ان کے پاؤں دبا رہی تھی، گوپی پوجا گھر میں جا کر دھک دھک کرتے دل کے ساتھ بھابھی کے پیچھے کھڑا ہو گیا۔ بھابھی پوجا میں مستغرق تھی۔ رامائن کا پاٹھ چل رہا تھا ۔۔’’ایہ تن ستی بھینٹ اب ناہِیں ۔۔۔‘‘بھابھی اسی پنکتی کو بار بار بھرائی آواز میں دہرا رہی تھی۔ آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسو بہہ رہے تھے۔

گوپی کا دل غمگساری سے بھر گیا۔ اس کی آنکھوں سے بھی آنسو کی دھار بہہ چلی۔

آخر آنچل سے آنکھیں سکھاکر، بھابھی نے پوجا ختم کر ٹھاکر کے چرنوں پر سرلگایا۔ پھر چرن امرت پان کرکے اٹھی، تو سامنے دیور کو ایک عجیب حالت میں کھڑا دیکھ کر پہلے تو اس کی آنکھیں پھیل گئیں، پھر دوسرے لمحے پلکیں جھپکنے لگیں۔ جیل سے واپس لوٹنے کے بعد گوپی ایک بار بھی بھابھی سے آنکھیں نہ ملا سکا تھا، تنہائی میں ملنے کی بات تو دور رہی۔ بھابھی ایک بار گوپی کی جانب حیران ہرنی کی طرح دیکھ کر بغل سے جانے لگی، تو گوپی نے ساری جرات بٹور کراپنے کانپتے ہوئے ہاتھ سے اس کی کلائی پکڑ لی۔ بھابھی کے منہ سے جیسے ایک چیخ سی نکل گئی،’’بابو!‘‘

گوپی کا چہرہ تمتما اٹھا۔ جذبات میں جلتا ہوا وہ کانپتے لہجے میں بولا،’’بھابھی، اب مجھ سے یہ سب نہیں دیکھا جاتا!‘‘

بھابھی اپنے دیور کو خوب جانتی تھی۔ اس کی ایک ہی بات، ایک ہی حرکت سے وہ اسکے اندر کی ساری باتیں جان گئی۔ اس کی آنکھوں کی ویرانی اور مجبوری پر خوشی کی ایک کرن پھوٹی اور پوشیدہ ہو گئی۔ وہ بھرائے لہجے میں بولی،’’میرے قسمت میں یہی لکھا تھا بابو۔‘‘ اور آنسوئوں کو امنڈنے سے روکنے کیلئے اس نے ہونٹوں کو دانتوں سے بھینچ لیا۔

’’ میں قسمت نصیب کی بات تو نہیں جانتا بھابھی ! میں تو صرف اپنے دکھ اور تمہارے دکھ کی بات جانتا ہوں۔ کیا ہم دونوں مل کر یہ دکھی زندگی ساتھ ساتھ نہیں کاٹ سکتے ہیں؟ اجڑے ہوئے دو دلوں کے ملنے پر کیا کوئی نئی دنیا نہیں بس سکتی؟‘‘ کہہ کر گوپی نے بھری آنکھوں سے پرزور درخواست کرکے بھابھی کی طرف دیکھا۔

بھابھی نے ایک ٹھنڈی سانس لی، دوسرے ہی لمحے اس کا چہرہ امید اور مایوسی کی دوہری مسکان سے عجیب سا ہو گیا۔ بولی،’’ایسا کبھی نہیں ہوا ۔۔۔بابو، ایسا بھی کیا ۔۔۔‘‘

’’ ایسا کبھی نہیں ہوا، اسی لیے آگے بھی کبھی نہیں ہو گا، یہ بات میں نہیں مانتا۔ بھابھی! میں تو بس یہی جانتا ہوں اور خوب سوچ سمجھ کر دیکھ بھی لیا ہے کہ اس کے سوا ہمارے تمہارے لئے کوئی دوسری راہ نہیں ہے! میں تمہاری اس حالت کی وجہ سے اپنی زندگی میں ایک پل کو بھی چین سے نہ رہ پائوںگا!‘‘ گوپی نے براہ راست دل کی بات کہہ کر نگاہیںنیچی کر لیں۔

اس کے دل کی تڑپتی سچائی کو بھابھی سمجھ نہ پائی ہو، یہ بات نہیں۔ دیور کے پیار سے یہ ہمیشہ دبی رہی ہے۔ اسی کا سہارا لے کر وہ آج بھی ایک ناممکنات کو اسی طرح گلے لگائے ہوئے ہے، جیسے بِچھّی اپنے پیٹ میں بچوں کو پالتی ہے۔ بِچھّی کی جان اس کے بچے لے لیتے ہیں یہی سوچ کر وہ ان سے اپنا گلا تو نہیں چھڑا لیتی! بھابھی کی جان بھی ایسے ہی نکل جائے گی، وہ جانتی ہے۔ پھر بھی اس ناممکنات کو اپنے دل سے ایک لمحے کے لیے بھی وہ الگ کہاں کر پائی ہے؟ آج کے اس موقع کا اسے مدتوں سے انتظار تھا۔ اس نے بہت بار یہ بھی سوچا تھا کہ ایسے موقع پر وہ کیا کہے گی۔ لیکن اب موقع سچ مچ اس کے سامنے آ گیا، تو اسے لگا کہ دل کی بات اس کے ہونٹوں پر آئی نہیں کہ دیور کے سامنے وہ چھوٹی ہو جائے گی۔ اس حالت میں اسے لگا کہ اس بات کو مجبور اً دبانا ہی پڑے گا۔ اس کی بے چینی دیور کو بھی معلوم ہے، اسے یہ بھی معلوم ہے کہ بھابھی اپنے پیارے دیور کے دلی پیار، سچی ہمدردی کا بوجھ برداشت سکنے میں آج کتنی لاچار ہے، وہ یہ بھی جانتا ہے کہ اسکے کئے ہی کچھ ہو سکتا ہے۔ بھلا بھابھی کیلئے ایسے دیور کی درخواست ٹھکرا دینا، اپنے آپ کو اور اس کے اب تک چلے آئے پیارکی ڈور میں بندھے تعلق کو توڑ دینا کیسے ممکن ہے؟ اتنا سب جان کر بھی بھابھی کے منہ سے کچھ قبول کروا کر اسے وہ چھوٹا کیوں بنانا چاہتا ہے۔

کشمکش میں پڑی بھابھی بولی،’’ہماراسماج، ہماری برادری، ہمارے ماں باپ ایسا کبھی نہیں ہونے دیں گے بابو!‘‘

’’ بھابھی، اس سب کو تم میرے اوپر چھوڑ دو، میں تو تم سے یہ جاننا چاہتا ہوں کہ جس راستے پر چلنے کامیں نے فیصلہ کر لیا ہے، اس پرتم بھی میرے ساتھ ساتھ چل سکوگی نہ!‘‘اتنا کہہ کر گوپی نے بھابھی کی کلائی اپنے ہاتھ میں دباکر اس کی طرف ایسے آنکھوں میں کلیجہ نکال کر دیکھا، جیسے اس کے جواب پر ہی اس کا زندگی اور موت منحصر ہو۔

بھابھی کے ہونٹوں میں کپکپاہٹ ہوئی۔ من کی بات ہونٹوں پر آکر ابلنے لگی۔ لیکن پھر بھی، لاکھ جرات بٹورنے کے بعد بھی منہ سے کچھ نکل نہ سکا۔ اس کے دل منہ تک آئی بات کو جیسے پی گیا۔ دل کی طوفانی دھڑکن پر قابو پانے کیلئے اس نے اپنا تمتمایا، کانپتا چہرہ نیچے کر لیا۔ اور گوپی کو گویا جواب مل گیا۔ اس کے جی میں آیا کہ بھابھی کوکھینچ کر اپنے سینے سے لپٹا لے۔ اس کے ہاتھ میں کچھ حرکت بھی ہوئی، لیکن دوسرے ہی لمحے وہ خودکو روکنے کیلئے ہی بھابھی کی کلائی چھوڑکر، تیزی سے باہر چلا گیا۔

بھابھی متلاطم دل کو تسلسل میں لانے کے لئے ٹھاکر کے چرنوں میں گر کربے قابو ہوکر رو پڑی، ’’ بھگوان! بھگوان! کیا سچ ہی ۔۔۔‘‘

گوپی ماں باپ کے سامنے جا کر کھڑا ہو گیا۔ باپ نے اس کی طرف دیکھ کر پوچھا،’’دانہ میسنا اب کتنا رہ گیا، بیٹا؟‘‘

’’ آج ختم ہو گیا، بابوجی۔‘‘

’’ اچھا، تو ُجا، ہاتھ منہ دھو لے۔ بھابھی نے روٹی سینک لی ہو، تو گرم گرم کھا لے۔ دن بھر کا تھکا ہارا ہے۔‘‘پھر اپنی عورت کی طرف دیکھ کر کہا،’’فصل گھر آ جاتی ہے، تو کسان کی سال بھر کی محنت کامیاب ہو جاتی ہے۔ کام سے ذرا فرصت پاکر اس دن وہ آرام کی ایک سانس لیتا ہے۔‘‘

’’ بابوجی۔‘‘

باپ نے مڑکر پھر گوپی کی طرف دیکھ کر کہا،’’کیا کہتا ہے؟ کوئی بات ہے؟‘‘

’’ ہاں۔‘‘

’’ تو کہو!‘‘

’’ بابوجی، اب میں گھر بسائوںگا۔‘‘

’’ یہ تو بڑی خوشی کی بات ہے، بیٹا! ہم تو تمہاری اسی بات کا، جب سے تم آئے،اسی کا انتظار کر رہے تھے۔ کر ہی لو۔ طے کرتے کتنی دیر لگے گی! کتنے آ آکر چلے گئے۔ اوہ ہاں، مٹرو ادھر مہینوں سے نہیں آیا۔ کہہ گیا تھا، میں ہی گوپی کا بیاہ کرائوںگا۔ بھول گیا ہوگا۔ دانے میسنے سے آج کل کس کسان کو کہاں کسی بات کی فکر رہ جاتی ہے! ٹھیک ہے، اب سب ٹھیک ہو جائے گا، بیٹا! تجھے کوئی فکر کرنے کی ضرورت نہیں!‘‘ پھر اپنی عورت کی طرف مڑکر خوشی سے پاگل ہوتے ہوئے بولے،’’ کھیت کی دولت کٹ کٹ کر جب گھر آ جاتی ہے تو کسان کی توجہ کھیت سے ہٹ کر گھر میں آ جاتی ہے! کیوں گوپی کی ماں؟‘‘

ماں خوشی میں پھولی ہوئی اپنے آنچل سے اپنے لاڈلے کے منہ پر جمی دھول گرد کو پونچھتے ہوئی بولی،’’سو تو ہے ہی گوپی کے بابوجی! گھربھرتا ہے تو پیٹ بھرتا ہے، اور جب پیٹ بھرتا ہے تو ۔۔۔‘‘اور وہ زور زور سے کھی کھی کرکے ہنس پڑی، تو بوڑھے بھی ہو ہو کر اٹھے۔

’’ لیکن بابوجی ۔۔۔‘‘سر جھکائے،ہاتھوں کو الجھاتا گوپی بولا۔

’’ تم فکر نہ کرو، بیٹا! سب ٹھیک ہو جائے گا بیٹا! میری برادری سے تعلق کرنے کا لالچ کس میں نہیں؟ ابھی کچھ نہیں بگڑا ہے۔ تو لائق بن کر رہے گا، تو سب بگڑی بن جائے گی۔ وہی دیکھنے کو تو ابھی تک میں زندہ ہوں۔ کیوں گوپی کی ماں؟‘‘

’’ اور نہیں تو کیا؟ میرا لال سلامت رہے، تو پھر گھرافشاںبھر جائیگی۔ اوہ میرے بھگوان !‘‘ اور بوڑھی نے دونوں ہاتھ پیشانی سے لگا لئے۔

’’ مگر بابوجی،’’سوکھتے حلق کے نیچے تھوکنے اتارتاہوا گوپی بولا،’’میں ۔۔۔میں نے ۔۔۔مجھے ۔۔۔مجھے ۔۔۔اپنا گھر بسانے کیلئے کسی دوسری لڑکی کو نہیں لانا ہے۔ میں نے فیصلہ کیا کہ بھابھی ۔۔۔‘‘

’’ کیا؟‘‘ غصے میں کانپتے پِتا ایسے چیخ پڑے کہ ان کی آنکھیں نکل آئیں۔ ماں جیسے دفعتاً جم کر پتھر ہو گئی۔ اس کا منہ اور آنکھیں حد سے زیادہ پھیل گئیں۔ باپ نے گرج کر کہا،’’میرے جیتے جی اگر تو نے یہ بات پھر منہ سے نکالی، تو ۔۔۔تو ۔۔۔تو سن لے، وہ میرے گھر کی دیوی ہو سکتی ہے، لیکن بہو ۔۔۔بہو وہ مانک کی ہی رہے گی۔ تو نے اگر ۔۔۔اوہ، مانک کی ماں؟‘‘ ان کا غصے میں اٹھا ہوا اوپری جسم کانپتا ہوا کٹے درخت کی طرح دھم سے گر پڑا اور وہ دونوں گھٹنوں پر ہاتھ رکھتے زور سے کراہ اٹھے۔ ماں سلگتی ہوئی آنکھوں سے گوپی کی جانب دیکھتی، غصے سے کانپتی ان کے گھٹنوں کو سہلانے کی بیکار کوشش کرنے لگی۔

بوڑھے کی کڑک دار آواز سن کر کئی آدمی لپک آئے۔ بھابھی دروازے پر آکر ہونٹ چبانے لگی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

گوپی ہاتھوں سے سر پکڑے وہاں سے ہٹ گیا۔

Facebook Comments

عامر صدیقی
لکھاری،ترجمہ نگار،افسانہ نگار،محقق۔۔۔ / مائکرو فکشنسٹ / مترجم/شاعر۔ پیدائش ۲۰ نومبر ۱۹۷۱ ؁ ء بمقام سکھر ، سندھ۔تعلیمی قابلیت ماسٹر، ابتدائی تعلیم سینٹ سیوئر سکھر،بعد ازاں کراچی سے حاصل کی، ادبی سفر کا آغاز ۱۹۹۲ ء ؁ میں اپنے ہی جاری کردہ رسالے سے کیا۔ ہندوپاک کے بیشتر رسائل میں تخلیقات کی اشاعت۔ آپ کا افسانوی مجموعہ اور شعری مجموعہ زیر ترتیب ہیں۔ علاوہ ازیں دیگرتراجم و مرتبہ نگارشات کی فہرست مندرجہ ذیل ہے : ۱۔ فرار (ہندی ناولٹ)۔۔۔رنجن گوسوامی ۲ ۔ ناٹ ایکیول ٹو لو(ہندی تجرباتی ناول)۔۔۔ سورج پرکاش ۳۔عباس سارنگ کی مختصرسندھی کہانیاں۔۔۔ ترجمہ: س ب کھوسو، (انتخاب و ترتیب) ۴۔کوکلا شاستر (ہندی کہانیوں کا مجموعہ ) ۔۔۔ سندیپ میل ۵۔آخری گیت اور دیگر افسانے۔۔۔ نینا پال۔۔۔۔ (انتخاب و ترجمہ) ۶ ۔ دیوی نانگرانی کی منتخب غزلیں۔۔۔( انتخاب/ اسکرپٹ کی تبدیلی) ۷۔ لالٹین(ہندی ناولٹ)۔۔۔ رام پرکاش اننت ۸۔دوڑ (ہندی ناولٹ)۔۔۔ ممتا کالیا ۹۔ دوجی میرا (ہندی کہانیوں کا مجموعہ ) ۔۔۔ سندیپ میل ۱۰ ۔سترہ رانڈے روڈ (ہندی ناول)۔۔۔ رویندر کالیا ۱۱۔ پچاس کی دہائی کی بہترین ہندی کہانیاں(۱۹۵۰ء تا ۱۹۶۰ء) ۔۔۔۔(انتخاب و ترجمہ) ۱۲۔ ساٹھ کی دہائی کی بہترین ہندی کہانیاں(۱۹۶۰ء تا ۱۹۷۰ء) ۔۔۔۔(انتخاب و ترجمہ) ۱۳۔ موہن راکیش کی بہترین کہانیاں (انتخاب و ترجمہ) ۱۴۔ دس سندھی کہانیاں۔۔۔۔ (انتخاب و ترجمہ) ۱۵۔ قصہ کوتاہ(ہندی ناول)۔۔۔اشوک اسفل ۱۶۔ ہند کہانی ۔۔۔۔جلد ایک ۔۔۔۔ (انتخاب و ترجمہ) ۱۷۔ ہند کہانی ۔۔۔۔جلد دوم۔۔۔۔ (انتخاب و ترجمہ) ۱۸۔ ہند کہانی ۔۔۔۔جلد سوم ۔۔۔۔ (انتخاب و ترجمہ) ۱۹۔ہند کہانی ۔۔۔۔جلد چہارم ۔۔۔۔ (انتخاب و ترجمہ) ۲۰۔ گنگا میا (ہندی ناول)۔۔۔ بھیرو پرساد گپتا ۲۱۔ پہچان (ہندی ناول)۔۔۔ انور سہیل ۲۲۔ سورج کا ساتواں گھوڑا(مختصرہندی ناول)۔۔۔ دھرم ویر بھارتی ۳۲ ۔بہترین سندھی کہانیاں۔۔۔ حصہ اول۔۔۔۔ (انتخاب و ترجمہ) ۲۴۔بہترین سندھی کہانیاں ۔۔۔ حصہ دوم۔۔۔۔ (انتخاب و ترجمہ) ۲۵۔سب رنگ۔۔۔۔ حصہ اول۔۔۔۔(مختلف زبانوں کی منتخب کہانیاں) ۲۶۔ سب رنگ۔۔۔۔ حصہ دوم۔۔۔۔(مختلف زبانوں کی منتخب کہانیاں) ۲۷۔ سب رنگ۔۔۔۔ حصہ سوم۔۔۔۔(مختلف زبانوں کی منتخب کہانیاں) ۲۸۔ دیس بیرانا(ہندی ناول)۔۔۔ سورج پرکاش ۲۹۔انورسہیل کی منتخب کہانیاں۔۔۔۔ (انتخاب و ترجمہ) ۳۰۔ تقسیم کہانی۔۔۔۔حصہ اول۔۔۔۔(انتخاب و ترجمہ) ۳۱۔سورج پرکاش کی کہانیاں۔۔۔۔(انتخاب و ترجمہ) ۳۲۔ذکیہ زبیری کی بہترین کہانیاں(انتخاب و ترجمہ) ۳۳۔سوشانت سپریہ کی کہانیاں۔۔۔۔(انتخاب و ترجمہ) ۳۴۔منتخب پنجابی کہانیاں ۔۔۔۔حصہ اول۔۔۔۔(انتخاب و ترجمہ) ۳۵۔منتخب پنجابی کہانیاں ۔۔۔۔حصہ دوم۔۔۔۔(انتخاب و ترجمہ) ۳۶۔ سوال ابھی باقی ہے (کہانی مجموعہ)۔۔۔راکیش بھرامر ۳۷۔شوکت حسین شورو کی سندھی کہانیاں۔حصہ اول۔۔۔۔(انتخاب و ترجمہ) ۳۸۔شوکت حسین شورو کی سندھی کہانیاں۔حصہ دوم۔۔۔۔(انتخاب و ترجمہ) ۳۹۔شوکت حسین شورو کی سندھی کہانیاں۔حصہ سوم۔۔۔۔(انتخاب و ترجمہ) تقسیم کہانی۔ حصہ دوم(زیرترتیب ) گناہوں کا دیوتا(زیرترتیب ) منتخب پنجابی کہانیاں حصہ سوم(زیرترتیب ) منتخب سندھی کہانیاں حصہ سوم(زیرترتیب ) کبیر کی کہانیاں(زیرترتیب )

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply