آپ کی ہر بات ریکارڈ ہورہی ہے/سیّد بدر سعید

”میں فیس بک یا فیس بک سے وابستہ کسی بھی ادارے کو اپنی تصاویر، معلومات، پیغامات یا پوسٹس، ماضی یا مستقبل میں استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیتا ہوں۔ اس بیان کے ساتھ، میں فیس بک کو مطلع کرتا ہوں کہ اس پروفائل یا اس کے مواد کی بنیاد پر میرے خلاف انکشاف، کاپی، تقسیم یا کوئی اور کارروائی کرنا سختی سے ممنوع ہے۔ رازداری کی خلاف ورزی پر قانون کے ذریعے سزا دی جا سکتی ہے اور ایسی کسی بھی حرکت پر میں سائبر کرائم سمیت ہر فورم پر کیس کرنے کا حق محفوظ رکھتا ہوں“ یہ یا اس سے ملتی جلتی لائنیں سوشل میڈیا خصوصاً فیس بک پر تواتر سے کاپی پیسٹ کی جاتی ہیں اور ساتھ ساتھ یہ بھی لکھا ہوتا ہے کہ اس کو کاپی کر کے اپنی وال پر پیسٹ کریں تاکہ آپ کے ڈیٹا کا غلط استعمال نہ ہو یا اگر کوئی ایسا کرے تو آپ محفوظ رہیں۔

سوچتا ہوں کہ ہم کس دور میں جی رہے ہیں۔ ایسے کسی بیان کی کوئی اہمیت ہے یا نہیں؟ سب سے پہلے تو یہ بات ذہن نشین کر لیں کہ فیس بک سمیت کوئی بھی ایپ یا ویب سائٹ آپ کا ڈیٹا آپ کی مرضی کے بغیر استعمال نہیں کرتی۔ ان ایپس کو ڈاون لوڈ کرتے وقت یا اکاونٹ بناتے وقت جو شرائط و قوانین پڑھے بغیر ہم لوگ منظور کر دیتے ہیں ان میں یہ سب لکھا ہوتا ہے۔ یہ ایپلی کیشنز ہم سے اجازت لیتی ہیں کہ ہم اپنی فوٹو گیلری، وائس میسجز، کال اور موبائل ڈیٹا تک انہیں رسائی دیں ورنہ ہم متعلقہ ایپلی کیشن کو استعمال نہیں کر سکتے۔ ہم لوگ خود ہی انہیں رسائی دیتے ہیں کیونکہ ہمیں کہیں خوبصورت ہونے کے لیے فلٹرز درکار ہوتے ہیں، کہیں اچھا کیمرہ رزلٹ چاہیے، کہیں گیمز بہت اچھی ہوتی ہیں تو کہیں کوئی اور وجہ ہوتی ہے جس کے لیے ہم وہ ایپلی کیشن استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ اس وقت ہم ان ایپلی کیشنز کو جو رسائی دیتے ہیں وہ بنیادی طور پر ایک معاہدہ ہی ہوتا ہے۔ ہم خود اس معاہدے کے تحت ان ایپلی کیشنز کو اپنے موبائل ڈیٹا یہاں تک کہ کال ریکارڈنگ تک کی اجازت دیتے ہیں اس لیے ہم قانونی طور پر شاید ہی اس رسائی کے خلاف کوئی کارروائی کر سکیں۔ ان میں سے بہت سی ایپلی کیشن جاسوسی کے لیے استعمال ہوتی ہیں مختلف ممالک کی ایجنسیز ڈیٹا اکٹھا کرنے کے لیے ایسی ایپلیکیشن تیار کراتی ہیں اور ان میں اتنے دلچسپ فیچرز شامل کرتی ہیں کہ لوگ فوراً انہیں ڈاؤن لوڈ کر لیتے ہیں اور اس کے لیے انہیں اپنے موبائل تک رسائی دینے کی سائبر اجازت دے دیتے ہیں۔ اسی طرح جو ایپ جاسوسی کے لیے استعمال نہیں ہوتیں وہ بھی اس ڈیٹا کو مارکیٹنگ کے لیے استعمال کرتی ہیں جن میں فیس بک بھی شامل ہے بلکہ امریکی الیکشن میں تو باقاعدہ ڈیٹا استعمال کرنے کا الزام بھی لگا تھا۔ آپ نے بھی شاید نوٹ کیا ہو کہ آپ گوگل پر جو چیز سرچ کریں، واٹس ایپ یا فیس بک میسج میں کسی سے کوئی چیز خریدنے کی بات کریں یہاں تک کہ فون کالز پر ایسی کوئی بات کریں تو کچھ ہی دیر میں آپ کو سوشل میڈیا پر اس کے اشتہارات نظر آنے لگتے ہیں۔ یہ ٹیکنالوجی اتنی جدید ہو چکی ہے اور ہم اس قدر نگرانی میں ہیں کہ اگر آپ کوئی ایپلی کیشن استعمال نہ کر رہے ہوں بلکہ سرے سے موبائل ہی استعمال نہ کر رہے ہوں تب بھی آپ کی گفتگو ریکارڈ کر کے فلٹر کی جا رہی ہوتی ہے۔ آپ کسی دوست سے بات کر رہے ہوں اور موبائل فون قریب ہی رکھا ہو تواس وقت بھی موبائل کے ذریعے آپ کی گفتگو فلٹر ہوتی ہے اور آپ کو اس سے متعلقہ اشتہارات نظر آنے لگتے ہیں۔ انٹرنیٹ اور جدید ٹیکنالوجی کی وجہ سے دنیا گلوبل ولیج بن چکی ہے لیکن اس گلوبل ویلج میں ہم سب پر ماسی مصیبتے اور اس کی پھڈے باز بیٹی پینو کی اتنی ہی نظر ہے جتنی کسی گاؤں میں ہوتی ہے۔

فیس بک سمیت کسی بھی ایسے میڈیم پر اس قسم کے بیانات لکھنا بے وقوفی کے سوا کچھ نہیں ہے کیونکہ ہم ان جدید ایپلی کیشنز اور ٹیکنالوجی کواستعمال کرتے وقت ہی اپنے ہاتھ کاٹ کر ان کے حوالے کر چکے ہیں۔ ایسا بھی نہیں کہ کہیں کوئی شخص بیٹھا ہیڈ فون لگائے ہماری گفتگو سنتا ہے کیونکہ کروڑوں صارفین کی گفتگو سننا ممکن نہیں ہے۔ یہ سب جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے فلٹر ہوتا ہے۔ میری پی ایچ ڈی کی ریسرچ کا موضوع ڈیجیٹل میڈیا ہے، میں نے سوچا مجھے ڈیجیٹل میڈیا سے متعلقہ کورسز بھی کر لینے چاہیے تو یہ سلسلہ بھی شروع ہو گیا۔ فیس بک مارکیٹنگ کے ایک کورس میں مجھے معلوم ہوا کہ اپنا اشتہار دکھانے کے لیے اتنے ڈیٹا فلٹرز لگائے جا سکتے ہیں کہ آپ کا اشتہار آپ کے اصل کلائنٹ تک پہنچ جاتا ہے۔ یہاں ملک، شہر، علاقے، مزاج، کاروبار، دلچسپی سمیت ایسے کئی ڈیٹا فلٹر ہیں۔ یہ سارا ڈیٹا فیس بک ہی فلٹر کرتا ہے، ہم صرف بتاتے ہیں کہ ہمیں اپنا اشتہار دکھانے کے لیے کس طرح کا کسٹمر چاہیے۔ اسی طرح کراچی میں مجھے ایک ایسی کمپنی مل گئی تھی جو پاکستان میں اپنی نوعیت کی واحد کمپنی ہے۔ وہاں پتا لگا کہ دنیا میں 6 ایسی کمپنیز ہیں جن کے پاس اس حد تک فلٹر کی سہولت اور ڈیٹا ہے کہ اگر آپ نے دس ہیلی کاپٹر بیچنے ہوں تو وہ صرف دس کنفرم افراد کو آپ کا اشتہار دکھا کردس ہیلی کاپٹر بیچ دیں گے۔ ان کے پاس ٹرانزکشنز سے لے کرہر طرح کا ڈیٹا فلٹر کرنے کا سسٹم موجود ہے۔ ان میں سے صرف تین کمپنیز نے پاکستان کے لیے سروسز اوپن کیں لیکن انہیں لگا کہ یہاں مارکیٹنگ کے بجائے فراڈ زیادہ اور ایکسپرٹ مارکیٹر کم ہیں۔ اب صرف ایک کمپنی پاکستان کو سروسز دے رہی ہے اور ممکن ہے وہ بھی پاکستان میں سروسز بند کر دے کیونکہ پاکستان میں چند ہزار لے کر فیس بک ایڈ لگانے کو ہی ڈیجیٹل مارکیٹنگ سمجھا جاتا ہے اور ان اشتہارات سے شاید ہی کسی کو کسٹمر مل سکا ہو کیونکہ اس کے لیے سٹریٹیجی بنانے کی تکنیک نہ تو اشتہار لگانے والے کو معلوم ہوتی ہے اور نہ ہی کمپنی مالک اس کے لیے پیسے خرچنا چاہتا ہے۔

اگر آپ کوئی مشہور شخصیت نہیں ہیں۔ اگر آپ کو امریکا، برطانیہ، کینیڈا، روس یا کسی اور ایسے ملک میں اپنے رشتے داروں اور چند سوشل میڈیا کے دوستوں کے سوا کوئی قابل ذکر بندہ نہیں جانتا تو پریشان نہ ہوں۔ آپ گلوبل ولیج کی ”پینو“ کے لیے اس حقہ پیتے بابے سے زیادہ اہم نہیں جس نے جلد ہی کھانس کھانس کر مر جانا ہے اور وہ اپنی ”منجی“ تک محدود ہے۔ سوشل میڈیا ایک آٹو سسٹم کے تحت آپ کا ڈیٹا فلٹر کرتا ہے اور اس کے مطابق آپ کی دلچسپی کی پوسٹیں، پیجز اور اشتہارات آپ کے سامنے لاتا ہے ورنہ کروڑوں لوگوں کے اس میڈیم پر آپ کو جن کی پوسٹیں نظر آئیں ان کی زبان سمجھ میں نہ آئے، اس نے اس سسٹم کے تحت اپنی ریاستی تقسیم کر رکھی ہے۔ آپ کو چیچوکی ملیاں میں وہ ماسکو کے اشتہارات نہیں دکھاتا البتہ جو ایپلی کیشن جاسوسی کے لیے استعمال ہوتی ہیں یا رقم کے بدلے ڈیٹا بیچتی ہیں وہ ضرور آپ کا ڈیٹا استعمال کر سکتی ہیں۔ ایسی ایپلی کیشن بھی موجود ہیں جو آپ کی ذاتی تصاویر اور ویڈیوز بلیک ویب پر بیچ دیتی ہیں، ہوٹلز کسٹمرز کا ڈیٹا تو پہلے ہی لیک ہو چکا ہے اس لیے احتیاط آپ پر بھی لازم ہے۔ سوشل میڈیا پر بیانات کاپی پیسٹ کرنے کا کوئی فائدہ نہیں لیکن ایپلی کیشن ڈاؤن لوڈ کرتے وقت یہ فیصلہ آپ نے کرنا ہے کہ اسے کس حد تک رسائی دینی چاہیے اور اس ایپلی کیشن کی”ٹرم اینڈ کنڈیشن“ کیا ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

بشکریہ نئی بات

Facebook Comments

سيد بدر سعید
سب ایڈیٹر/فیچر رائیٹر: نوائے وقت گروپ ، سکرپٹ رائیٹر ، جوائنٹ سیکرٹری: پنجاب یونین آف جرنلسٹ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply