• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • جائزۂ لسانیاتِ ہند اور مابعد۔۔۔حافظ صفوان محمد

جائزۂ لسانیاتِ ہند اور مابعد۔۔۔حافظ صفوان محمد

Linguistic Survey of India جس کا ترجمہ ’’جائزۂ لسانیاتِ ہند‘‘ اور مخفف LSI استعمال کیا جاتا ہے، برطانوی راج میں ہندوستان میں کیا جانے والا ایک بڑا سروے پراجیکٹ تھا جس پر ہندوستانی سول سروس کے افسر سر جارج ابراہام گریئرسن کی نگرانی میں کام کیا گیا۔ سر گریئرسن نے 27 ستمبر 1886 کو ویانا میں منعقد ہونے والی ستائیسویں انٹرنیشنل اورینٹل کانگریس میں شرکت کی جہاں سے اُنھیں LSI کا خیال آیا۔ ویانا سے واپسی پر اُنھوں نے حکومتِ ہند کو ہندوستان کی زبانوں کے جائزے کی تجویز پیش کی جسے پہلے پہل رد کر دیا گیا تاہم اُن کے اصرار اور حکومت کو قائل کرنے پر کہ یہ سروے سرکاری اہلکاروں کے پہلے سے موجود نیٹ ورک کی مدد سے بہت مناسب اَخراجات میں مکمل کیا جاسکتا ہے، حکومت نے 1891 میں اِس کی منظوری دے دی۔ یہ پراجیکٹ 1898 میں شروع ہوا اور اِس کی رپورٹ کی پہلی جلد 1919 میں اور آخری 1928 میں شائع ہوئی۔ 19 حصوں پر محیط 11 جلدوں پر مشتمل یہ لسانی جائزہ 231 زبانوں اور 544 بولیوں (Dialects) کے مطالعے کو سموئے ہوئے ہے جس میں 364 ہندوستانی زبانوں اور بولیوں کا تفصیلی سروے ہے۔ 1921 کی مردم شماری کے مطابق ہندوستان میں 188 زبانیں رائج تھیں البتہ بولیوں کی گنتی نہیں کی جاسکی تھی۔
سر گریئرسن نے یہ پراجیکٹ گورنمنٹ کے افسران، یورپین اور ہندوستانی مشنریوں اور عوام کی مدد سے مکمل کیا اور اپنے سروے کی تکمیل میں ماہرینِ صرف و نحو، ماہرینِ لغت اور ماہرینِ لسانیات کی کتب اور علمیت سے استفادہ کیا۔ لگ بھگ 30 سال تک جاری رہنے والے اِس سروے کا ایک آن لائن سرچ ایبل ڈیٹا بیس بھی دستیاب ہے جس میں اصل پبلیکیشن کے ہر لفظ کا اقتباس ہے اور ساتھ ساتھ ساؤنڈ آرکائیو میں اس کی گراموفون ریکارڈنگ بھی موجود ہے جس میں فونولوجی کا ریکارڈ ررکھا گیا ہے۔
جلدوں کی فہرست
اِس عظیم لسانی منصوبے کی رپورٹ کی 19 حصوں پر محیط 11 جلدوں کی تفصیل یہ ہے:
پہلی جلد: پہلا حصہ: تعارف؛ دوسرا حصہ: ہندوستانی زبانوں کا تقابلی ذخیرہ الفاظ۔
دوسری جلد: جنوبی ایشیائی زبانیں(Mon–Khmer) اور تائی زبانوں کے خاندان۔
تیسری جلد: پہلا حصہ: ہمالیائی اور تبتی لہجے اور شمالی آسام گروپس؛ دوسرا حصہ: تبتی- برمن (Tibeto-Burman) زبانوں کے بوڈو-ناگا اور کوچین گروپس؛ تیسرا حصہ: تبتی-برمن زبانوں کے کوکی-چن (Kuki-Chin) اور برما گروپس۔
چوتھی جلد:منڈا اور دراوڑی زبانیں۔
پانچویں جلد: ہند آریائی زبانیں (مشرقی گروپ): پہلا حصہ: بنگالی-آسامی؛ دوسرا حصہ: بہاری زبانیں اور اڑیہ زبان۔
چھٹی جلد: انڈو-آریائی زبانیں وسطی گروپ (مشرقی ہندی)
ساتویں جلد: انڈو-آریائی زبانیں، جنوبی گروپ (مراٹھی زبان)
آٹھویں جلد: انڈو-آریائی زبانیں، شمال-مغربی گروپ۔ پہلا حصہ: سندھی اور لہندا زبانیں؛ دوسرا حصہ: داردی یا پساچا(Pisacha) زبانیں (بشمول کشمیری)
نویں جلد: انڈو-آریائی زبانیں، مرکزی گروپ؛ پہلا حصہ: مغربی ہندی اور پنجابی؛ دوسرا حصہ: راجستھانی اور گجراتی؛ تیسرا حصہ: بھل(Bhil ) زبانیں، بشمول خاندیسی (Khandesi)، بنجاری(Banjari) یا لابھانی(Labhani)، بہروپیا(Bahrupia) وغیرہ؛ چوتھا حصہ: پہاڑی زبانیں اور گوجری۔
دسویں جلد: ایرانی زبانیں۔
گیارھویں جلد: خانہ بدوش زبانیں اور ضمیمے۔

Vol-1: Part-1: Introductory; Part-2: Comparative Vocabulary
Vol-2: Mon-Khmer and Siamese-Chinese Families (Including Khassi and Tai)
Vol-3: Tibeto-Burman Family: Part-1: Tibeto-Burman Languages of Tibet dialects, The Hamalian dialects and north Assam groups; Part-2: Bodo-Naga and Kachin groups of the Tibet-Burman Languages.; Part-3: Kuki-Chin and Burma groups of the Tibet-Burman Languages.
Vol-4: Munda and Dravidian Languages.
Vol-5: Indo-Aryan Family, (Eastern group): Part-1: Bengali and Assamese Languages.; Part-2: Bihari and Oriya Languages.
Vol-6: Indo-Aryan Family, Mediate group (Eastern Hindi)
Vol-7: Indo-Aryan Family, Southern group (Marathi)
Vol-8: Indo-Aryan Family, North Western group: Part-1: Sindi and Lehnda; Part-2: Dradvic or Pisacha Languages (Including Kashmiri).
Vol-9: Indo-Aryan Family, Central group.: Part-1: Western Hindi and Punjabi; Part-2: Rajasthani and Gujrati.; Part-3: Bhil Languages, (Including Khandesi, Banjari or Labhani, Bahrupia etc); Part-4: Pahari Languages and Gujuri.
Vol-10: Eranian Familiy.
Vol-11: Gipsy Languages and Suppliment.
سروے کے کام کے باقاعدہ آغاز کے بارے میں سر گریئرسن نے اپنی تالیف کے دیباچے میں درج ذیل الفاظ لکھے:
I was entrusted with the task of collecting the specimens and of editing them for the press. With the object, the various local officers were instructed to render me the necessary assistance.
متعدد ایشیائی زبانوں پر مباحث کو جامع لسانی جائزے کے تحت سمیٹنے اور خاص طور پر اردو/ ہندوستانی زبان پر تحقیق کی وجہ سے گریئرسن کی اہمیت درجِ ذیل اعتبار سے مستند ہے :
1: گریئرسن نے لسانی جائزے کی صورت میں آئندہ ماہرینِ لسانیات کے لیے مباحث کے نئے سلسلے کا آغاز کر دیا۔ جہاں اس کے بیانات سے استفادہ کیا گیا وہیں پر کئی اختلافی نظریات نے بھی جنم لیا۔ مثلًا گریئرسن کی تشکیل کردہ زبانوں کی شجرہ بندی کے حوالے سے بیشتر ماہرین نے اختلاف کیا۔ البتہ دلچسپی کی بات ہے کہ کسی نے بھی اپنے اختلافی موقف کی دلیل میں نیا مواد پیش نہیں کیا۔ اپنے دلائل کی سند میں قریبًا سبھی ماہرین گریئرسن ہی کے جمع کردہ ذخیرۂ الفاظ کو کام میں لائے۔ وجہ اِس امر کی یہی ہے کہ گریئرسن نے نصف صدی تک گوشۂ گمنامی میں رہ کر LSI کی شکل میں ہندوستانی زبانوں کے الفاظ کا ایسا نادر ذخیرہ پیش کر دیا جو بے مثل ہے۔ آج تک دنیا کے کسی بھی فرد نے تنہا اور بنا سرکاری امداد اِتنا بڑا علمی و تحقیقی کارنامہ انجام نہیں دیا۔ علمِ السنہ اور لسانیات کے نئے نئے آفاق کی بازیابی کے حوالے سے گریئرسن کا لسانی جائزہ بنیادی اہمیت کا حامل ہے۔ علاوہ ازیں متعدد ماہرینِ لسانیات: ڈاکٹر شوکت سبز واری، پروفیسر حافظ محمود شیرانی، سنیتی کمار چیٹر جی، سید احتشام حسین اور دیگر کئی علما نے گریئرسن کے اخذ کردہ نتائج پر تفصیلی محاکمے تحریر کیے۔ گویا گریئرسن کا لسانی جائزہ نہ صرف اپنے تئیں جامعیت رکھتا ہے بلکہ جدید لسانی مباحث و نظریات کی آفرینش کا موجب بھی ہے۔
2: اردو/ ہندوستانی کے مختلف ناموں اور بول چال کے نمونوں کو پیش کرنے کے حوالے سے گریئرسن کا کارنامہ قابلِ ستائش ہے۔ اُس نے دہلی کے مختلف محلوں اور طبقات کی زبانوں کے نمونے دیے ہیں۔ قبل ازیں اِس طرح کے نمونے سوائے انشاء اللہ خاں انشاء کی دریائے لطافت کے کہیں اور دستیاب نہیں۔ اِس حوالے سے گریئرسن نے خاصے وسیع پیمانے پر تحقیق کی۔ اردو کے مختلف ناموں اور ذیلی بولیوں کے ضمن میں LSI سے ایک اقتباس درجِ ذیل ہے:
The earliest writers on India (such as Terry and Frayer) called the current language of India ‘Indostan’. In the earlier part of the eighteenth century writers alluded in Latin to the Lingua Indostanica, Hindustanica, Hondostanica. The earliest English writers in India called the language, ‘Moors’, and it appears to be Gilchrist who about 1787 first coined the word ‘Hindostani’ or, as he spelt it, ‘Hindoostanee’.
Literary Hindostani, as distinct from vernacular Hindostani, is current, in various forms, as the language of polite society, and as a Lingua Franca over the whole of India proper. It is also a language of literature, both poetical and prose.
3: LSI جیسے اہم، محنت طلب اور طویل دورانیے کو محیط ایک وسیع لسانی و تحقیقی منصوبے کو خود حکومتِ ہند جیسا ادارہ بھی سرکاری سطح پر انجام دے سکتا تھا مگر اِس حوالے سے گریئرسن کی مساعی حیران کن ہیں۔ ابتدا میں اگرچہ اِس کام میں اُسے حکومتی سرپرستی کے علاوہ دیگر ماہرین کا تعاون بھی حاصل رہا مگر اِس کے باوجود 1903 میں واپس انگلستان جاکر اُس نے مزید حکومتی و افرادی امداد سے معذرت کرتے ہوئے تنہا اپنی ذاتی پنشن کے سہارے لندن سے 30 میل دور ایک بستی کے ایک چھوٹے سے گھر میں اِس کام کو جاری رکھا اور پایۂ تکمیل تک پہنچایا۔
گریئرسن کی باریک بیں نگاہوں نے نہ صرف مختلف بولیوں کے مابین ساختیاتی فرق کو جانچا بلکہ ایک ہی بولی کے متعدد لہجوں میں باریک فرق کو بھی عوام کے سامنے بے نقاب کیا۔ مختلف و متعدد زبانوں اور بولیوں کے قواعد معلوم کیے۔ مختلف زبانوں کے مشترکہ الفاظ ڈھونڈ کر اُن کا باہمی تعلق دریافت کیا اور تلفظ پوچھ پوچھ کر نوکِ زدِ قلم کیا۔ اِس سلسلے میں اُس نے تیس لاکھ انہتر ہزار چار سو ستر 3069470 سندھی بولنے والے لوگوں اور ستر لاکھ بانوے ہزار سات سو اکیاسی 7092781 لہندا زبان بولنے والے افراد سے ملاقاتیں کیں۔ ہر زبان کے مآخذ معلوم کرنے کے لیے حدودِ اربعہ متعین کیا۔ زبانوں کو سمجھنے کے لیے تاریخی پس منظر کا مطالعہ کیا اور ہر حملہ آور کی زبان کے الفاظ کے ا ثر و نفوذ کا تجزیہ کیا۔ ہر بولی اور زبان کے ریکارڈ تیار کیے، نقشے اور جدولیں بھی شامل کیں۔ حد یہ کہ بعض ایسی بولیوں کا ذکر بھی کر دیا جنھیں صرف گنتی کے چند افراد ہی بولتے تھے۔
4: جائزہ لسانیاتِ ہند کی لسانی اہمیت سے قطعِ نظر گریئرسن کے اِس کارنامے کی اہمیت کتابیاتی نقطۂ نظر سے بھی ہے۔ اُس نے اردو زبان کی ساخت، صرف و نحو، لغات اور ادب پر اپنے زمانے کی شائع شدہ کتابوں کی تفصیلی فہرست بھی دے دی ہے۔
سر گریئرسن نے لسانی جائزے کی تکمیل کے بعد بھی لسانی مطالعہ و تحقیق پر کام جاری رکھتے ہوئے اپنے سابقہ اخذ کردہ نتائج میں ترمیم کی۔ اِس سروے رپورٹ پر اُنھیں کئی یونیورسٹیوں نے ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگریاں دیں اور برطانوی حکومت نے 1928 میں آرڈر آف میرٹ (Order Of Merit) دیا۔
اردو زبان کی ابتدا کے بارے میں گریئرسن کے خیالات میں یکسر تبدیلی آئی۔ ہارنلے اور دیگر اہلِ علم سے متاثر ہوکر اُس نے 1880 میں اردو کو ملی جلی زبان بتایا تھا۔ لکھتا ہے:
اردو قواعد اور فرہنگِ الفاظ کے لحاظ سے مخلوط، عام اور مشترک زبان ہے۔ اِس میں شامل ہندوستان کی مقامی بولیوں کے علاوہ عربی، فارسی، ترکی، تیلگو زبان کے الفاظ شامل ہیں۔ اِس کے صرفی نحوی قواعد نے شمالی ہند کی عام بولیوں سے خوشہ چینی کی ہے۔ اِس لیے یہ کہنا ممکن نہیں کہ وہ کسی ایک مخصوص اور معین زبان سے ترقی پاکر بنی ہے۔ (ترجمہ: ڈاکٹر شوکت سبزواری)
البتہ 1900 کے قریب ہندوستان کا لسانیاتی جائزہ لیتے وقت اردو کی ابتدا کے حوالے اپنے اِس تصور کے نادرست ہونے کا اعتراف کرتے ہوئے اُس نے اپنی رائے سے رجوع کیا اور اردو کو بالائی دو آبے اور مغربی روہیل کھنڈ کی ہندوستانی پر مبنی قرار دیتے ہوئے لکھا:
It will be noticed that this account of Hindostani and its Origin differs widely from that which has been given hitherto by most authors (including the present writer), which was based on Mir Amman’s preface to the ‘Bagh o Bahar’. According to him Urdu was a mongrel mixture of the languages of the various tribes who flocked to the Delhi bazar. The explanation given above was first put forward by Sir Charles Lyall in the year 1880, and the Linguistic Survey has shown the entire correctness of his view. Hindostani is simply the vernacular of the Upper Doab and western Rohilkhund, on which a certain amount of literary polish has been bestowed, and from which a few rustic idioms have been excluded.
اردو کی ابتدا کے بارے میں گریئرسن کی یہ رائے LSI کے دوران کیے سائنسی مطالعے کا نتیجہ ہے اور صحیح ہے۔ پہلی رائے تاثراتی تھی اور درست نہ تھی جس سے رجوع کرکے اُس نے مثال قائم کی۔

ہندوستان میں LSI کے بعد میں ہونے والے لسانی سروے
LSI کےبعد 1984 میں ہندوستان میں دوسرا لسانی سروے ہوا۔ یہ سروے لینگوئج ڈویژن آف آفس آف دی رجسٹرار جنرل اینڈ سنسس کمشنر آف انڈیا کی ہدایات کے تحت ہوا۔ یہ پراجیکٹ ابھی جاری ہے۔ اِس کے تحت 2010 کے آخر تک صرف 40 فیصد سروے مکمل ہوا ہے۔ اِس سروے کے مقاصد محدود ہیں اور اِس کا مقصد گریئرسن کے بعد ہونے والی لسانی تبدیلیوں کی صورتِ حال کو دیکھنا ہے۔ بہت سے ماہرینِ لسانیات نے اِس سروے پر علمی تنقید کی ہے۔ اُن کی بیشتر تنقید اُس طریقِ کار پر ہے جو گریئرسن نے اپنایا تھا، کہ اِس طریقِ کار کی غلطیاں پھر دوہرائی جا رہی ہیں۔ موجودہ پراجیکٹ میں بھی حکومتی اہلکاروں اور زبانوں کے مقامی استادوں کی مدد سے ڈیٹا جمع کیا جا رہا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ڈیٹا جمع کرنے کے لیے ایسے لوگ ہونے چاہییں جو اِس سے متعلق نہ ہوں۔
بھارت کی 1991 کی مردم شماری کے مطابق گرامر کے الگ الگ ڈھانچے(سٹرکچر) کے ساتھ ملک میں 1576 مادری زبانیں ہیں۔ 1796 زبانوں کو دیگر مادری زبانوں کی درجہ بندی میں رکھا گیا ہے۔بھارت میں بہت سے حلقے ایک مکمل اور لسانی جائزے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ گریئرسن نے جو لسانی سروے کرایا تھا اُس میں غیر تربیت یافتہ عملہ استعمال کیا تھا۔ اُس میں سابقہ برما یا موجودہ میانمار، سابقہ مدراس یا موجودہ چینائی اور نوابی ریاستوں حیدر آباد اور میسور کو نظر انداز کیا گیا تھا، اِس وجہ سے جائزہ لسانیاتِ ہند میں اِن ریاستوں کو کم نمائندگی ملی تھی۔
بھارتی حکومت نے لسانی سروے کو پھیلانے اور اِس میں تبدیلی کا اعلان کیا جس کے لیے گیارھویں پنچسالہ منصوبے (2007-2012) میں اِس پراجیکٹ کے لیے2 ارب 80 کروڑ روپے کی رقم مختص کی گئی۔ اِس منصوبے کو دو حصوں میں تقسیم کیاگیا۔ ایک حصہ تو بھارت کے نئے لسانی سروے سے متعلق تھا اور دوسرا حصہ کم بولی جانے والی چھوٹی اور خطرے سے دوچار زبانوں کے سروے کے حوالے سے تھا۔ میسور میں قائم سنٹرل انسٹی ٹیوٹ آف انڈین لینگوئجز اور ادایا نارایانا سنگھ (Udaya Narayana Singh)کی زیرِ ہدایت اِس پراجیکٹ میں 54 یونیورسٹیوں، 2000 تفتیش کاروں (انویسٹی گیٹرز) اور 10 ہزار ماہرینِ لسانیات کے ساتھ دس سال تک جاری رہنا تھا۔
2010 کے ٹائمز آف انڈیا کے ایک مضمون میں بتایا گیا کہ مندرجۂ بالا پراجیکٹ ختم کر دیا گیا ہے اور اِس کے بجائے ایک نیا پراجیکٹ شروع کیا گیا ہے۔ یہ سروے گریئرسن کے LSI کی طرح تھا۔ اِسے پیپلز لینگوئسٹک سروے آف انڈیا یا پی ایل ایس آئی کا نام دیا گیا اور اِسے بھاشا ریسرچ اینڈ پبلی کیشنز سنٹر نامی این جی او کی سرپرستی میں شروع کیا گیا جس کے چیئر پرسن گنیش این ڈیوی تھے۔ یہ پراجیکٹ ہمالیائی زبانوں کے سروے سے شروع ہوگا۔ اطلاعات کے مطابق یہ سروے بھی کھٹائی میں پڑنے کا امکان ہے کیونکہ حکومت اِس میں پوری طرح دلچسپی نہیں لے رہی۔

Advertisements
julia rana solicitors

سروے کا طریقہ اور تنقید
گریئرسن نے حکومتی مشینری اور افسران کی مدد سے سارے ہندوستان سے ڈیٹا جمع کیا۔ اُس نے مختلف فارم اور رہنمائی کا مواد ترتیب دیا تاکہ حکومتی افسران اُن کی مدد سے ڈیٹا جمع کرسکیں۔ اِس جمع کیے ہوئے ڈیٹا میں بہت سے مسائل تھے جن میں سے ایک اہم مسئلہ ڈیٹا کی جمع آوری میں یکسانیت (uniformity) کی کمی تھا اور یہ سمجھنے میں ابہام سے پاک (clarity of understanding)نہیں تھا۔ ایک افسر نے اپنی مشکلات کا ذکر کرتے ہوئے لکھا کہ اُسے ایک گھر سے زبان کا نام تک لکھنے میں بہت مشکل پیش آئی۔ انٹرویو دینے والے اپنی ذات کے بعد اپنی زبان بتاتے۔ یہ ڈیٹا آج تک سیاسی مقاصد کےلیے بھی استعمال ہو رہا ہے۔ گریئرسن کے بیان کیے ہوئے نقشوں اور اُن کی سرحدوں کو سیاسی گروپس ریاستی شناخت حاصل کرنے کے لیے استعمال کرتے رہتے ہیں۔
٭٭٭
تحریر: ۱۷/ نومبر ۲۰۱۹ء
تشکر:
اِس تعارفی ابتدائی مضمون کی تیاری میں اردو میں لسانی تحقیق، اردو لسانیات، وکیپیڈیا، نیز ڈاکٹر جاوید مجید کی کتابیںColonialism and Knowledge in Grierson’s Linguistic Survey of India اور Nation and Region in Grierson’s Linguistic Survey of India اور اِن پر ڈاکٹر طارق رحمان کے تبصرے (www.bloomsburypakistan.org؛ 4 نومبر 2019) سے آزادانہ استفادہ کیا گیا ہے اِس لیے حواشی کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی۔

Facebook Comments

حافظ صفوان محمد
مصنف، ادیب، لغت نویس

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply