اب بھی سب کچھ نہیں گیا۔۔۔محمد اسد شاہ

بھارتی حکومت نے اپنی ایک آئینی ترمیم کے ذریعے کشمیر کے اس حصے کی منفرد آئینی حیثیت کا خاتمہ کر دیا ہے ، جس پر وہ گزشتہ 72 سالوں سے قابض ہے – بین الاقوامی قوانین اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کو روندتے ہوئے سو،موار  5 اگست2019 کو بھارتی آئین کی دفعات 370 اور 35A کو منسوخ کر دیا گیا اور مقبوضہ وادی کی وہ آئینی حیثیت ختم کر دی گئی جس کی رو سے عالمی سطح پر اسے پاکستان اور بھارت کے مابین ایک متنازعہ علاقہ تسلیم کیا جاتا ہے – نئی بھارتی ترمیم کے مطابق مقبوضہ کشمیر کو دو حصوں میں تقسیم کر کے وادی کشمیر اور جموں کو “یونین ٹیریٹری” قرار دیا گیا ہے ، جس کی اپنی قانون ساز اسمبلی ہو گی – جب کہ لداخ قانون اسمبلی کے بغیر مرکز (نئی دہلی) کے زیر انتظام علاقہ ہوگا – اس آئینی ترمیم ، جو درحقیقت صریحاً غیر آئینی ، غیر اخلاقی اور بڑی حد تک غیر انسانی ہے ، کے نفاذ کے بعد مقبوضہ علاقے میں بھارتی شہریوں کو زمین خریدنے ، جائیدادیں بنانے ، کاروبار کرنے ، رہائش اختیار کرنے اور کارخانے لگانے وغیرہ کی مکمل آزادی ہو گی – سیز فائر لائن ، جسے لائن آف کنٹرول کہا جاتا ہے ، بھارت اسے عالمی سرحد کا درجہ دے گا – چناں چہ یہ صاف ظاہر ہو چکا کہ بھارتی آئین سازوں نے مقبوضہ کشمیر کی ڈیمو گرافی جلد از جلد تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا ہے –

اب ہوگا کیا ؟ بظاہر تو یہی ہو گا کہ اگر بھارت کو فوری طور پر روکا نہ گیا تو بھارت بھر سے غیر مسلموں ، خصوصاً انتہا پسند ہندوؤں کو خصوصی مراعات اور آسانیاں دے کر دھڑا دھڑ مقبوضہ کشمیر میں آباد کیا جائے گا – یہ وہی خاکہ ہے جس پر عمل کر کے فلسطینی علاقوں پر غیر قانونی طریقے سے اسرائیل قائم کیا گیا ، اور اس کے بعد سے اب تک اس کے رقبے کو وسعت بھی دی جا رہی ہے – اس دوران اگر پاکستان کی سفارتی کوششوں کے نتیجے میں کسی ملک نے ثالثی کا نام لیا تو بھارت اس بنیاد پر اس پیش کش کو بیک جنبش قلم مسترد کر دے گا کہ مقبوضہ کشمیر اس کا اندرونی معاملہ ہے ، ثالثی کیسی؟ – اس دوران مقبوضہ وادی میں ہندوؤں کی آباد کاری انتہائی تیزی کے ساتھ جاری رکھی جائے گی کہ اگر عالمی دباؤ کے تحت کبھی استصواب رائے کروانا بھی پڑے تو آبادی کی اکثریت پاکستان کی بجائے بھارت کے ساتھ رہنے کو ترجیح دے – یہ ہے بھارت کا وہ خطرناک منصوبہ جسے ہم بر وقت سمجھ نہ پائے یا شاید روک نہ پائے –

بھارت کی اس آئینی کارروائی سے مسئلہ کشمیر کی نوعیت مزید گنجلک ہوگئی ہے – آئندہ اگر ثالثی یا استصواب رائے کی بات ہو تو بھارت یہ پروپیگنڈہ بھی کرے گا کہ ایسا آپشن کشمیر کے صرف اس حصے کے لیے اختیار کیا جائے جسے ہم آزاد کشمیر کہتے ہیں –
اس موقع پر ہماری پارلیمنٹ میں کی گئی تقاریر کے برعکس حقیقت یہی ہے کہ اس مسئلے پر ہماری گرفت بہت کم زور پڑ چکی ہے ، جس کی ذمہ داری ان سب پر عائد ہوتی ہے جو قیام پاکستان سے اب تک ہماری خارجہ پالیسی بناتے اور چلاتے آ رہے ہیں – ہم جیسے کم فہموں کی سمجھ میں نہیں آتا کہ پونی صدی کے اس سفر میں ہماری اسٹیبلشمنٹ اور وزارت خارجہ کے کار پردازوں نے کون سا تیر مارا ہے ؟ ہر سال ایک عدد یوم یک جہتی کشمیر منانے ، ہڑتال کر کے اپنی ہی معیشت کا نقصان کرنے یا عالمی فورمز پر کبھی کبھار پون گھنٹہ لمبی تقریر میں ڈرتے ڈرتے “کشمیر” کا لفظ بول دینے سے بھارت کا کیا نقصان ہوتا ہے یا باقی دنیا کو کون سی پریشانی لاحق ہو جاتی ہے ؟

Advertisements
julia rana solicitors

شاید ہمارے پالیسی سازوں نے بھارت کی عالمی اہمیت کو سمجھا نہیں یا اگر سمجھا ہے تو اس کے مطابق اپنی سٹریٹجی کو ڈھالا نہیں – بھارت رقبے ، معیشت ، جمہوریت ، سفارت اور سیاست کے لحاظ سے ہم سے بہت آگے اور بہت مضبوط ہے – اس حقیقت کا انکار کرنا ایسا ہی ہے کہ جیسے بلی کو دیکھ کے کبوتر آنکھیں بند کر لے –
لیکن خیر ، اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ ہمارے وزارت خارجہ کے افسران غیر ملکی دوروں کو ذاتی تعلقات استوار کرنے کا بہانہ بنا لیں یا ہم ہاتھ پر ہاتھ دھر کر بیٹھ جائیں کہ جیسے سب کچھ ہاتھ سے نکل گیا ہو – اگر بہترین حکمت عملی بنائی جائے ، اور اپنی اجتماعی و انفرادی حیثیتوں میں ایک مشن بنا کر کام کیا جائے تو اب بھی بھارتی حکمرانوں کو گھٹنے ٹیکنے اور حقائق تسلیم کرنے پر مجبور کیا جا سکتا ہے – اب بھی سب کچھ ضائع نہیں ہوا – ہمارے آپشنز محدود ضرور ہوئے ہیں ، لیکن ختم نہیں ہوئے – سر جوڑ کر بیٹھا جائے ، ذاتی بغض سے نکلا جائے ، ایک دوسرے کی اہمیت مانی جائے ، مخالف سیاسی جماعتوں کے قائدین کو بھی مشاورت میں نہایت احترام کے ساتھ شامل کیا جائے ، قومی سطح پر ایک جاندار پالیسی مرتب کی جائے ، اسے پبلک نہ بھی کیا جائے تو کوئی بات نہیں ، لیکن مسئلہ کشمیر پر جلد از جلد اس طرح کام کیا جائے کہ دنیا ہمارے ساتھ کھڑی ہو اور بھارت اپنے ناپاک عزائم سے باز آ جائے –

Facebook Comments

محمد اسد شاہ
محمد اسد شاہ کالم نگاری اور تعلیم و تدریس سے وابستہ ہیں - پاکستانی سیاست ، انگریزی و اردو ادب ، تقابل ادیان اور سماجی مسائل ان کے موضوعات ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply