قانون سب کے لیے

اس نعرے کا پرچار تو ہم نے بہت کیا لیکن اس پر حقیقی معنوں میں عمل کرنا کسی کو بھی یاد نہ رہا۔ جب عدل و انصاف مٹ جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ قوموں کو تباہ و برباد کر دیتے ہیں۔ مسلمان ہونے کا دعویٰ کرنے والے انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنے کی بجائے گنجائش نکال رہے ہیں۔ کوئی اپنے آپ کو احتساب کے لیے پیش کرنے کو تیار نہیں۔ جس قوم کے قاضی خود کہیں کہ یہ آرٹیکلز وزیراعظم پر لاگو نہیں ہوتے، وہ کیا خاک ترقی کرے گی؟ غربا کو جس ملک کی عدالتوں سے انصاف میسر نہ ہو، وہ ملک کیسا اسلامی ملک ہے؟ کیا ہمارے آباؤ اجداد نے اس لیے یہ وطن حاصل کیا تھا؟ جس قوم کا ہر ملازم اپنی حد تک کرپشن میں ملوث ہو تو وہ قوم کیسے عروج کو پہنچے گی؟ جس ملک میں اسلام قبول کرنے کے لیے غیر مسلموں کو شرائط ماننی کرنی پڑیں، اسے کون اسلامی کہے گا؟ کیا یہ حکمران حضرت علی رضی اللہ عنہ کے کردار سے رہنمائی حاصل نہیں کر سکتے جنہوں نے یہ بات ثابت کی کہ قانون سب کے لیے ایک ہے۔ امیر المومنین ہونے کے باوجود اُن کے بیٹے اور غلام کی قاضیِ وقت نے گواہی قبول نہ کی اور انہوں نے بلا چوں و چراں قاضی کا فیصلہ مان لیا، جس سے متاثر ہو کر یہودی نے اسلام قبول کیا۔
کیا ہمارے قاضی اس قاضی جیسے نہیں ہو سکتے جس نے ایک صحابی اور وقت کے حکمران سے گواہوں کا تقاضا کیا۔ کیوں آج کے حکمرانوں سے کوئی تقاضا نہیں کر سکتا کہ مال کہاں سے اور کیسے حاصل کیا؟ کیا عوام اور حکام حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ پیش آئے اس واقعہ کو بھول گئے جب اُن سے دوران خطاب ایک عام آدمی نے اُن کے لباس کے متعلق سوال کر لیا تھا۔ کیا آج ہم حضور ﷺ کے وہ الفاظ بھول گئے ہیں جو آب ِزر سے لکھنے کے قابل ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ پچھلی قومیں اسی لیے تباہ ہو گئیں کہ وہ امیروں کو چھوڑ دیتے تھے اور غربا پر قانون نافذ کرتے تھے۔ خدا کی قسم اگر فاطمہ بنت محمد ﷺ بھی چوری کرتی تو میں اُس کا بھی ہاتھ کاٹ دیتا لیکن ہم تو وہ اسباق بھول چکے ہیں جو ہمیں ہمارے اسلاف دے گئے ہیں۔ ہم تو صرف باتیں بنا سکتے ہیں اور ”قانون سب کے لیے“ ایک جیسے نعرے لگاسکتے ہیں۔ بقول اقبالؒ :
تجھے آباء سے اپنے، کوئی نسبت ہو نہیں سکتی
کہ تو گفتار، وہ کردار، تو ثابت، وہ سیارہ
گنوادی ہم نے ،جو اسلاف سے میراث پائی تھی
ثریا سے زمیں پر آسماں نے ہم کو دے مارا
میرے لکھنے سے عوام و حکام کی حالت تبدیل نہیں ہو سکتی کیوں کہ اللہ کسی قوم کی حالت کو بدلتے ہی نہیں جب تک وہ قوم خود نہ چاہے۔ بقولِ سر سید احمد خان قوم ترقی کا مجموعہ ہے شخصی محنت، شخصی عزت، شخصی ایمانداری، شخصی ہمدردی کا۔ اسی طرح قومی تنزلی جمع ہے شخصی سستی، شخصی بے عزتی، شخصی بے ایمانی، شخصی خود غرضی کا اور شخصی برائیوں کا۔ ہم اس ملک کے حالات اس وقت تک بدل نہیں سکتے جب تک ہم اپنے آپ کو نہ بدلیں۔ جب آپ پوری قوم کو ٹھیک کرنا چاہیں تو سب سے پہلے اپنے آپ کو ٹھیک کریں ۔ باقی بھی ٹھیک ہو جائیں گے ۔ جیسا مجموعہ قوم کا چال چلن ہوتا ہے ویسی ہی اس پر حکومت ہوتی ہے۔ اگر ہم خود اپنا احتساب کریں تو ان شاء اللہ حکمران بھی ٹھیک ہو جائیں گے۔ آخر میں مَیں علماء و مفتیان کو یہ کہنا چاہوں گا کہ لوگوں کو قانون کی پاسداری سکھائیں۔ خدارا اختلافی مسائل میں مت اُلجھائیں۔ پہلے ہی امت مسلمہ کو اس فرقہ واریت نے بہت نقصان پہنچایا ہے۔ منبر و محراب سے حق کی باتیں پھیلائیں اور عوام کو آگہی دیں۔ علماء تو انبیاء کے ورثا ہیں تو پھر انہیں سب سے زیادہ کردار ادا کرنا ہو گا۔ اساتذہ سے بھی یہ گزارش ہے کہ کل کو جنہوں نے اس ملک کی باگ دوڑ سنبھالنی ہے، وہ آج آپ کے پاس ہی ہوتے ہیں تو براہِ کرم اپنا کردار ادا کریں، اور ان کی اچھی تربیت کریں تاکہ آنے والی نسل اس ملک کو بلندیوں تک پہنچا دے اور خدارا بچوں کو یورپین ممالک کا ترقی یافتہ ہونا مت بتائیں بلکہ اسلامی سلطنتوں سے محبت پیدا کریں ۔جزاک اللہ!

Facebook Comments

نعیم الرحمان
کم عمر ترین لکھاری ہیں۔ روزنامہ تحریک کے لیے مستقل لکھتے ہیں ۔ اور سب سے بڑھ کر ایک طالب علم ہیں ۔ اصلاح کی غرض سے لکھتے ہیں ۔ اسلامی نظریے کو فروغ دینا مقصد ہے ۔ آزادی کو پسند کرتے ہیں لیکن حدود اسلامی کے اندر۔ لبرل ازم اور سیکولرزم سے نفرت رکھتے ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply