رام کہانی۔۔۔محمد خان چوہدری

عزیزان محترم،
ہمیں یہ حکایت شیئر کرنے میں تذبذب تھا،پھر ارادہ کر ہی لیا، کہ دو بڑے لیڈر ایک ایک عاشی کے لئے خوار ہو رہے ہیں،اور ایک یہ ہماری کہانی کے ہیرو ہیں،کہانی پڑھ کے آپ کا دل کرے گا کہ ان لیڈروں کی بے مردی پہ انہیں لتر ماریں۔

جملہ ملک صاحبان سے پیشگی معذرت !
بندے کتنے ہیں ؟

ملک خدا یار کھردار، پرائمری سکول میں داخلے کے لیے اپنے کار کردار کے ساتھ ٹانگے پہ  سوار ہو کر جب سکول میں آۓ،تو مسئلہ کھڑا ہو گیا۔۔۔ہیڈ ماسٹر کے دفتر میں وہ کرسی پر بیٹھ گئے ،سکول ان کے ابا کے علاقے اور عملداری میں تھا،کسی کو جرآت نہ ہوئی کہ ان کو بتاۓ،شاگرد استاد کے سامنے کھڑا رہتا ہے۔۔۔ٹیسٹ کے مطابق ملک صاحب کچی پہلی میں داخلے کے لائق تھے،لیکن قد کاٹھ اور طبعی عمر کے لحاظ سے انہیں کم از کم پانچویں جماعت میں ہونا چاہیے تھا۔۔

سوچ بچار کے بعد عمر میں چار سال کم کر کے انہیں دوسری جماعت میں داخل کر لیا گیا،پاس تو ان کو ہر سال کیا جانا تھا،ہائی سکول میں بھی یہی ہوا،ملک صاحب جب نویں جماعت میں تھے تو ان کی پہلی شادی ہو گئی،میٹرک میں وہ چار سال رہے،میٹرک تو نہ ہو سکا، لیکن وہ تین بچوں کے باپ بن چکے تھے،بڑے ملک صاحب نے اپنے اثر رسوخ سے ان کی میٹرک کی سند بنوائی،اور ضلعی شہر کے کالج میں جہاں کو ایجوکیشن تھی،داخلہ کرا دیا۔۔۔

فرسٹ ایئر میں ہی ایک لڑکی سے معاشقہ چل پڑا،سیکنڈ ائیر میں اس سے شادی کر لی،اور ہاسٹل سے ایک گھر میں منتقل ہو گئے،ایف اے کا امتحان تو بورڈ کا تھا،اس میں دو سال فیل ہوۓ۔

اس دوران دوسری بیوی سے بھی دو بچے ہو گئے،چھٹیوں میں گاؤں آنا جانا لگا رہتا،وہاں چوتھا بچہ بھی ہو گیا،ان کے والد نہایت دور اندیش تھے،اور تعلیمی ڈگری کی اہمیت سے آگاہ تھے،انہوں نے ایف اے کی ڈگری کا بھی بندوبست کر لیا،اور لاہور میں ایک مشہور کالج میں داخلہ بھی ہو گیا،خدا یار کی پہلی بیوی تو آبائی گاؤں میں ہنسی خوشی مقیم تھی،
دوسری کے لیے  بھی شہر میں مکان خریدا گیا،گاؤں سے نوکرانیاں بھیج دی گئیں،اور ملک صاحب لاہور منتقل ہو گئے،

لاہور کالج میں ملک صاحب پہلے سال طلبا یونین کے جوائنٹ سیکرٹری بنے،اور اگلے سال سیکرٹری منتخب ہو گئے،اب ان کا حلقہ احباب بھی وسیع ہو گیا،دوستیاں ، یاریاں اور دیگر سماجی مصروفیات بڑھ گئیں،دوستوں کی اعانت سے امتحان پاس ہونے لگے،اور ملک صاحب ایک مشہور رقاصہ کی زلف کے اسیر ہو گئے،پوش علاقے میں اسے کرائے پر گھر لے دیا،ہاسٹل کا کمرہ ان کی سیاسی آماجگاہ تھا۔۔اور رہائش رقاصہ کا گھر۔

اس کے ساتھ شادی ہونے کا کوئی  مصدقہ ثبوت تو نہیں تھا،سواۓ اس کے کہ اس سے بھی دو بچے پیدا ہوۓ،یوں ملک خدایار کھردار بی اے پاس ہونے تک آٹھ بچوں کے باپ بن چکے تھے۔

اس عرصے میں بڑے ملک صاحب ایک بار ایم پیاے، اور ایک بار ایم این اے بنے،اب ملک خدا یار ایک فری لانس، سیاست دان بن گئے،اس سے آگے ان کی ازدواجی زندگی کے بارے میں تاریخ خاموش تھی،بڑے ملک صاحب بیمار ہوۓ، اور انتقال کر گئے،آبائی گاؤںمیں تدفین ہوئی،جس میں ملک صاحب کی بڑی بیگم ہی شریک تھی،چالیسویں اور دیگر رسومات کے بعد خاندان کا ،ان ہاؤس، ان کیمرہ اجلاس طلب کیا گیا،جس میں ملک خدا یار کی بطور سربراہ دستار بندی،خاندان کے شجرہ نسب میں ان کی جملہ ازواج اور اولاد کا اندراج کیا جانا تھا۔ اس لئے ان سب کی حاضری اور موجودگی لازمی تھی،اب ان سب مہمانوں کو گاؤں میں لانے،ان کی رہائش،اور دیگر امور کے لئے
ان کی تعداد معلوم کرنا درکار تھی۔۔

کارکردار نے جب  موجود رئیس ملک خدا یار کھردار  صاحب سے تفصیل دریافت کی تو ملک صاحب نے یہ تاریخی جملہ ارشاد فرمایا۔۔۔جس سے ان کی سیاسی بصیرت،اور انتظامی امور کی  گہری سمجھ چھلک رہی ہے ،

” ریاست پاکستان کو معلوم ہی نہیں کہ اس کے زیرِ انتظام اور دستِ نگر لوگوں کی اصل تعداد کتنی ہے،اور وہ ان کے لیے بجٹ بناتی ہے،اعداد و شمار پیدا کر لیتی ہے،تو تم ہماری مٹھی بھر بیویوں اور ان کے چند درجن بچوں کا حساب کیوں نہیں  لگا سکتے؟ایسا کرو ہماری پہلی شادی کی تاریخ سے ہر تین سال کے بعد ایک نئی شادی جمع کرو،اور ہر شادی کی تاریخ سے اگلے ہر دو سال کے بعد ہر ایک کا ایک ایک بچہ پیدا ہونا شمار کرتے جاؤ،تو تمہیں پتہ چل جاۓ گا،کہ آنے والے کل بندے کتنے ہوں گے”

Advertisements
julia rana solicitors london

ہُن دسو اتھے ہک ہک مشکوک زنانی دا رؤلا، مارو انہاں بےغیرتاں نوں،
رن ہک سانبھی نہیں  جاندی، روندے لیڈر بنڑن نوں۔۔۔ کمینے کھُسرے!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply