جنابِ وزیر اعلیٰ! وسیب ڈوب رہا ہے۔۔مظہر اقبال کھوکھر

اگر فیصلہ فیصلہ ، صوبہ صوبہ ، اقتدار اقتدار ، خط خط ، سیاست سیاست اور کرسی کرسی کے کھیل سے فرصت مل گئی ہو تو ایک نظر ان غریب بے بس اور پسے ہوئے لوگوں پر ڈال لیجئے صاحب! وسیب ڈوب رہا ہے۔

ضمنی انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف کی نمایاں کامیابی اور پنجاب اسمبلی میں اکثریت کے باوجود اقتدار کی کھینچا تانی کا گھناؤنا کھیل کھیل کر ملک اور قوم کو جس اذیت سے دو چار کیا گیا وہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد کچھ حد تک کم تو ہوگیا ہے مگر ابھی ختم نہیں ہوا۔ سیاسی رسہ کشی کے اس کھیل نے ہمیشہ ملک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا مگر نہیں معلوم مفادات اور جھوٹی انا کا یہ کھیل آخر کب تک جاری رہے گا۔ کیونکہ فی الحال ایسی کوئی صورت نظر نہیں آتی جس سے یہ امید رکھی جاسکے ہماری سیاسی قیادت اور ذمہ دار اداروں نے کوئی سبق حاصل کر لیا ہے۔

سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد پاکستان تحریک انصاف کی حمایت یافتہ امید وار مسلم لیگ قاف کے چوہدری پرویز الہی پنجاب کے وزیر اعلیٰ  بن گئے ہیں۔ ماضی میں عمران خان نے جسے سب سے بڑا ڈاکو قرار دیا تھا۔ حلف اٹھانے کے بعد پرویز الہیٰ  نے شکر گزاری کے طور پر پہلا دورہ بنی گالا کا کیا۔ جبکہ چیئرمین عمران خان کی ہدایت پر گزشتہ روز یوم تشکر منایا گیا۔ اس حوالے سے پنجاب بھر کے مختلف شہروں میں تقریبات منعقد کی گئیں۔ جشن منایا گیا۔ ڈھول کی تھاپ پر بھنگڑے ڈالے گئے۔ یہ بات درست ہے کہ پاکستان تحریک انصاف نے ملک کی تین بڑی اور کل بارہ جماعتی اتحاد پی ڈی ایم کے ساتھ اعصاب شکن معرکہ آرائی کے بعد یہ کامیابی حاصل کی۔ اس حوالے سے ان کا خوشی منانا بنتا بھی ہے۔ مگر غور طلب پہلو یہ ہے کہ اس وقت ملک جس سنگین صورتحال سے دوچار ہے۔ ہر گزرتا لمحہ عام آدمی کے لیے اذیت ناک اور تباہ کن ثابت ہورہا ہے۔ غریب آدمی کے لیے جینا مشکل اور مرنا اس سے بھی مشکل۔ ذمہ دار کون یہ بحث الگ ہے مگر ایسی تکلیف دہ صورتحال میں ہم اس قابل ہیں کہ خوشیاں اور جشن منا سکیں۔ مگر خوشی ایسی تھی جو سنبھالے نہیں سنبھلتی تھی۔ سو خوشی بھی منا لی اور جشن بھی ہوگیا۔ اب خدارا کچھ وقت نکالیے سرائیکی وسیب کی خبر لیجئے۔

پچھلے ایک ہفتے سے جاری شدید بارشوں کے نتیجے میں وسیب کے مختلف علاقوں ڈیرہ غازیخان ، راجن پور ، روجھان ، شادن لنڈ ، جام پور ، تونسہ سمیت کئی علاقوں میں سیلابی ریلوں نے شدید تباہی مچا رکھی ہے۔ پہاڑوں کی ہزاروں فٹ بلندی سے رودکوہیوں میں جس رفتار سے پانی آتا ہے۔ اس کے سامنے کسی چیز کا ٹھہرنا ناممکن ہوتا ہے۔ ان تباہ کاریوں کی سب سے بڑی وجہ پچھلے کئی سالوں سے ان رود کوہیوں کے گرد حفاظتی بندوں کی تعمیر و مرمت کو نظر انداز کرنا سب سے اہم ہے۔

یہی وجہ ہے اب تک سینکڑوں بستیاں اس کی لپیٹ میں آچکی ہیں۔ ہزاروں مکان زمین بوس ہو چکے ہیں۔ کئی ہزار خاندان بے گھر ہو چکے ہیں۔ کھلے آسمان تلے بیٹھے لوگ امداد کے منتظر ہیں۔ نہ ان کے پاس خیمے ہیں اور نہ کھانے پینے اور ضروریات زندگی کی کوئی اشیا۔ اب تک کی خبروں کے مطابق معصوم بچوں سمیت درجنوں لوگ اس سیلابی ریلے کی نذر  ہوچکے ہیں۔

ایک لمحے کو غور کیجئے ایسی کوئی صورتحال لاہور یا اسلام آباد میں بنی ہوتی توکیا ملک میں ایسی خاموشی یا بے حسی چھائی ہوتی۔؟ اور اگر کراچی میں ایسا کچھ ہوتا تو کیا اس پر سیاست نہ کی جارہی ہوتی۔ مگر افسوس یہ سب وسیب میں ہورہا ہے۔ شاید یہاں انسان نہیں کیڑے مکوڑے رہتے ہیں۔ اس لیے کسی کو رتی برابر احساس نہیں۔ نہ کوئی لانگ بوٹ پہن کر نکلا نہ کوئی چھتری لے کر نکلا نہ کوئی کشتی لے کر آیا نہ ہیلی کاپٹر والوں کو خبر ہوئی۔ وسیب میں موت کا کھیل جاری ہے وہاں سیاست سیاست كهیلی جارہی ہے۔ وسیب کے لوگ جان بچانے کی  جدوجہد  کر رہے ہیں اور وہاں اقتدار بچانے کی جنگ چل رہی ہے۔ این ڈی ایم اے نہیں معلوم کہاں ہے ،نہیں معلوم اس ملک میں قدرتی آفات سے نمٹنے کے کوئی ادارے موجود بھی ہیں ۔ کوئی ادارے تو کیا یہاں تو ہمارے ووٹوں سے اپنی سات پشتیں سنوارنے والے ہمارے ڈوبتے بچوں کا پرسہ تک دینے نہیں آئے۔ کیونکہ ابھی نہ تو یہاں کوئی الیکشن ہونے والے ہیں نہ تو کسی کو کوئی حمایت درکار ہے۔ حیرت تو اس بات پر ہے کہ  کروڑوں روپے میں ضمیر خریدنے والے بھی نظر نہیں آرہے کاش وہ کسی مردہ ضمیر کو خرید کر امداد کے منتظر وسیب کے لوگوں کی کوئی مدد کر دیتے۔

ایسا نہیں ہے کہ وسیب کے ساتھ یہ امتیازی سلوک پہلی بار ہورہا ہے۔ ستر برس کی تاریک ترین تاریخ کے سیاہ ورق کھول کر اپنی محرومیوں کی داستان نہ بھی بیان کرنا چاہیں تو ابھی چند دن پہلے رحیم یار خان کی تحصیل صادق آباد کے علاقے ماچھکا کے مقام پر دریاۓ سندھ میں باراتیوں سے بھری کشتی ڈوب گئی۔ جس کے نتیجے میں پچاس کے قریب قیمتی جانیں ضائع ہوگئیں۔ مگر مرکز اور پنجاب سے کسی کو اتنی توفیق نہیں ہوئی کہ وہ ماچھکا پہنچ کر متاثرین کی دلجوئی کریں۔ افسوس تو اس بات کا ہے ہمارے حکمران بيانات کی حد تک اظہار ہمدردی کے دو بول بھی نہیں کہہ سکے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ممکن ہے میری یہ باتیں ارباب اقتدار و اختیار کو گراں گزریں مگر ڈوبتے بچوں ، سسکتی ماؤں ، اجڑتے گھروں اور در بدر لوگوں کا دکھ دیکھ کر خاموش نہیں رہا جاسکتا آج پاکستان کی تمام چھوٹی بڑی سیاسی جماعتیں اقتدار میں ہیں   مگر وسیب کے ساتھ امتیازی اور غیر انسانی سلوک اسی طرح جاری ہے۔ یہی رویے دلوں میں نفرت اور فاصلے پیدا کرتے ہیں جس کے نتائج انتہائی خطرناک اور تباہ کن ہوتے ہیں۔ اس لیے وقت کی اہم ضرورت ہے کہ سیاست سیاست کھیلنا بند کرکے وسیب میں جاری موت کا کھیل روکنے کے لیے کوئی سدباب کیا جائے۔ خاص طور پر نو منتخب وزیر اعلی پرویز الہی ماچھکا اور دریائے سندھ کے مغربی کنارے پر وسیب کے علاقوں راجن پور اور ڈیرہ غازیخان کا ہنگامی دورہ کر کے ریلیف اور بحالی کے لیے خصوصی فنڈ جاری کریں۔ کیونکہ ابھی وسیب کے لوگ جشن منانے کے نہیں زندہ بچ جانے کے جتن کر رہے ہیں۔

Facebook Comments

مظہر اقبال کھوکھر
لکھنے کے لیے جیتا ہوں اور جینے کے لیے لکھتا ہوں ۔۔۔! مظاہر قلم

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply