رنگریزہ/سلیم زمان خان

میں چھوٹا تھا تو امّاں ہر عید ،شادی بیاہ پر سفید دوپٹے لے کر رنگ کرانے جاتیں، کئی مرتبہ دوپٹے رنگنے والے اور والدہ کے درمیان تکرار ہوتی۔ شاید اس زمانے میں ہر رنگ کا ڈوپٹہ ہوتا نہیں ہو گا۔ تو بہت لَے دے ہوتی رنگ پر کہ کہیں کچا نہ ہو ،دوسرے کپڑوں پر نہ رنگ چھوڑ دے۔۔ ایک بار تو شاید والدہ نے بنفشی رنگ کا ڈوپٹہ رنگنے کو دیا۔ نجانے وہ ڈوپٹہ سوٹ کے ساتھ کہیں بارش میں پہن کر گئیں یا کوئی اور وجہ کہ اس کا رنگ ان کے ہاتھوں تک پر اگیا۔۔ اور وہ گھر پہنچتے ہی اسی حالت میں دوپٹے رنگنے والے کی طرف گئیں اور اس کی وہ کلاس لی کہلوانے دکانداروں نے بیچ بچاو کرایا۔
اس کے بعد چونکہ اکا دکا کپڑے رنگنے والے ہوتے تو وہ اماں سے بہت محتاط بات کرتے۔۔ اماں کو بتاتے کہ” باجی ! اس کو رنگ کچا ہو گا ،اس کا پکا ہو گا یا اسے رنگ نہیں ہو سکتا۔  ” ساتھ ہی بتاتے باجی رنگے ہوئے کپڑوں کو دوسرے کپڑوں کے ساتھ نہ دھویا کریں ۔کچے رنگ دوسرے کپڑوں کو خراب کر دیتے ہیں ۔ یہ پھڈا تو تب شروع ہوا جب پاکستان میں نئی نئی واشنگ مشین آئی اور شروع شروع کی ماڈرن امیوں نے سارے کپڑے ایک ساتھ ڈال کر مشین چلا دی  ۔ سیدھے سادے رنگوں کے کپڑے کہیں زیبرے ،کہیں زرافے، کہیں چیتے اور کہیں واہیات رنگوں کا مرکب بن گئے۔  اب رنگریزے بھی ان آنٹیوں پر ہنستے اور ان دوپٹے اور ان کے نتیجے میں خراب ہونے والے سوٹوں کو سرخ، براؤن  اور کالا ہی کرتے کچھ نیلے اور کچھ لا علاج۔۔ یہی حال معاشروں کا بھی ہے۔ جو تہذیبیں کچے رنگ کی ہیں اور ان کے صرف اعمال خوشنما ہیں، وہ دوسرے تہذیبوں اور معاشروں کو انہی پکے رنگ کے کپڑوں والا حال کر دیتی ہیں کہ وہ کپڑے نہ اپنے رنگ میں رہتے ہیں اور نہ ہی وہ رنگ پکڑتے ہیں جو کچے ہوتے ہیں نتیجہ ایک مکروہ،بدشکل رنگ کا معاشرہ ہو جاتا ہے۔۔

اللہ کریم قرآن میں شیطان کے بارے میں بھی فرماتا ہے کہ اس کے رنگ کچے ہیں ۔ یہ جہاں ہوتا ہے اپنا رنگ چھوڑتا ہے ۔ دیکھنے میں خوشنما دکھتا ہے، مگر جن کے درمیان ہو ان پر اپنا رنگ چھوڑ کر بدنما کر دیتا ہے  اور پھر ایک نالائق اور ناتجربہ کار رنگریزے کی طرح لڑ جھگڑ کر گاہک سے جان چھڑا لیتا ہے۔
ترجمہ: اور (یاد کرو) جب شیطان نے ان کی نگاہ میں ان کے اعمال خوبصورت کرکے دکھائے اور شیطان نے کہا : آج لوگوں میں سے کوئی تم پر غالب آنے والا نہیں اور بیشک میں تمہارا مدد گار ہوں پھر جب دونوں لشکر آ منے سامنے ہوئے تو شیطان الٹے پاؤں بھاگا اور کہنے لگا: بیشک میں تم سے بیزار ہوں ۔ میں وہ دیکھ رہا ہوں جو تم نہیں دیکھ رہے ۔بیشک میں اللہ سے ڈرتا ہوں اور اللہ سخت سزا دینے والا ہے۔( انفال)

اب اللہ قرآن میں لوگوں کو فرماتا ہیں کہ میرا رنگ اختیار کرو۔  میرے رنگ کی یہ خاصیت ہے کہ ہر رنگ پر غالب آجاتا ہے  اور اتنا پکّا ہے کہ دوسرا کوئی رنگ اس پر اثر کرتا ہی نہیں ۔
ترجمہ: ہم نے اللہ کا رنگ اپنے اوپر چڑھالیا اور اللہ کے رنگ سے بہتر کس کا رنگ ہے؟اور ہم اسی کی عبادت کرنے والے ہیں ۔ ( البقرہ)

میں نے تمام عمر سوچا کہ اللہ کا رنگ کیسے چڑھے گا ۔ جب بھی کچھ قرآن پڑھ کر عمل کی کوشش کی ،شیطان نے رنگ میں نا  صرف بھنگ ڈالی بلکہ اس بھنگ کا اثر بھی چھوڑا ۔

بہت دن سوچا کہ اب اللہ کا رنگ کیسے اختیار کروں ۔۔ میری تو چنریا اب جگہ جگہ سے تار تار ہوتی جا رہی ہے،مگر رنگ صرف پھیکا ہوا ہے  ،اصل رنگ بھی اُتر گیا  اور جگہ جگہ شیطان کے کچے رنگوں سے بدنما داغ بھی لگ چکے ہیں ۔

بازار میں جا رہا تھا، بہت سالوں بعد ایک بڈھے رنگریزہ کو ایک نوجوان خاتون سے بحث کرتے سنا ۔ وہ کہہ رہا تھا “بیٹی ! پہلے تو آج کے دور میں رنگ کی کسی کو شناخت ہی نہیں ۔ اگر تمہیں کپڑے رنگوں کا شوق ہے تو کسی تجربہ کار رنگریز  کے پاس جا ؤ،جسے رنگوں کی شناخت ہو ، رنگ اس سے باتیں کرتے ہوں۔”

میرے تمام سوالوں کا جواب مل گیا۔۔ اللہ کے رنگ کو رنگنے کے لئے اللہ نے ایک ایسا رنگریزہ اپنی مخلوق کو عطا کیا  ۔ جسے اللہ کے رنگ کی شناخت تھی  اور جتنے پھٹے پرانے،بدنما کپڑے تھے ان کے پرانے رنگ اتار کر ان پر اللہ کا مضبوط رنگ چڑھایا۔

اے میرے سیدنا رَنْگ ریز صلی اللہ علیہ وسلم مجھے اپنے رنگ میں رنگ لیں۔۔ اب تو میری چنریا بھی بوسیدہ ہوتی جا رہی ہے۔۔۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ترجمہ : (اے حبیب!) آپ فرما دیں: اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو تب اللہ تمہیں (اپنا) محبوب بنا لے گا اور تمہارے لئے تمہارے گناہ معاف فرما دے گا، اور اللہ نہایت بخشنے والا مہربان ہے( آل عمران 31)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply