رمضان المبارک کا بابرکت مہینہ اور ہماری بیچاری عورتیں

جب رمضان کا سنتا ہوں مجهے اپنے معاشرے کا وہ استحصالی رویہ جو عورتوں کے ساتھ رواء رکها جاتا ہے یاد آتا ہے ،ایک طرف لوڈشیڈنگ اور جان لیوا گرمی دوسری طرف روتے ہوئے چهوٹے بچے جو ماں کے بغیر چپ ہوتے ہی نہیں۔۔۔ اکثر دیکهتا ہوں بیچاریوں کا نہ رات میں نیند نہ دن میں آرام ۔۔۔ ادهر بهاگ کے گئی روتے بچے کو اٹھایا تو ادهر چولہے پر سالن کے جلنے کا غم ۔۔۔ ادهر تهانہ کے” ایس ایچ او” جیسی ساس نے آواز دی “اوئے” کیا کررہی ہے ادهر آ۔۔ تو ادهر نسوار کی بندش سے غصیلے شوہر کی برق جیسی آواز۔۔۔ شربت میں چینی برابر ڈالنا ورنہ تیرے منہ پہ ماروں گا ، جوائنٹ فیملی سسٹم کا قہر اوپر سے کچھ اور ہے ، پورے 7 دیور ہوں گے تو ان کا بهی خیال رکهنا پڑے گا،ورنہ کچھ بهی نہ ہو تو 73 کے آئین کے مطابق ماں باپ کی گالیوں کا ان کو بهی حق ہے۔جواب میں بیچاری کچھ بولی تو شوہر پہلے سے دوسری کے چکر میں ہے۔۔۔ وجہ کیا ہے ؟
کم بخت ماں باپ بہن بهائیوں کی عزت نہیں کرتی۔۔۔ 4 بجے صبح کی اذان ہے تو ڈھائی بجے سحری کی تیاری کے لئے اٹهے گی سحری کرتے وقت دو کانوں سے چار کان بنانے پڑتے ہیں ،کہیں سماعت میں غلطی نہ ہو،کس کو کیا چاہیے، کب آواز آئے ، ساس کی شوگر کی گولی دینی ہے یا سسر جی کیلئے علیحدہ دودھ پتی بنانی ہے ، سب کو سحری کرانے کے بعد خود دو تین نوالے کها لیے تو اذان ۔۔۔۔اللہ اکبر، دل میں ایک تسلی، چلو شکر ہے عدنان بیٹا تو آج ماشاءاللہ پوری دو روٹی کهاگیا ۔۔ گهر کے آدمی نماز کو گئے، اس کے بعد ڈیوٹی ابهی باقی ہے، برتن دهونا، کپڑے تیار نہیں تو سکول ٹائم سے پہلے کپڑے تیار کرنا، بجلی گئی تو اوپر سے بے عزتی۔کام چور عورت شام کو کیوں استری نہیں کرتی ، اس کے بعد گهر میں جهاڑو دینا ،صفائی کرنا ۔
گائے کو بھوسا ڈالنا، صفائی کرنا، نہ ختم ہونے والا کام ،نہ ختم ہونے والی تهکاوٹ۔۔۔ اس لئے ہم میں سے ہر شخص کو اس بغیر تنخواہ کے مزدور کی قدر کرنی ہے۔ اگر وہ پکا رہی ہے تو ہم چهوٹے بچے کو سنبھال لیں۔۔ کم ازکم استری وغیرہ تو ہم خود اپنے ذمہ لے لیں، سمجھ نہیں آتا تو فقط دو تین دن کے لئے ہی سہی ذرا گهر کی ذمہ داریاں سنبھال لو پتہ چل جائے گا ، کچھ دنوں کے لیے ماں بن جاؤ ضمیر ہے تو احساس ہو جائے گا، پیارے بهائیو! یہ مہینہ بوجھ کم کرنے کا ہے اور اصل میں یہ ہمارا امتحان ہے ۔جب حکمرانوں کو برا بهلا کہتے نہیں تهکتے تو یارو یہ بهی تو ہمارا امتحان ہے نہ، ایک بندے کے ساتھ تو عدل والا معاملہ نہیں کرسکتے اور حاکم سے بیس کروڑ کے ساتھ بے انصافی پر رورہے ہیں۔حقیقت میں ہم اپنے گهر کے حکمران ہیں ، ہم اپنے گهر کے مسئول ہیں، کیا ہم سے پوچھ گچھ نہیں ہوگی۔اللہ کے نبی ﷺکا فرمان ہے ” إلا کلکم راع وکلکم مسئول عن رعیتہ” تم میں سے ہر ایک نگہبان اور جوابدہ ہے۔۔
اللہ کے نبیﷺ کا فرمان ہے “تم میں سے اچها وہ ہے جو اپنے گهر والوں کے لیے اچها ہو”۔ اس سے اس کے ماتحت کے بارے میں پوچھا جائے گا،اللہ کے نبیﷺ کا فرمان ہے تم زمین والوں پر رحم کرو آسمان ولا تم پر رحم کرے گا ۔تو آئیے اس بغیر تنخواہ کے کام کرنے والی مزدور کے ساتھ کم از کم مزدور والا معاملہ ہی کر لیں ۔ کم ازکم مزدوری میں اس کو ایک مسکراہٹ تو دیں ، ایک شاباش تو بنتی ہے ،ایک تعریفی کلمہ تو بنتا ہے ۔۔۔ صحيح ہے نا؟۔۔۔ تو چلو پیارے آج کا کام کل پہ مت چهوڑو ۔۔۔

Advertisements
julia rana solicitors

تحریر۔ قاری الطاف ادیزئی ابو سدیس الطاف !

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply