جہاں جنوں/عارف خٹک

میرا بڑا تایا زاد منشیات فروش تھا سو پیسوں کی ریل پیل تھی۔ اچھے وقتوں میں اس کے کسی جاننے والے نے اس سے دو ہزار روپے ادھار لیا تھا کہ کبھی اچھا وقت آیا تو لوٹا دونگا۔ نشئیوں پر آج تک اچھا وقت کبھی آتے نہیں دیکھا، سو سالوں سے اس کے پیسے بھی ڈوبے رہے۔ ایک دن گھر میں اس کے اپنے حالات اچھے نہیں رہے کہ بیگم نے سونے کی چوڑیوں کی فرمائش کی۔ پولیس کے چھاپوں سے بزنس بھی ٹھپ ہوگیا تھا۔ کھاتے کھول کر پرانے حساب کتاب لیکر بیٹھ گیا کہ کس سے کتنے لینے ہیں۔ صفحات پلٹتا گیا کہ برسوں پرانے دو ہزار پر نظریں اٹک گئیں۔ غصے سے لال پیلا ہوتے ہوئے پستول اٹھائی کہ ایک ماہ کی مہلت پر دو ہزار لئے تھے اور دو سال ہوگئے کہ پیسے واپس نہیں کیے۔

میں یونیورسٹی سے چھٹیوں پر آیا تھا۔ گھر کے دروازے پر دھوپ سینک رہا تھا کہ آواز دی۔ چل آ بائیک پر بیٹھ۔۔

غصے میں تھا پوچھا نہیں کہ کہاں بس ایک بات کا ڈر تھا کہ ابا نہ دیکھ لیں ،کیونکہ تایازاد کیساتھ بیٹھنے کی سخت ممانعت تھی کہ کہیں اپنا کردار نہ خراب ہو۔

گاؤں کی  کچی پکی ناہموار سڑکوں پر بائیک دوڑاتا رہا اور ساتھ میں مغلظات بکتا رہا کہ آج اس بے غیرت کو چھوڑوں گا نہیں۔ میں کانپ رہا تھا کہ بھائی نے اگر کسی کا قتل کیا تو میں تو مفت میں مارا گیا۔

تین گاؤں چھوڑ کر چوتھے گاؤں، اس کے مقروض کے گھر جا پہنچے۔ موٹر سائیکل کھڑی کی، بھائی غصے میں بائیک سے نیچے اُترا اور دروازے پر ہاتھ مارنے والا تھا کہ اندر سے ایک نسوانی آواز آئی۔

“اللہ غارت کرے میرے والدین کو جنہوں نے تیرے پلے باندھ دیا۔ دو دن سے گھر میں آٹا نہیں ہے۔۔۔ پڑوسیوں سے مانگ مانگ کر بچوں کو کھلا رہی ہوں، اپنی بات ہوتی تو صبر کرلوں، مگر ان معصوموں کا کیا جرم ہے؟

آگے سے مرد کی منمناتی آواز آئی۔

“کیا کروں میں بھی اب تنگ آگیا ہوں کوئی مزدوری ہی نہیں دیتا کہ چرسی ہے ہاتھ پیر کانپ رہے ہیں۔”

عورت کی آواز آئی

“اللہ غارت کرے منشیات فروشوں کو جو یہ زہر بیچ رہے ہیں۔ جیتے جی مار دیتے ہیں یہ ظالم۔”

بھائی کا ہاتھ اُٹھا کا اُٹھا  رہ گیا۔ جیسے اس کیلئے کوئی فیصلہ کرنا مشکل ہورہا تھا۔

تیزی سے واپس پلٹا،بائیک پر بیٹھا اور ایک گھنٹے بعد دس ہزار کا راشن گدھا گاڑی پر ڈھوتا ہوا واپس اس گھر کے سامنے تھا جہاں سے دو ہزار لینے تھے۔
دروازہ کھٹکھٹایا، آواز دی
“میر محمد سے کہنا عابد آیا ہے”۔
اندر خاموشی چھا گئی۔
تھوڑی دیر کے بعد عورت کی لجاتی آواز آئی۔
“بھیا میر محمد پچھلے ایک ہفتے سے گھر نہیں ہے۔”

Advertisements
julia rana solicitors

بھائی کو پہلی بار مسکراتے دیکھا۔ کانپتی آواز میں جواب دیا
“بھابھی باہر سامان پڑا ہے اندر لیجائیں اور میر محمد سے کہیں اگلے ماہ پیسے نہیں دیئے تو گولی ماردونگا”۔
میں حیرت سے بھائی کو دیکھ رہا تھا جس کا پورا جسم لرز رہا تھا۔

Facebook Comments

عارف خٹک
بے باک مگر باحیا لکھاری، لالہ عارف خٹک

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply