نیو خان بمقابلہ منٹھار بس سروس۔۔محمد اسلم خان کھچی

کوئی آج سے دس برس پہلے تک لاہور سے صادق آباد تک نیو خان ٹرانسپورٹ کمپنی کے نام سے ایک بس سروس مسافروں کو اپنی خدمات مہیا کرتی تھی۔ نیو خان شاید پورے پاکستان میں تھی لیکن میں صرف اپنے علاقہ کی بات کروں گا۔ میرا آبائی علاقہ میتلا چوک تحصیل میلسی ہے۔لاہور سے کراچی جاتے ہوئےجب خانیوال کراس کرتے ہیں، تو جہانیاں اور پھر میتلا چوک آتا ہے۔میتلا چوک بنیادی طور پہ ملتان دہلی روڈ اور لاہور کراچی روڈ کا سنگم ہے۔ یہاں کی زمینیں چونکہ معروف سیاسی خاندان”میتلا”برادری کی ملکیت ہیں اس لیے اس معروف چوک کا نام میتلا چوک رکھ دیا گیا۔

جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے لاہور اور لودھراں کو ملانے کیلئے کوئی تیس سال پہلے اس بائی پاس کی تعمیر شروع کی گئی کیونکہ مجھے اس سے پہلے یاد نہیں پڑتا کہ کبھی میں نے زندگی میں نیو خان ٹرانسپورٹ کمپنی کی کوئی بس دیکھی ہو ۔ ملتان آنے کیلئے ہم راکٹ بس یا ڈڈو بس استعمال کرتے۔ اس وقت ڈڈو بس ہی ہمارے لیے بوئنگ 737 تھی۔ جس دن ملتان آنا ہوتا تو ہم بہت مخمور سی تیاری کرتے۔ رات کو اکلوتا kT 4000 کا سفید سوٹ دھوتے اور صبح کوئلے والی استری گرم کرکے سوٹ پریس کیا جاتا۔ پورے گاؤں کو بہانے بہانے بتایا جاتا کہ کل میں نے ملتان جانا ہے۔ خیر صبح سویرے تیار ہو کے دوچار دوستوں کے جھرمٹ میں بڑی شان بے نیازی سے مین روڈ پہ آتے اور گھنٹہ دو گھنٹے انتظار کے بعد ڈڈو بس مل جاتی اور وہ خراماں خراماں ,شرماتی, لجاتی ہمیں ملتان پہنچا دیتی۔

جیسے ہی خانیوال لودھراں بائی پاس کی تعمیر مکمل ہوئی تو نیو خان ٹرانسپورٹ کمپنی کی بسیں چلنا شروع ہو گئیں۔ بسیں کیا تھیں بس ہمیں F-16 لگتی تھیں۔ 72 سیٹوں والی لمبی لمبی بسیں حیران کر دینے والے ہارن کے ساتھ اچانک میتلا چوک پہ ایسے پہنچتیں کہ ایک طوفان برپا ہو جاتا۔ ڈرائیور کی خوبی یہ تھی کہ پوری سپیڈ کے ساتھ چوک کراس کرتا اور اچانک بریک لگاتا اور بس بغیر کسی چرچراہٹ کے رک جاتی۔ بس اڈہ پہ ہٹو بچو کی آواز سنائی دیتی۔ماحول بڑا مسحورکن سا لگتا تھا۔ ڈرائیور گیٹ کے اوپر پائلٹ گیٹ لکھا ہوتا۔ڈرائیور ایک شان بے نیازی پہ گلے میں تہہ شدہ مفلر ڈالے ایک مخصوص سٹائل میں 30 ڈگری کے اینگل پہ سیٹ پہ براجمان ہوتا۔ نخوت بھری نظروں سے دائیں پائیں دیکھتا ہوا سگریٹ کے کش لگاتا ہوا دھوئیں کے مرغولے چھوڑتا۔ اگر کوئی بلانے کی یا بات کرنے کی کوشش کرتا تو وہ اتنی غصے والی نظروں سے دیکھتا کہ بات کرنے کی کوشش کرنے والا جھینپ سا جاتا۔ آج کل کے ایم این اے یا ایم پی اے سے اسکی ” ٹور”بہت زیادہ تھی۔ اگر کسی کا کوئی ڈرائیور دوست ہوتا تو بات بے  بات اس کا تذکرہ ضرور چھیڑتا۔ قصہ مختصر۔۔۔ اس وقت کا ڈرائیور آج کے فائِٹر پائلٹ سے زیادہ پُرکشش لگتا تھا۔ اسے دیکھ کے میرے بھی دل میں اکثر خواہش پیدا ہوتی کہ کاش میں بھی کبھی اس دیوہیکل بس ٹائپ عفریت کو ڈرائیو کر سکوں۔

اس بس سروس کی خوبی یہ تھی کہ یہ گھنٹوں کا سفر منٹوں میں طے کرتی اور سنگل روڈ پہ ڈرائیور کے اشاروں پہ بندر کی  طرح ناچتی پھرتی۔ ان کی کراسنگ کا انداز اتنا خوفناک ہوتا کہ فرنٹ سیٹ پہ بیٹھے لوگوں کی چیخیں نکل جاتیں ۔کمزور دل افراد فرنِٹ سیٹ پہ بیٹھ کے سفر کرنے سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔ جس حساب  سے یہ ڈرائیو کی جاتیں۔ اسی طرح حادثات بھی ہوتے اور انسانی جانوں کا ضیاع بھی ہوتا لیکن ان ڈرائیورز کی ایک خوبی تھی کہ میں نے کبھی کسی ڈرائیور کو کسی حادثے میں مرتے نہیں دیکھا جبکہ پوری کی پوری بس تباہ ہو جاتی۔ اس وقت صرف ایک ہی کمپنی کا راج تھا لاہور سے صادق آباد تک کہ اچانک ہی ایک نئی بس سروس “منٹھار بس سروس “وجود میں آگئی۔ فیصل آباد سے صادق آباد ان کا روٹ تھا۔ کمالیہ سے نیو خان اور منٹھار کی بسیں اکٹھی ہو جاتیں  اور ان کے درمیان ایک خوفناک قسم کی ریس شروع ہو جاتی۔ سنگل روڈ پہ قبضہ جمائے دونوں بسیں کئی کئی کلومیٹر تک ایک دوسرے کے برابر دوڑائی جاتیں۔ ارد گرد کی ٹریفک سے بے نیاز, سامنے سے آنی والی ٹریفک سے بے نیاز پوری سپیڈ کے ساتھ ایک دوسرے کے برابر رہتیں۔بس سامنے سے آنے والے ٹرک ڈرائیورز یا کار ڈرائیورز کی اپنی ہمت ہوتی تھی کہ وہ خود کو ان آہنی شکنجوں سے بچا لے۔ جو کوئی ڈرائیور ضد کرتا کہ ان میں سے کسی ایک کو لائن پہ لے آئے گا۔ وہ یا تو بری طرح کچلا جاتا یا روڈ کے ساتھ لگے درختوں میں پایا جاتا۔ خوفناک قسم کے حادثات ہوتے۔ درجنوں لوگ مرتے لیکن ان کمپنیوں کے مالکان تک جوں تک نہ رینگتی۔

یہ سلسلہ کئی سال چلتا رہا لیکن وقت بڑا بے رحم ہے، بڑے بڑے ظالموں کو صفحہ ہستی سے مٹا دیتا ہے۔ ان ٹرانسپورٹ کمپنیوں نے کئی گھر اجاڑے۔ منٹھار کی حادثات کی شرح بہت زیادہ تھی۔ جب کسی منٹھار کمپنی کی بس کا ایکسیڈنٹ ہوتا تو لوگ نام سن کے ہی کہہ  دیتے کہ کوئی نہیں بچا ہوگا۔۔۔ خیر یہ ٹرانسپورٹ کمپنیاں معدوم ہوتی گئیں۔ منٹھار تو اب کبھی پورے پاکستان میں کہیں نظر نہیں آتی شاید فیصل آباد میں کہیں ہو البتہ نیو خان نے اپنی اسٹریٹجی تبدیل کر کے اپنا وجود کہیں نہ کہیں برقرار رکھا ہے۔۔

آج کل یہی حال پاکستان کی سیاسی پارٹیوں کا ہے۔ ن لیگ پی ٹی آئی پیپلز پا رٹی۔
ن لیگ پہ الزام ہے کہ اس نے ملک لوٹا۔ پیپلزپارٹی فی الحال لوکل ٹرانسپورٹ میں شمار ہونے لگی ہے۔ لیکن پی ٹی آئی اس وقت ” منٹھار بس سروس “کے روپ میں آئی ہے۔ عمران خان صاحب کا ایک ہی نعرہ تھا کہ نیا پاکستان۔
نیا پاکستان کیا ملا پرانے سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے۔ پوری پارٹی اس وقت کرپشن کے فل سوئنگ میں ہے۔ پوری پارٹی اس لئے کہوں گا کہ بقول عمران خان ۔۔۔اگر میری پارٹی میں کوئی بھی کرپشن کرے گا تو اسکا ذمہ دار میں ہوں گا اور چونکہ عمران خان صاحب ہی پی ٹی آئی ہیں تو اس لیے پوری پی ٹی آئی منٹھار بس سروس کی طرح ن لیگ کو اس ریس میں پچھاڑنے کے موڈ میں ہے۔

ایم این ایز, ایم پی ایز تمام ترقیاتی فنڈز میں سے کمیشن وصول کر رہے ہیں، ایم پی اے یا ایم این اے  کو دیا گیا فنڈ ذاتی ملکیت سمجھا جا رہا ہے۔ آج کل فنڈ دیا ہی اس ڈیپارٹمنٹ کو جاتا ہے جو زیادہ سے زیادہ کمیشن آفر کرے۔۔۔ حکومت کے پاس آئی بی ہے،نیب ہے، ایم آئی ہے، ایف آئی اے ہے۔ بہت ساری انٹیلیجنس ایجنسیاں ہیں۔ جو کہ بروقت اور پل پل کی رپورٹ دے سکتی ہیں۔ چلو ہم چھوٹے لیول پہ نہیں جاتے۔درمیانے لیول پہ چلے جاتے ہیں۔

جیسے ہی ملک میں کورونا کی وبا آئی ہے تو کچھ لوگوں کیلئے یہ عذاب اور کچھ لوگوں کیلئے شادمانی لائی ہے۔ اور لوگ دعائیں کر رہے ہیں کہ کاش یہ وبا کچھ عرصہ رہے اور ہم منٹھار بس سروس کی طرح اپنی” لیٹ”نکال لیں۔
کل میری طرح پی ٹی آئی کے ایک پرانے وفادار محترم حسن نثار صاحب جو عمران خان کو ملک کے نجات دہندہ کے روپ میں پیش کرتے تھے۔ ان کا ایک انٹر ویو سننے کا اتفاق ہوا۔ انٹرویو کیا تھا۔ مایوسی کا ایک سمندر موجزن تھا انکی آنکھوں میں۔ انکی مایوسی دیکھ کے میں بھی مایوسی کی کیفیت میں چلا گیا تو سوچا آپ کو کیوں نہ مایوس کیا جائے کیونکہ ہم خود ہی تو مجرم ہیں تو کیوں نہ ایک دوسرے کو سزا دی جائے۔۔۔

Advertisements
julia rana solicitors london

پاکستان میں کورونا کی آمد کے ساتھ ہی ہماری حکومتیں حرکت میں آئیں اور دیکھتے ہی  دیکھتے لاہور ایکسپو سنٹر میں 1000 بیڈ کا ایک قرنطینہ سنٹر قائم کیا گیا۔ اسکی تیاری کے ساتھ ہی پورے ملک سے داد و تحسین کے ڈونگرے وصول کیے گئے۔ پنجاب حکومت کی کارکردگی دیکھ کے یوں لگتا تھا کہ چینی حکومت نے جو 10000 بیڈ کا ہسپتال تعمیر کیا ہے وہ تو کچھ بھی نہیں۔ افتتاح کےلیے عمران خان صاحب کو بلایا گیا۔ بڑے دھوم دھڑکے, شان و شوکت کے ساتھ باجوں گاجوں کے ساتھ اس کا افتتاح کیا گیا۔ عمران خان صاحب خوشی سے پھولے نہیں سما رہے تھے کہ ہم تیزرفتاری میں چائنہ کو پیچھے چھوڑ رہے ہیں۔ مجھے بھی پنجاب حکومت کی کارکردگی پہ رشک آیا اور ایک نشہ سا چھا گیا۔لیکن کل کے انٹرویو نے سارا نشہ ہرن کر دیا
قرنطینہ سنٹر کی سائنس تو آپ سب جانتے ہوں گے اس لئے تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں۔ بات مختصر کرتے ہیں۔۔اس قرنطینہ سنٹر کے ہوش ربا حقائق آپ کے سامنے رکھتا ہوں۔ یہ سنٹر دو یا تین ماہ کیلئے قائم کیا گیا ہے اور اس پہ900 ملین لاگت آئی ہے۔۔۔۔ کتنی 900 ملین مطلب 90 کروڑ روپے۔۔۔۔
اس کی تفصیل بھی دیکھ لیتے ہیں۔۔۔
16 ، 8 کے روم لیمینیٹد شیٹ کے ساتھ تیار کیے گئے ہیں جو کہ اچھی شیٹ دو ہزار کے حساب سے  ملتی ہے،
کل لاگت ۔۔۔۔ 45 ملین
1000 پائپ والے بیڈ بمعہ گدا تکیہ وغیرہ
کل لاگت۔ 25 ملین
کورنٹائن فرنیچر بمعہ ایکوئپمنٹ
کل لاگت۔ 190 ملین
دوائیاں پتہ نہیں کونسی
کل لاگت پر منتھ۔ 330 ملین ہر ماہ
سٹاف سیلری پر منتھ۔ 130 ملین ہر ماہ
آپریشنل ایکسپینسز پر منتھ۔ 180 ملین ہر ماہ
ٹوٹل لاگت 900 ملین مطلب 90 کروڑ روپے
( خدا کی پناہ)
یہ صرف پہلے ماہ کے اخراجات ہیں جیسے جیسے کورونا چلے گا،خرچہ چلے گا۔
بات وہیں پہ آجاتی ہے کہ یہ ملک سونے کی چڑیا ہے۔ سیاستدانوں کیلئے, بیوروکریِٹس کیلئے, صاحب ارباب و اختیار کیلئے۔ ایک ریس لگی ہے منٹھار بس سروس کی طرح کہ جو کچھ پہلے نہیں کر سکے اب بہت تیزی سے کر لیں لیکن پہلے اور اب میں ایک فرق ضرور ہے کہ قوم اب کچھ کر سکے یا نہ کر سکے لیکن سوچتی ضرور ہے۔۔۔
یہ سوچ بہت بڑا علم ہے جو کبھی نہ کبھی اس ملک کو ترقی کی راہ پہ ضرور گامزن کرے گا۔اللہ آپ سب کا حامی و ناصر ہو۔۔۔ آمین!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply