تاہم اسکے لیے تجربہ گاہ میں مختلف انسانوں کو کئی ماہ کرومائٹ کی بڑی مقدار میں ڈوز دینی تھی۔ اول مریخ پر کرومیم کی مقدار بے حد کم رہ گئی تھی اور دوسرا ایسا تجربہ انسانوں پر کرنا مریخ کے← مزید پڑھیے
حارث نے اپنی بیوی آرمینہ کو دور سے آواز دی۔ سنو! ان آلوؤں کو روبوٹ کو دیکر میرے پاس آؤ۔ تمہیں ایک دلچسپ چیز دکھاتا ہوں۔ آرمینہ نے آلوؤں کی باسکٹ پر بٹن دبایا اور وہ رینگتے ہوئے روبوٹ کی← مزید پڑھیے
مریخ کے ملک “جزیرو” کے باسی اس وقت بقا کی جنگ لڑ رہے تھے۔ اُنکے پاس محض دو سال کا وقت تھا۔ دو سال بعد ایک شہابِ ثاقب جو زمین کے مدار میں گھوم رہا تھا، کو زمین کے چاند← مزید پڑھیے
فورٹ براگ (کیلیفورنیا) کا شہر اگست کے مہینے میں انتہائی خوفناک ہو جاتا ہے، آپ اس کی ہوا میں موجود سلفر کی بدبو سونگھ سکتے ہیں حالانکہ حقیقت میں یہ سلفر نہیں ہے۔ یہ اٹھانوے فیصد نمی ہے، جس میں← مزید پڑھیے
شادی کے 3 سال بعد لان میں رات کی رانی سے اٹھتی خوشبو سے معطر فضا میں دہکتی لکڑیوں کے آلاؤ کے گرد بیٹھی اپنے مہربان، شفیق اور غمگسار شوہر کے ساتھ ضحی دور آسمان پر چودھویں رات کے چاند← مزید پڑھیے
ہے خوشی انتظار کی ہر دم میں یہ کیوں پوچھوں کب ملیں گے آپ کچھ منفرد، خوشنما، دلفریب احساس، طبیعت میں مچلتی سرشاری کے ساتھ چہرے پر بشاشت اور ہونٹوں پر دوڑتی مسکان نوید صبح دے رہی تھی ۔ جب← مزید پڑھیے
متفرقات جمنا کی زندگی کی کہانی ختم ہو چکی تھی اور ہم لوگوں کو اس کی زندگی کا ایسا خوشگوار حل دیکھ کر بہت اطمینان ہوا۔ ایسا لگا کہ جیسے تمام تردھاتی کشتے گھس گھس کر ٹھنڈے یافائدہ مند بنائے← مزید پڑھیے
متفرقات اس کہانی نے اصل میں ہم لوگوں کو متاثر کیا تھا۔ گرمی کے دن تھے۔ محلے کے جس حصے میں ہم لوگ رہتے ادھر چھتیں بہت تپتی تھیں، اس لئے ہم سب لوگ حکیم جی کے چبوترے پر سویا← مزید پڑھیے
ترتیب پہلی دوپہر۔۔۔۔نمک کی ادائیگی دوسری دوپہر۔۔۔۔گھوڑے کی نال تیسری دوپہر۔۔۔۔عنوان مانک ملّا نے نہیں بتایا چوتھی دوپہر۔۔۔۔مالوا کی یُورانی دیوسینا کی کہانی پانچویں دوپہر۔۔۔۔کالے دستے کا چاقو چھٹی دوپہر۔۔۔۔گزشتہ سے پیوستہ ساتویں دوپہر۔۔۔۔سورج کا ساتواں گھوڑا **** پہلی دوپہر← مزید پڑھیے
گھر آکر اداس مٹرو چٹائی پر پڑ رہا۔ اداس دھوپ پھیل گئی ہے۔ دودھ کے مٹکے ایک طرف پڑے ہیں۔ ان پر مکھیاں بھنبھنا رہی ہیں۔ تھکی ہوئی لکھنا کی ماں کو جیسے کوئی ہوش ہی نہیں۔ سچ مچ گھر← مزید پڑھیے
سولہ پڑتال کیا ہونی تھی، جو ہوتی۔ کتنی ہی دھاندلیوں کی طرح یہ بھی کسانوں کو ڈرانے دھمکانے کی ایک ذمہ دارانہ اورافسرانہ چال ہی تھی۔ اور پھر گنگا میا کی مایا کہ اس سال پانی ہٹا، تو دو دھارائیں← مزید پڑھیے
’’ کیا کہیں بیٹا، گھر میں ایک کرنے دھرنے والی تھی، وہ بھی ۔۔۔‘‘ ’’ وہ تو سن چکا ہو، بابوجی ۔۔۔‘‘ ’’ کیا بتاؤں، مٹرو بیٹا، ایسی لائق تھی وہ کہ اس کی یاد آتی ہے، تو کلیجہ پھٹ← مزید پڑھیے
منڈیر پر آگ سلگ رہی ہے، پاس ہی تمباکو اورکھینی رکھی ہوئی ہے۔ جو تمباکو پیتا ہے، وہ چلم بھر رہا ہے۔ جوکھینی کھاتا ہے، وہ خوردنی تمباکو پھٹک رہا ہے۔ تھوڑی دیر تک بوڑھے بوڑھیوں کی کھوںکھوں سے فضا← مزید پڑھیے
پھر کیا ہوا کچھ پتہ نہ چلا۔ سرکارکا دربار بہت دور ہے، جاتے جاتے پکار پہنچے گی، ہوتے ہوتے سماعت ہوگی۔ اس وقت تک کیا دِیّر میں کوئی نشان باقی رہ جائے گا؟ اور پھر کچھ ہوگا، تو دیکھا جائے← مزید پڑھیے
دس یہ کتنی ناممکن بات تھی، بھابھی جانتی تھی۔ پھر بھی اس بات کو اپنے دل میں پالے جا رہی تھی۔ آخر کیوں؟ آدمی کیلئے جینے کا سہارا اسی طرح ضروری ہے، جیسے ہوا اور پانی۔ کسی کے پاس کوئی← مزید پڑھیے
مٹرو کے منہ سے ایک لفظ نہیں پھوٹ رہا تھا۔ وہ تو کچھ اور سوچ کر چلا تھا۔ اسے کیا معلوم تھا کہ وہ کتنے ہی درد کے سوئے ہوئے تاروں کو چھیڑنے جا رہا ہے۔ آہستہ آہستہ کافی دیربعد← مزید پڑھیے
’’ کوئی بات نہیں۔ گنگا میا کی کرپا سے سب اچھا ہی کٹ رہا ہے۔ تم سب خیال رکھنا۔ زمیں داروں کے پنجوں میں کسان نہ پھنسیں، کوششیں کرتے رہنا۔ پھر تو آکر میں دیکھ ہی لوں گا۔ اور بتاؤ← مزید پڑھیے
بستی کی ہوا اسے اچھی نہ لگتی، جیسے ہرپل اسکا دم گھٹتا رہتا۔ جنگلی پھول کی طرح بستی میں مرجھایا مرجھایا سا رہتا۔ تمام وقت اس میدان، اس صاف ہوا، اس نرم مٹی، اس مفت دھوپ اور اسکی محبت کیلئے← مزید پڑھیے
دو تین سال کے اندر ہی مٹرو کی کٹیا بڑی ہو گئی۔ دودھ کیلئے جمناپاری بھینس اور ایک جوڑی بیل دروازے پر جھومنے لگے۔ مٹرو کا حوصلہ بڑھا۔ اس نے کھیتوں میں پھیلاؤ اور بھی بڑھا دیا اور اپنے ایک← مزید پڑھیے
چار پِتا جی اب سچ مچ بوڑھے ہو گئے۔ دونوں بیٹے کیا ان سے بچھڑ گئے، ان کے دونوں ہاتھ ہی ٹوٹ گئے! دل کے سارے رس کو درد کی آگ نے جلا دیا۔ کوئی جوش و خروش، امید نہیں← مزید پڑھیے