ریاست مدینہ کا معاشی نظام اور مروجہ سودی نظام/نیاز فاطمہ

ریاست مدینہ سے مراد نبی کریمﷺ کی قائم کردہ مملکت ِ مدینہ منورہ ہے ۔جس کی نظیر آج تک نہیں ملتی جس ریاست کے تمام ہی شعبے قابلِ  تقلید ہیں ۔اسی میں سے ایک معاشی نظام بھی ہے۔جو تمام تر حرام معاملات سے پا ک تھا بشمول سود ۔سود اتنا گھناؤنا فعل ہے کہ اس کو صرف حرام ہی قرار نہیں دیا بلکہ اس کو اللہ اور رسول کے ساتھ اعلانِ جنگ قرار دیا گیا ۔ پاکستان جوکہ اسلام کے نام پر وجود میں آیا اور اس میں اور ریاستِ مدینہ میں کافی مماثلت پائی جاتی ہے ،اس کے  باوجود ملک کے معاشی ڈھانچے کو ابھی تک سود کی لعنت سے نجات نہیں دلائی جاسکی ۔جب نبی کریم ﷺ اور آپ کے صحابہ کرام نے مدینہِ  ہجرت کی، تو یہ صحابہ کرام اس قدر مفلوک الحال تھے ۔ان کے تمام اثاثوں پر مکہ والے قابض ہوگئے تھے ۔نبی کریم ﷺ نے معیشت  میں ایسے اصول مرتب کئے جو آج بھی کسی بھی ریاست کے لیے مشعلِ راہ کی حیثیت رکھتے ہیں ۔

آپ نے احتکار(ذخیرہ اندوزی) کی مذمت فرمائی ۔آپ نے ذخیرہ اندوزی کرنے والے کو گناہ گار قرار دیا۔ انشورنس اور سٹہ کو بھی حرام قراردیا۔نبی کریمﷺ نے وہ تمام معاشی راستے بند کردیے جس سےکوئی بھی برائی کا راستہ ہموار ہوتا ،جیسا کہ شراب نوشی ۔۔یہ حیوانی جذبات کو مشتعل کرتی ہے چنانچہ اس کے پینے پلانے اور خریدنے اور بیچنے کو حرام مطلق قرار دیا گیا ہے۔ نبی کریمﷺ نے لوگوں میں محنت کا جذبہ ابھارا۔ ان میں گداگری کو ختم کردیا۔کاروبار کرنے کی طرف رغبت دلائی حصولِ رزق کے مختلف ذرائع تلاش کرنے کے لئے متوجہ کیا۔تجارت کی طرف ترغیب دلائی۔آپ ﷺ نے بنجر زمینوں کو کاشت کے قابل بنایا۔جن  گوں کے پاس ایسی زمینیں تھیں جو وہ خود کاشت نہیں کرسکتے تھے تو ایسی زمینیں ان سے لے کر ایسے کاشت کاروں میں مفت تقسیم کیں جو زمین کی ملکیت سے محروم تھے اور حکم دیا کہ انہیں محنت کرکے کاشت کے قابل بنائیں ۔آپ نے کئی کاروباری اصطلاحات متعارف کروائی :
۱۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا کہ’’ مزدور سے کام لینے سے پہلے مزدوری طے کرلی جائے اور کام کرنے کے فوراً بعد پسینہ خشک ہونے سے پہلے اجرت ادا کردی جائے۔ ‘‘
۲۔ لوگوں میں امانت داری کا جذبہ پیدا کیا۔ قرض اور ادھار وقت مقررہ پر ادا کرنے کی ترغیب فرمائی۔ معاملات میں نرمی برتنے کا حکم دیا اور وعدوں کی پابندی کو تجارت کا لازمی جزوقرار دیا۔
۳۔ تجارت کے معاملات میں سچ بولنے کا حکم دیا اور سکھایا کہ معاملہ خواہ مسلم سے ہویا غیر مسلم سے ،ایماندار رہو اور وعدہ پورا کرو۔
۴۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ذخیرہ اندوزی، اناج میں ملاوٹ اور ناپ تول میں کمی کومنع فرمایا ہے۔ فرمایا کہ ذخیرہ اندوز کے اناج سے صدقہ قبول نہیں اور ملاوٹ کرنے والا ہم میں سے نہیں۔
۶۔ محنت کرنے والا اللہ تعالیٰ کا دوست ہے۔

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے مسلمانوں میں علم و حکمت اور معیشت کی اہمیت کا شعور پیدا کیا۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا:
’’اپنے ہاتھوں کی کمائی سے بہتر کوئی کھانا نہیں ہے اور حضرت داؤد ؑ اپنے ہاتھ کی کمائی سے کھاتے تھے۔ ‘‘

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:اے ایمان والو! اپنی حلال کمائی میں سے خرچ کرو۔‘‘ ایک مرتبہ ایک بے روزگار صحابیؓ نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے سوال کیا۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ’’ تمہارے پاس کسی قسم کی کوئی چیز ہے‘‘، انہوں نے عرض کیا کہ ہاں ایک کمبل ہے، نیز ایک پیالہ ہے۔حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ میرے پاس لے آؤ ۔ کسی صحابی نے ان چیزوں کے دو درہم دام لگائے، حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے دونوں چیزیں ان کے حوالے کردیں اور دو درہم اس بے روزگار صحابی کو دے دیئے اور ارشاد فرمایا کہ ایک کلہاڑی خرید کر لاؤ اور فرمایا کہ جاؤ اس کلہاڑی سے جنگل جاکر لکڑیاں کاٹو۔۔۔ چنانچہ انہوں نے یہی کیا اور پندرہویں دن حاضر خدمت ہوئے۔حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام نے فرمایا کیا حال ہے؟ ۔۔۔ انہوں نے عرض کیا کہ اس عرصہ میں دس درہم کی آمدنی ہوئی جن میں سے چند درہم کے میں نےکپڑے خریدے اور چند درہم کا اناج۔حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ ’’یہ اس بات سے بہتر ہے کہ تم کسی کے سامنے ہاتھ پھیلاؤ اور قیامت کے دن ذلّت اٹھاؤ۔‘‘

آج سود کا یہ عالم ہے کہ براہِ راست سود انسان نہ بھی لیں تو بالواسطہ تو بچنا نا  ممکن ہے۔ اس کی پیشن گوئی آپ ﷺ نے بھی کی تھی کہ قربِ قیامت میں کوئی سود نہ بھی لے تو اس کا غبار اس کے نتھنوں تک ضرور پہنچے گا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

حوالہ جات
سورۃ البقرہ279:2۔
جامع الترمذی،جلد دوم،کتاب خریدو فروخت کے احکام و مسائل (باب:ذخیرہ اندوزی کا بیان)رقم الحدیث:1267۔
o بخاري، الصحيح، كتاب البيوع، باب بيع الميتة والأصنام، 2: 779، رقم: 2121، بيروت، لبنان: دار ابن کثير اليمامة۔
سنن ابن ماجہ ،جلد 2،حدیث600۔
مشکوٰۃ شریف جلد3،رقم الحدیث2
سورۃ البقرۃ2: 267۔
ابو داؤد ترمذی، سنن ابن ماجہ۔
مسند احمد،رقم الحدیث:

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply