کِس قیامت کے یہ نامے میرے نام آتے ہیں ۔۔سید واثق گردیزی

خطوط کی اہمیت و تاریخ کے حوالے  سےجہاں تک اردو کا تعلق ہے،اردو میں مکتوب نگاری کا رواج فورٹ ولیم کالج کے قیام سے بھی بہت پہلے سے تھا ۔ عام طور پر رجب علی بیگ سرور اور غلام غوث بے خبر کو اردو کا پہلا مکتوب نگار کہا جاتا ہے، لیکن ڈاکٹر لطیف اعظمی نے اپنے مقالے ’’اردو مکتوب نگاری‘‘ میں بعد از تحقیق یہ بات ثابت کی ہے کہ کرناٹک میں ارکاٹ کے نواب والا جاہ کے چھوٹے بیٹے حسام الملک بہادر نے اپنی بڑی بھابھی نواب بیگم کے نام 6 ڈسمبر 1822 ء کو خط لکھاتھا۔ ڈاکٹر لطیف اعظمی کی تحقیق کے مطابق یہ اردو کا پہلا خط ہے۔ گیان چند جین اور عنوان چشتی نے بھی اس تحقیق کی تائید کی ہے۔

خلیق انجم نے اپنے مضمون ’’غالب اور شاہانِ تیموریہ‘‘ میں جان تپش (م 1814 ء) اور راسخ عظیم آبادی (م 1822 ء) دونوں کی باہمی مراسلت کا تذکرہ کیا ہے اور دونوں کے خطوط دریافت بھی ہوئے ہیں یعنی ظاہر ہے یہ خطوط 1814 ء سے پہلے کے ہیں تو ان کی قدامت ثابت ہوجاتی ہے۔ پروفیسر ثریا حسین کی تحقیقی تصنیف’’گارساں دتاسی اردو خدمات اور علمی کارنامے‘‘ میں انہوں نے دتاسی کی کتاب ’’ضمیمۂ ہندوستانی کی مبادیات ‘‘ کا تعارف کروایا اس میں گارساں دتاسی نے اردو کے 18 خطوط شامل کیے  ہیں ،جو ہندوستان کے مختلف علاقوں سے لکھے گئے ۔ اس میں قدیم ترین  خط جنوری 1810 ء کا ہے ۔ مکتوب نگار افتخار الدین علی خان شہرت (جو کبھی فورٹ ولیم کالج میں ملازم تھے) ہیں جبکہ مکتوب الیہ کوئی منشی ہے ۔ علاوہ ازیں حیدرآبادی شاعر شیر محمد خان ایمان کی کلیات 1806 ء میں شائع ہوئی جس میں ایک منظوم خط ہے جو کسی نثری مکتوب کے جواب میں ہے۔ مزید یہ کہ ایمان سے بھی بہت پہلے یعنی 1761 ء میں حیدرآباد کے دو منصب دار مرزا یار علی بیگ اور میر ابراہیم جیوان دونوں کے ایک دوسرے کے نام منظوم خطوط دریافت ہوئے ہیں جو 1761 ء میں لکھے گئے ۔ ادارہ ادبیات اردو حیدرآباد کے کتب خانے میں یہ خطوط محفوظ ہیں۔

لہذا اردو مکتوب نگاری کی قدامت ابھی تحقیق طلب ہے اور حتمی طور پر آج بھی کہنا مشکل ہے کہ کونسا اردو کا اولین خط ہے کیونکہ اردو کی قدیم دکنی مثنویوں میں لکھے گئے فرضی خطوط بھی مراسلت کا ثبوت فراہم کرتے ہیں۔
اردو مکتوبات نگاری کو اہمیت البتہ غالب کی مکتوب نگاری سے حاصل ہوئی اگرچیکہ غالب سے پہلے 1886 ء میں مرزا رجب علی بیگ سرور نے ’’انشائے سرور‘‘ کے نام سے مجموعہ مکاتیب شائع کیا ہے ۔ ان خطوط کی عبارت بھی فسانہ عجائب ہی کی طرح ہے ۔ بعد ازاں خواجہ غلام غوث بے خبر کے دو مجموعہ کاتیب ’’فغان بے خبر‘‘ اور ’’انشائے بے خبر ‘‘ شائع ہوئے ۔ سرور غالب اور بے خبر یہ تینوں ہی ہم عصر تھے ۔ بے خبر کے بعض خطوط سرور کی طرح مسجع اور مقضیٰ ہوتے تھے اور بعض غالب کی طرح انتہائی سادہ ۔ اسی لیے بعض لوگ سادہ مکتوب نگاری کے معاملے میں بے خبر کو غالب کے بجائے اولیت دیتے ہیں۔  ۔ غالب اردو کے سب سے بڑے مکتوب نگار ہیں ۔ انہوں نے خط کو آدھی ملاقات قرار دیا اور مراسلے کو مالمہ بنادیا ، وہ شاعری میں جس قدر مشکل پسند تھے ،مکتوب میں اتنے ہی سادہ اور سہل نگار تھے ۔ ان کے بے شمار خطوط دستیاب ہوئے ہیں اور کئی مجموعے شائع ہوئے ہیں ۔ ’’عودِ ہندی‘‘ ، ’’اردوئے معلی‘‘ ، ’’مکاتیب غالب‘‘، ’’مہر غالب‘‘وغیرہ وغیرہ ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

غالب کے بعد تو مکتوب نگاری کو بڑی اہمیت حاصل ہوگئی جسے اردو نثر کی ایک باضابطہ صنف سمجھا جانے لگا۔ ان کے بعد سر سید احمد خان کے خطوط کا مجموعہ ’’مکاتیب سرسید‘‘ کے نام سے شائع ہوا۔ مولانا حالی کے خطوط کا مجموعہ ان کے فرزند خواجہ سجاد حسین نے 1925 ء میں مکاتیب حالی کے نام سے شائع کیا ۔اب ’’مکاتیبِ  حالی‘‘ مرتبہ اسماعیل پانی پتی موجود ہے۔ علامہ شبلی نعمانی کے مکاتیب ’’مکاتیب شبلی‘‘ کے نام سے دو جلدوں میں شائع ہوئے ہیں۔ ایک جلد میں علماء و مشاہیرین کے نام خطوط  ہیں اور دوسری میں عطیہ بیگم اور زہرہ بیگم۔ ان دوخواتین کے نام خطوط ہیں۔ مولانا آزاد کے مکاتیب ’’غبار خاطر‘‘ کے نام سے شائع ہوئے ہیں۔ صفیہ اختر کے خطوط ’’زیر لب‘‘ کے عنوان سے شائع ہوئے۔ مختصر یہ کہ مکتوب نگاری نے نثر کی ایک صنف کی حیثیت سے ادب میں جگہ پائی ہے ۔ البتہ اردو میں مکتوب نگاری کی قدامت ہنوز تحقیق طلب ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply