جو سُکھ چوبارے۔۔ڈاکٹر اظہر وحید

وہ انسان جو اس دنیا کو محدود سمجھتا ہے اور مابعد کو لامحدود، جو اس عرصہ حیات کو ستم کی آماجگاہ سمجھتا ہے اور ممات اور مابعد الممات کو کرم کا جہاں سمجھتا ہے، جو اس حیاتِ بشری کو فسانہ ہجر جانتا ہے اور بعد از ممات کو وصل کی گھڑی تصور کرتا ہے، وہ بشریت کے اس دکھ سے نجات کا کوئی راستہ ضرور تلاش کرتا ہے۔ گوتم بدھ سے لے کر بلھے شاہ تک حق سچ کے سب کھوجیوں نے نجات کا راستہ تلاش کیا ہے۔ یہ عجب راستہ ہے اور عجیب منزل ہے۔ ہر کھوجی کا سفر اور اندازِ سفر گو جدا جدا تھا لیکن نتیجہ سفر یکساں تھا۔ الگ الگ راستوں پر سفر کرنے والے جب چوٹی پر پہنچے تو خود کو بھی جان لیا اور ایک دوسرے کو بھی پہچان لیا۔ عجیب تر بات یہ بھی تھی کہ خود کو پہچاننا اور خدا کو پہچاننا ہم معنی نکلا۔ جو خدا کو ڈھونڈنے نکلا وہ اپنے آپ تک پہنچا اور جو خود کو پہچاننے کے سفر پر نکلا وہ بھی انجامِ کار خدا کا پہچانی ٹھہرا۔
صاحبو! بحیثیت مسلمان ہمیں حدیثِ جبریل سے معلوم ہوا کہ اپنے رب پر یقین کے تین درجے ہیں— اسلام ، ایمان اور احسان۔ اسلام اور ایمان کے بارے میں سب جانتے تھے اور سب جانتے ہیں۔ درجہ احسان کے متعلق یہ بتایا گیا کہ تُو اپنے رب کی یوں عبادت کرے جیسے تو اسے دیکھ رہا ہے۔ گویا احسان کا تعلق جاننے اور ماننے سے زیادہ پہچاننے سے ہے۔ احسان مشاہدے کا درجہ ہے۔ درجہ احسان پر فائز مومن شاہد کا درجہ رکھتا ہے۔ عینی شاہد کی گواہی معتبر ہوتی ہے۔ یہ روشنی، یہ نور محسنین کے پاس ہے۔ روشنی سے روشنی روشن تر ہوتی ہے، یوں دیے سے دیا جلتا ہے، نُور علیٰ نُور والا معاملہ طے ہوتا ہے اور چراغ سے چراغاں ہوتا چلا جاتا ہے۔
اسلام پہلی منزل ہے، ایمان دوسری منزل اور احسان تیسری منزل— احسان کے چوبارے کا الگ نظارہ ہے۔ یہاں سکھ چین کا نقارہ ہے۔ یہاں صبح مسا سکون، امن اور آشتی کی نوبت بجتی ہے۔ یہاں روحوں سے مخاطب ہوا جاتا ہے، زمینی اور جسمانی کثافتیں کسی ذکر میں نہیں ہیں۔ یوں بھی جہاں لطافت کی مجلس ہو وہاں کثافت کا کیا تذکرہ؟ وفا کے تکیے پر جفا کا کیا ذکر؟ جب پیا گھر آئے تو گھڑیال کی ٹک ٹک ختم ہو گئی— زمان اور مکان کے فاصلے سمٹ گئے، یہاں اور وہاں، نوری اور خاکی یعنی عین اور غین کی گویا ایک ہی صورت بن گئی۔
پہلی اور دوسری منزل پر من و تُو کے جھگڑے ہیں، مناظرے ہیں، مناقشے ہیں اور مجادلے ہیں— لیکن تیسری منزل پر، مشاہدے کی منزل پر، سب جھگڑے خاموش— مجادلے کو مشاہدے سے ہی
خاموش کرایا جا سکتا ہے۔ دلیل کے جواب میں دلیل کی کوئی حد نہیں ہوتی۔ اگر اس دنیا میں دلیل کافی ہوتی تو اب تک سب جھگڑے ختم ہو چکے ہوتے۔ احسان کی منزل پر پہنچتے ہیں خاموشی واجب ہو جاتی ہے۔ گویا خاموشی گویائی پر نثار ہو جاتی ہے۔ جنہیں ہم پہنچے ہوئے شمار کرتے ہیں، شاید اسی منزلِ احسان پر پہنچے ہوتے ہیں۔
سکھ چین کے اس چوبارے میں سکون کے آسن بیٹھے لوگ سکون بانٹنے پر مامور ہیں۔ یہ اپنا پرایا نہیں دیکھتے۔ بلاتفریقِ مذہب و ملّت دولتِ سکون عام کرتے ہیں۔ سخاوت مانگنے پر ہے، بقدرِ طلب ہے، بقدرِ استحقاق ہے لیکن یہ لوگ جواد ابنِ جواد ہیں، استحقاق کا میزان ہاتھ میں لیے بغیر دان کرتے ہیں، کہیں داتا کہلاتے ہیں، کہیں بابا اور کہیں غریب نواز!!
مرشدی حضرت واصف علی واصفؒ فرماتے ہیں: ”عقیدے کی پختگی اِختلافِ عقیدہ کی برداشت کا نام ہے۔ ناپختہ عقیدہ چھوٹے برتن کی طرح جلدگرم ہو جاتا ہے۔ سب سے قوی عقیدہ اُس ذاتِ گرامی کا ہے، جو کائنات کے ہر اِنسان کے لیے رحمت کا پیغامبر ہے۔ سلام ہو اُس ذاتﷺ پر، جو سب کی سلامتی کی خواہاں ہے، جس نے کسی کے لیے بددُعا نہیں کی، جو ہر زخم کے لیے مرہم ہے، جو ہر دِل سے پیار فرماتی ہے، جس کے پاس شفقتوں کے خزانے ہیں، جس نے کم ظرفوں کو عالی ظرف بنایا، جس نے اِختلاف برداشت نہ کرنے والوں کو صبر و اِستقامت کی منزلیں عطا فرمائیں۔ بلند عقیدہ بلند دروازوں کی طرح آنے والوں کے استقبال میں کشادہ رہتا ہے۔ محبت نہ ہو تو عقیدہ بلند نہیں ہو سکتا، اور محبت نفرت کی ضد ہے۔ عقیدوں سے نفرت اِنسانوں سے نفرت ہے، اور انسانوں سے نفرت خالق کی محبت سے محروم کر دیتی ہے۔ اِس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ سب عقائد درست ہیں، قطعاً نہیں۔ درست عقیدے والا نا درست عقائد کو محبت سے بدل دیتا ہے۔ نفرت اور غصّہ عقیدوں کی اِصلاح نہیں کر سکتے۔ جس دِل میں نفرت پرورش پائے، وہ خود عقیدے سے محروم ہو جاتا ہے“۔
واپس چوبارے کی طرف چلتے ہیں۔ جب ہم چوبارے کا نظارہ کرتے ہیں تو آس پاس نظر آنے والے چوبارے سب ایک جیسے ہی نظر آتے ہیں۔ ممکن ہے ہر کسی کی سیڑھی الگ ہو، زمینی اور درمیانی منزل کے مناظر مختلف ہوں لیکن جونہی نگاہ بلند ہوتی ہے تو آسمان دکھائی دیتا ہے— اور آسمان پر سورج ہو یا بادل، مسجد اور مندر میں تفریق کیے بغیر روشنی، زندگی اور سایہ فراہم کرتا ہے۔ ممکن ہے اس چوبارے کو جانے والی سیڑھیاں الگ الگ ہوں لیکن ہمیں اپنی سیڑھی اور اپنی پہلی منزل کے ساتھ ہی مخلص ہونا ہے۔ پہلی منزل کے بغیر دوسری منزل اور دوسری کے بغیر تیسری منزل کا قیام جس طرح ایک قصہ سفاہت ہے، اسی طرح فرائض کے بغیر نوافل اور شریعت کے بغیر طریقت کا خیال ایک بحثِ لاحاصل ہے۔
صاحبو! ”علموں بس کریں او یار“ کہنے کے لیے بڑا علم چاہیے ہوتا ہے۔ بابا بلھے شاہ جیسے کھلے ڈلے عاشق کی حیاتِ عصری کا مطالعہ کریں تو معلوم ہو گا کہ انہوں نے عربی، فارسی اور شریعت کا علم مولانا حافظ غلام مرتضیٰؒ سے حاصل کیا، فلاں مدرسے میں اتنے برس قیام کیا، دورہ حدیث اور حفظِ قران کیا — یہاں تک کہ علم کا متلاشی اپنے سائیں کی نظرِ عنایت سے خود علم کا سرچشمہ بن گیا۔ دید کے سامنے شنید کی اب ضرورت نہ رہی۔ حریمِ ناز میں پہنچے تو چون و چرا کی گنجائش نہ رہی۔ بلھا اپنے حبیب کی بارگاہ میں محوِ دید ہے، وہ یہاں کسی ترجمہ وتشریح کو ایک دخل در معقولات سمجھتا ہے۔ بلّھا ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم کی تصویر بنا ہوا ہے۔ اس کے لیے زمان و مکان کی طنابیں کھینچ دی گئی ہیں، اس کا حال ہمہ حال ہے، ماضی اور مستقبل سے آزاد ہمہ حال — بس ایک نقطہ— جس میں ساری گل مک گئی۔
بلھے کے چوبارے کا نظارہ کرنے کے لیے اسی راستے پر چلنا پڑے گا جس پر بلّھے شاہ ساری عمر گامزن تھا۔ بلھے کا دن اور عرس منانے سے وہ راستہ طے نہیں ہونے لگا۔ ہمارے بابا جی حضرت واصف علی واصفؒ فرمایا کرتے ”صرف بزرگوں کی یاد منانے سے بزرگوں کا فیض نہیں ملتا، بزرگوں کے بتائے ہوئے راستے پر چلنے سے بات بنتی ہے“ بلھے شاہؒ کا راستہ کیا ہے، بلھے شاہ کا راستہ اپنی نفی کا راستہ ہے۔ نفی سے اثبات کا راستہ ہے— جبکہ ہم اثبات سے نفی کی طرف چل رہے ہیں۔ بلھے شاہ کے مقام و منزل کی جستجو کے باب میں یہ کارِ محال ہے۔ فارسی محاورہ اور مصرع شاید ہمارے لیے ہی وضع کیا گیا تھا۔
این خیال است و محال است وجنوں
بلّھے شاہ نے ’سٹیٹس کو‘ کے ساتھ سمجھوتا نہیں کیا۔ بلھے شاہ عام عوام کا نمائندہ تھا، تاریخ گواہ ہے، اشرافیہ کے ساتھ اس کا اٹھنا بیٹھا ہرگز نہ تھا۔ سیاسی اشرافیہ ہو یا مذہبی اشرافیہ وہ ہر دو سے بیزار تھا۔ وہ اشرافیہ میں پیدا ہوا، سید خاندان کا سپوت تھا، ذات پات کے پالنے میں پلنے والی معاشرت میں اسے پیدائشی فوقیت حاصل تھی، لیکن وہ اس فوقیت سے دستبردار ہو جاتا ہے۔ بلھے شاہ ’سٹیٹس کو‘ کے ساتھ کبھی کھڑا نہیں ہوا۔ آج اگر بلّھے شاہ بنفسِ نفیس ہمارے درمیان موجود ہوتا تو دل پر ہاتھ رکھ کر سوچیے کہ وہ کس طرف کھڑا ہوتا۔
سچ آکھاں تے بھانبھڑ مچدا ہے

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply