پشتونخوا کی سیاست اور پشتون صوبہ کی بحث۔ رشید بلوچ

مجھے ذاتی طور ایک بات نے کافی سوچنے پر مجبور کیا، وہ یہ کہ آیا بلوچستان میں بلوچ پشتون مخاصمت واقعی موجود ہے۔؟ اگر ہے تو اس کی بنیادی وجہ کیا ہو سکتی ہے؟ اگر نہیں ہے تو پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے دوست اسمبلی فلور پر کھڑے ہوکر ”بلوچستان ”کہنے کی بجائے ”بلوچ پشتون صوبہ”کیوں کہتے ہیں؟ حالاں کہ سندھ، پنجاب اور خیبر پختونخوا میں بھی پشتون، پنجابی اور سندھی کے علاوہ دیگر قومیں بھی رہتی ہیں۔ وہاں پر سرائیکی پنجابی صوبہ یا ہزار جات پختون صوبہ کیوں نہیں کہا جاتا؟

پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کی جانب سے بار بار صوبے کا نام مسخ کرنے کے باجود کسی بھی بلوچ کی جانب سے کوئی ردِ عمل سامنے نہیں آیا۔ لیکن سولہ ستمبر کے دن بلوچستان اسمبلی اجلاس میں جب کریم نوشیروانی اور سردار عبدالرحمان کھیتران کی جانب سے صوبہ خیبر پشتونخوا کے بجائے صوبہ سرحد کہا گیا تو پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے دوستوں نے اس پر شدید ردِ عمل دکھایا۔ اب پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے دوستوں کو ادراک کرنا چاہیے کہ وہ پچھلے کئی عرصہ سے جب وہ بلوچستان کی بجائے، بلوچ پشتون صوبہ کہتے آ رہے ہیں تو ایک عام بلوچ پر کیا گزرتی ہوگی۔

میری ذاتی رائے یہ ہے کہ پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کی جانب سے بلوچستان کا نام نہ لینا اور اسے توڑ مروڑ پیش کرنے کی بنیادی وجہ احساسِ کمتری ہے۔ کیوں کہ بلوچ اور پشتون صدیوں سے ہمسایہ ہیں۔ تاریخ میں چند ایک واقعات کے علاوہ کبھی ان دو قوموں کے درمیان کوئی بڑی معرکہ آرائی نہیں ہوئی ہے۔ جب کہ دونوں اقوم نے مل کر مرہٹہ اور دیگر قوموں کے خلاف جارحیت ضرور کی ہے۔

اس تاریخی پس منظرمیں دونوں قوموں میں ہمیشہ برابری برقرار رہی ہے۔ لیکن شومئی قسمت کہ انگریز سامراج نے جاتے جاتے پشتون سرزمین میں ایک ایسی لکیر کھینچی جس نے پشتون کو موجودہ بلوچستان میں عددی حوالے سے اقلیت میں بدل دیا۔ سامراج کی بنائی اس لیکر کو اس دور میں نہ کسی بلوچ نے چیلنج کیا نہ پشتون نے۔ اس لیے رفتہ رفتہ بلوچ پشتون نے ایک دوسرے پر سبقت لے جانے اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے غیراصولی اور اپنی روایت کے برخلاف اقدامات بھی اٹھائے۔

پشتونخوا ملی عوامی پارٹی جب بلوچستان کی بجائے پشتون بلوچ صوبے کی رٹ لگاتی ہے تو اسے انگریز کی بنائی گئی تقسیم سے جوڑنا چاہیے۔ تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا پشتونخوا اپنی پہچان دوسرے لفظوں میں الگ صوبہ بنا نے سے متعلق اپنے پارٹی منشور سے متعلق سنجیدہ بھی ہے یا محض اپنے ووٹر کو خوش رکھنے کے لیے بلوچ پشتون مخاصمت نعرے پر اکتفا کر کے بیٹھی ہے۔ہو سکتا ہے کہ میری رائے غلط ہو لیکن میں سمجھتا ہوں کہ پشتونخوا کا یہ مذکورہ نعرہ صرف انتخابی حربہ ہے۔ عملاً وہ کبھی بھی ایسا نہیں چاہیں گے۔ پشتونخوا ملی عوامی پارٹی اگر واقعی ایسا چاہتی ہے تو اسمبلی میں اپنی موجودہ قوت کے پیشِ نظر اسے عملی پیش رفت کرنی چاہیے۔

حالیہ مردم شماری کی غیر مصدقہ رپورٹس کے مطابق بلوچستان میں پشتونوں کی آبادی پینتیس فیصد ہے۔ پشتون جغرافیائی حوالے سے ایک زرخیز سرزمین میں بس رہے ہیں۔ جہاں قدرتی معدنیات اور زراعت کے وسیع مواقع موجود ہیں، بذاتِ خود پشتون انتہائی جفا کش اور کاروباری اہلیت کے مالک ہیں۔ جب کہ سیاسی حوالے سے بھی پشتون، بلوچ سرائیکی سندھی قوم پرست جماعتوں کی بہ نسبت زیادہ منظم بھی ہیں۔

پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کو پشتونوں کی نمائندہ جماعت مانا اور سمجھا جاتا ہے۔ ان کے پارٹی سلوگنز میں بلوچستان سے الگ پشتون آبادی پر مشتمل صوبہ بنانے کا نعرہ بھی موجود ہے۔ جب کہ پنجاب میں سرائیکی اور خیبر پشتونخوا میں ہزارہ جات بھی الگ صوبہ بنانے کی مہم چلا رہے ہیں۔ اگر یہ تینوں قومیں اپنے مشترکہ اہداف کے لیے یکجا ہو کر جدوجہد کریں تو وفاق پر اچھا خاصا دباؤ ڈال سکتی ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

پیپلز پارٹی نے بھی یہ عندیہ دیا ہے کہ جب انہیں مستقبل میں حکومت کرنے کا موقع میسر ہوا تو سرائیکی صوبہ کی حمایت کریں گے۔ اس ضمن میں اگر مجموعی سیاسی صورت حال کا جائزہ لیا جائے تو مسلم لیگ کوچھوڑ کر تمام سیاسی پارٹیاں مزید صوبے بنانے کے حق میں نظر آتی ہیں۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ پشتون باالعموم جب کہ پشتونخوا ملی عوامی پارٹی بالخصوص اس ایجنڈے کو لے کر آگے کی طرف بڑھے تاکہ ان کا پارٹی منشور بھی کسی حد تک پایہ تکمیل کی طرف گامزن ہو سکے۔ ہمارے نزدیک جزوقتی معاشی مفادات سے کُل وقتی قومی شناخت زیادہ اہمیت کی حامل ہے۔

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply