• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • چیف جسٹس سپریم کورٹ جناب گلزار احمد کے نام ایک کھلا خط۔۔سید عارف مصطفیٰ

چیف جسٹس سپریم کورٹ جناب گلزار احمد کے نام ایک کھلا خط۔۔سید عارف مصطفیٰ

محترم المقام جناب چیف جسٹس صاحب
سپریم کورٹ آف پاکستان

اسلام علیکم!

آپ کو میرا یہ کھلا خط فیڈرل پبلک سروس کمیشن کے تحت آئندہ نوممبر میں منعقد ہونے والے مقابلے کے امتحان کے بارے میں ہے۔یہ خبر جو 6 مئی 2020 کو ملک کے سب سے بڑے روزنامے یعنی جنگ اخبار میں شائع ہوئی ہے اور جس کا عکس یہاں پیش کیا گیا ہے۔

روزنامہ جنگ کراچی 06 مئی 2020

اس خبر میں بالکل واضح طور پہ بتایا گیا ہے کہ اس برس ماہ نومبر کے سی ایس ایس کے امتحان کے نتیجے میں جن خالی اسامیوں کو پُر کیا جائے گا ،وہ صوبائی کوٹے کے تناسب کے تحت پُر کی جائیں گی اور اس میں تین صوبوں ‌کے برعکس صرف صوبہ سندھ کی ملازمتیں دیہی و شہری بنیادوں پہ تقسیم کے اسی خاص کوٹہ سسٹم کے فارمولے کی بنیاد پہ پُر کی جائیں گی جو کہ صرف صوبہ سندھ میں رائج ہے اور جس کی خصوصی حفاظتی مدت نظر ثانی کے بعد بھی ختم ہوچکی ہے۔

ہم سمجھتے ہیں کہ سندھ میں صوبائی کوٹے کی یہ تقسیم قطعی امتیازی اور لسانیت پہ مبنی ہے اور 1973 کے موجودہ آئین پاکستان کی دفعہ 26 اور 27 کی روح کے قطعی منافی ہے اور یہ واضح طور پہ اسلامی شرعی احکامت کے بھی سراسر خلاف ہے ۔۔ پاکستان کا آئین اپنے شہریوں کو مساوی بنیادوں پہ حقوق کی فراہمی کا واشگاف اعلان کرتا ہے اور اس کے برعکس کسی بھی اقدام اور عمل کو یکسر مسترد کرتا ہےلہٰذا اس میں اولاً جو 15 برس کے لیے دیہی و شہری کی تخصیص کی گئی تھی اور اس مدت اور اس کو تحفظ دینے کا جو اقدام کیا گیا تھا وہ بھی اس آئین کی روح کے صریح منافی تھا ۔ نیز اسکے علاوہ اس تقسیم میں شہری سندھ کو 40 اور دیہی سندھ کو 60 فیصد کا جو تناسب دیا گیا تھا وہ آبادی کے حقائق کی رو سے اس وقت بھی غلط تھا اور آج تو صورتحال اسکے بالکل ہی برعکس ہے ۔ اسکے علاوہ یہ بات بھی بالکل درست ہے کہ انتظامی و عملی بنیادوں پہ بھی سندھ میں دیہی و شہری تقسیم کا حامل کوٹا سسٹم قطعی غلط نافذ کیا گیا تھا کیونکہ جب پورے ملک کے ہر صوبے میں دیہی و شہری آبادیاں موجود ہیں تو پھر یہ امتیازی رویہ صرف سندھ کی شہری آبادی کے ساتھ ہی کیوں روا رکھا گیا ۔ یہ تو سراسر تعصب اور غیرانسانی سلوک ہے۔

ستم بالائے ستم یہ ہوا کہ دیہی و شہری تقسیم کے اس غلط قانون کو غیر مجاز طور پہ اور درکار آئینی و قانونی عمل سے گزارے بغیر ہی 1988 میں مزید 20 سال کا تحفظ فراہم کردیا گیا تھا اور اب یہ مدت بھی 12 برس پہلے ختم ہوچکی ہے گویا آئینی و قانونی ہر لحاظ سے کوٹا سسٹم کا یہ دیہی و شہری تخصیص والا فارمولا اب ناقابل نفاذہے ،تاہم سرکاری سطح پہ یہ گھناؤنا امتیازی قانون پورے شد مد سے تاحال نافذالعمل ہے اور وفاقی ملازمتوں اور سندھ کی صوبائی ملازمتوں کی بھرتی میں اسی پہ عمل کیا جارہا ہے اور جس کا ایک ثبوت اس خبر کی صورت میں یہاں پیش کردیا گیا ہے اور جس کی مزید تصدیق کے لیے گزشتہ 12 برس میں وفاق اور صوبہ  سندھ میں سرکاری ملازمتوں میں ہوئی بھرتیوں کے ریکارڈ اور انکے لیے جاری کردہ اشتہارات کا ریکارڈ طلب کرکے بخوبی حقیقت کوجانچا جاسکتا ہے۔

اس ضمن میں مزید افسوسناک حقائق یہ بھی ہیں کہ 1973 سے لے کر ا ب تک دیہی و شہری بنیادوں پہ صوبائی کوٹےکی تقسیم کے اس فارمولے پہ بھی دیانتداری سے عمل نہیں کیا گیا اور شرمناک ظلم یہ روا رکھا جارہا ہے کہ سندھ کے شہری کوٹے کی ملازمتوں کی بھی بڑی تعداد پہ دیہی سندھ سے ہی بھرتیاں کی گئیں اور شہری سندھ کے ڈومیسائل ہاتھوں ہاتھ بناکے یہ گنی چنی ملازمتیں بھی ہڑپ کی جاتی رہی ہیں اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے جس کے باعث آج وفاقی اور صوبائی ملازمتوں میں شہری سندھ کی حقیقی تعداد اس تناسب سے بیحد کم ہے کہ جو سرکاری طور پہ 1973 میں منظور اور نافذ کیا گیا تھا آٹے ملازمتوں میں شہری سندھ کے ساتھ کھلا تعصب اور امتیازی سلوک روا رکھا گیا جبکہ یہاں تعلیم کا تناسب سارے ملک سے کہیں زیادہ ہے۔

عزت مآب چیف جسٹس صاحب!
درج بالا ان نکات کی روشنی میں میری  آپ سے آئین کی پاسداری و سربلندی اور انصاف کی فراہمی کے لیے حسب ذیل دادرسی کی استدعا ہے۔

اہلیت اور حقوق انسانی کے دشمن اور اسلامی تعلیمات کی تکذیب پہ مبنی مرؤجہ کوٹہ سسٹم کو فوری طور پہ کالعدم قرار دیا جائے۔

نیز اس کے تحت مؤثر بہ ماضی وحال اقدام یہ کیا جائے کہ 1973 سے اب تک دی گئی ملازمتوں اور انہیں پانے والوں کے ڈومیسائلوں کی چھان بین کی جائے کہ ان میں دیہی و شہری کوٹے کے تناسب کا کس حد تک خیال رکھا گیا ہے۔
کوٹہ سسٹم کے تحت ماضی سے اب تک دی گئی ملازمتوں کے  ضمن میں جس طبقے کے ساتھ بھی زیادتی ہوئی ہو اسکی تلافی کی جائے اور آگے نکلنے والی اسامیوں میں ترجیحاً اس کی تکمیل کو یقینی بنایا جائے

محترم چیف جسٹس!
آخر میں میری استدعا ہے کہ میرے اس خط کو اعلیٰ اخلاقی اقدار ہی نہیں بلکہ آئینی و قانونی تقاضوں کے مطابق باقاعدہ مقدمے میں تبدیل کیا جائے اور چونکہ میں اس مد میں وکیل کرنے کے لیے وسائل نہیں رکھتا لہٰذا مجھے ذاتی طور پہ اس ضمن میں اپنا کیس خود لڑنے کی اجازت مرحمت فرمائی جائے۔

Advertisements
julia rana solicitors

واسلام درخواست گزار
سید عارف مصطفیٰ
ناظم آباد کراچی!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply