دامن کو ذرا دیکھ ذرا بند قبا دیکھ/محمد ہاشم خان

سوال یہ ہے کہ سعودی حکومت ایسا کون سا غلط کام کرتی ہے جو آپ نہیں کرتے؟
بات صحیح اور غلط کی نہیں ہے؛ بات یہ ہے کہ وہ خوش حال ہیں اور ہم مفلوک الحال ہیں۔ ہمیں ان کی جنسی آسودگی، مالی فراغت، سہولیات کی فراوانی اور مثالی زندگی سے بیر ہے۔ ان کے پاس پیسہ ہے، آسائشیں ہیں، عیاشیاں ہیں اور حرمین شریفین ہیں۔ عیاشیاں زیادہ کیں تو حرمین شریفین چلے گئے اور نیکیاں زیادہ ہوئیں تو دبئی، بحرین اور یورپ و امریکہ چلے گئے۔ ان کے یہاں گناہ و ثواب دونوں ایک دووسرے کو خط راس پر قطع کرتے ہیں۔ وہ خیر و شر سے آمیز اگر مثالی نہیں تو کم از کم حتیٰ الوسع ایک متوازن زندگی جی رہے ہیں۔ یعنی کہ ان کے پاس زندگی ہے اور ہمارے پاس؟ ہمارے پاس محرومیاں اور ناکامیاں ہیں،گالیاں اور رسوائیاں ہیں۔تو ان کا ذمہ دار کون ہے؟ یہ جو دنیا بھر کی محرومیاں ہمارے اندر خیمہ زن ہیں تو انہیں کس نے سینت سینت کر جمع رکھا اور کس نے پال پوس کر جوان کیا؟ سعودی عرب نے؟ یہ جو ہم ہندوستان میں اپنی مجبوریوں کا عذر پیش کرتے رہتے ہیں تو اس عذر کو جواز کس نے بخشا ہے؟ آل سعود نے؟ یہ جو ہم جنسی محرومی کی گیلی لکڑی پر سلگ رہے ہیں، ارزانی کی آگ میں جھلس رہے ہیں اور بے وزنی کے بحران میں جل رہے ہیں تو اس کا ذمہ دار کون ہے؟ محمد بن سلمان ذمہ دار ہے؟
اچھا یہ سب جو کچھ وہ کر رہے ہیں، یہ عیاشیاں یہ زناکاریاں، یہ حرام خوریاں، شراب نوشیاں؛ تو اس میں آپ کا کردار کتنا ہے؟ آپ کے پیسے سے کر رہے ہیں؟ یہ تمام برائیاں وہ آپ کے چندے کے پیسے سے انجوائے کر رہے ہیں؟ شکیرہ کے رقص پر بدمست ہو کر انہوں نے جو ریال کے ریال لٹائے تو کیا وہ آپ کے پیسے تھے یا آپ کی قوم کے پیسے تھے؟ جو کچھ وہ کر رہے ہیں اپنے پیسے سے کر رہے ہیں، ان کی عیاشی میں آپ کے ابا کی کاشت کاری، تجارت، صدقات و عطیات، ٹیکس یا پنشن کا عمل دخل شامل نہیں ہے۔ وہ ایک الگ ملک میں رہتے ہیں، جو کچھ ہے ان کا اپنا ہے سو وہ جیسے بھی خرچ کریں ہمارا مسئلہ نہیں، الا یہ کہ ان کے اعمال ہماری ہلاکت کا براہ راست سبب نہ بن جائیں، ان کی زیست، طرز زیست، اخلاقیات و سلوکیات نہ تو ہمارا موضوع بحث ہونا چاہیئیں اور نہ ہی اپنے غیر مطمئن فاسد ضمیر کے اطمینان کا سامان بنانا چاہئے۔ ‘کل فی فلک یسبحون’ کے مثل سب کو اپنی اپنی دنیاؤں میں تیرنا چاہئے اور اسی کا مکلف ہونا چاہئے۔
جو کچھ اوپر آپ نے پڑھا ہے ان تمام باتوں کے باوجود سعودی عرب کے بعض اقدامات کا دفاع کسی بھی انداز میں نہیں کیا جاسکتا۔ خاص طور پر ان اقدامات کا دفاع تو بالکل بھی نہیں کیا جاسکتا جو شریعت اسلامیہ سے متصادم ہیں۔ بھلے ہی شکیرہ کے کولہوں پر نثار کئے گئے ملین ڈالر فلسطینی عوام کو وقف کئے گئے ہوں، اس فتنہ گر کے رقص کو موزوں قرار نہیں دیا جاسکتا اور خاص طور پر ایک ایسے ماحول میں تو بالکل بھی نہیں جب وہیں آپ کے بغل میں آپ کے کچھ بھائی اپنے بچوں کی لاشیں اٹھائے تدفین کی جگہ تلاش کر رہے ہوں۔ جرم جرم ہے لیکن جب جرم میں بے حسی اور سفاکی شامل ہو تو یہ جرم عظیم بن جاتا ہے۔ شکیرہ کا رقص جرم میں بے حسی کا تڑکا لگانے جیسا تھا۔ گرچہ یہ ان کی اپنی زندگی ہے جس طرح چاہیں گزاریں لیکن جو غلط ہے سو غلط ہے۔ کوئی اگر مگر نہیں، کوئی بلیٰ ولٰکن یا کوئی قیل و قال نہیں۔
میں اپنی تمام تر روشن خیالی کے باوجود نہ تو دہریہ ہو سکتا ہوں اور نہ ہی شیعہ ہوسکتا ہوں۔ میں اپنی تمام تر بشری خامیوں اور خوبیوں کے ساتھ سلفی العقیدہ تھا، ہوں اور انشاء اللہ العزیز رہوں گا۔ بنیادی فرق عقیدے کا ہے وگرنہ دنیاوی اعمال تو سب کے ایک جیسے ہیں۔ کیا شیعہ اور کیا سنی، کیا یہودی اور کیا عیسائی۔ بے ایمان میں بھی ہوں اور بے ایمان تم بھی ہو۔ ظالم و مظلوم یہاں بھی ہیں اور وہاں بھی۔ فاسد و فطین ہر مذہب اور ہر خطے میں ملیں گے۔ سارے انسانی خبائث کم زیادہ کرکے ہر ایک کے اندر پائے جاتے ہیں اور یہی اس کے انسان ہونے کا بنیادی لوازمات ہیں۔ پس سعودی عرب کے ساتھ ہماری انسیت بس اتنی سی ہے کہ ہم یکساں عقیدے کے حامل افراد ہیں۔ نہ وہ ہمارے مکلف ہیں اور نہ ہم ان کے اعمال کے مکلف ہیں، روز حشر ہمارا احتساب ان کے احتساب کے ساتھ مشروط نہیں ہوگا۔سب اپنے اپنے اعمال کے تنہا ذمہ دار ہوں گے۔ اب آپ کے اعمال کیسے ہیں اس پر گفتگو کر لیں تو یہ بنتی ہوئی بات کچھ اور بن جائے گی۔
اب جہاں تک رہی بات آپ کے اعمال کی تو آپ کے اندر وہ تمام خوبیاں ہیں جو ایک شکست خوردہ ذہنی کیفیت جینے والے نفسیاتی مریض میں ہوتی ہیں، جتنا اعتراض آپ سعودی عرب، امریکہ اور ہر اس ملک پر کر لیتے ہیں جن کی دسترس میں آپ نہیں آتے اتنا ہی اعتراض اگر آپ ان لوگوں پر کر دیں جو مفسدات میں ملوث ہیں اور آپ کی دسترس میں بھی ہیں تو وہ لوگ آپ کے مقعد شریف سے صرف گوہ اور خون ہی نہیں انتڑی اور معدہ بھی نکال لیں گے۔ ہندوستان کی مذہبی جماعتوں بالخصوص جمعیۃ العلما ہند کے دونوں دھڑوں کے مشائخ کی نے نوازی، جماعت اسلامی کی رافضیت، تبلیغیوں کی جہالت اور بریلیوں کے پیرانِ پیر کے مزخرفات وغیرہ پر تنقید تو بہت دور کی بات ہے۔
اب چونکہ سعودی عرب رقص و سرود کی محفلیں سجانے میں مصروف ہے، اس لیے میں انتظار کر رہا تھا کہ جماعت اسلامی، جمعیۃ العلما ہند اور تبلیغی جماعت پر مشتمل مشترکہ وفد ایران کے پاس جائے گا اور اسرائیل پر بمباری کے لیے دباو ڈالے گا، یہی وفد ترکی جائے گا اور خلیفہ نو اردوغان کے اوپر بھی پریشر ڈالے گا کہ ایران کی قیادت کو تسلیم کرتے ہوئے اسرائیل پر ٹوٹ پڑو، اسے صفحہ ہستی سے مٹادو، اور اس کے بعد اسرائیل کے براہیمی بھائی سعودی عرب پر چڑھ بیٹھو۔ قبلتین کو یہود و صعود کے تلسط سے آزاد کرادو۔ بیت المقدس رافضیوں کو دے دو اور حرمین شریفین اخوانیوں کو ۔ اور جہاں تک ہماری بات ہے تو ہمارا آپ سے کبھی کوئی اختلاف رہا ہی نہیں ہے، ہم نہ تین میں تھے اور نہ تیرہ میں، ہمارے اور آپ کے عقیدے میں کوئی خاص فرق نہیں ہے، سو ہمیں عقیدہ، ضمیر اور ظرف کچھ بھی فروخت کرنے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ ہم آپ لوگوں کے ساتھ ایڈجسٹ ہوجائیں گے، کوئی قباحت نہیں ہے۔ لیکن افسوس کہ ایسا کچھ نہیں ہوا۔
چلتے چلتے ایک سوال میرا بھی ملاحظہ فرمائیں: ایران نے حماس کی کیسی تربیت کی تھی کہ وہ اپنے بلوں سے باہر ہی نہیں نکل رہے ہیں اور اسرائیلی فوجیوں نے نہ صرف الشفا اسپتال کو زمیں بوس کر دیا ہے بلکہ غزہ میں ہر طرف دندناتے پھر رہے ہیں؟

Advertisements
julia rana solicitors

تصویر کا کیپشن: زیر نظر تصویر میں ایک نوجوان اسرایلی فضائی بمباری میں شہید ہونے والے افراد کی تجہیز و تکفین کے دوران ماتم کر رہا ہے۔

Facebook Comments

محمد ہاشم خان
لوح جہاں پہ حرف مکرر نہیں ہوں میں (مصنف افسانہ نگار و ناقد کے علاوہ روزنامہ ’ہم آپ‘ ممبئی کی ادارتی ٹیم کا سربراہ ہے) http://www.humaapdaily.com/

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply