کیا یہ سب حسن اتفاق ہے ؟/محمد ناصر صدیقی

عین جس وقت امریکہ کا افغانستان سے انخلا ہو رہا ہوتا ہے اور پاکستان کو نئی حکومت کے ساتھ بہتر تعلقات اور خطے کے ساتھ معاشی مفادات کی حفاظت کرنی ہوتی ہے ، عین اس وقت بڑی تبدیلیاں شروع ہو جاتی ہیں۔

پاکستان کی خفیہ ایجنسی کے سربراہ کو ہٹا کر آرمی چیف کا پسندیدہ شخص کو تعینات کرنے کا کہا جاتا ہے۔ جب وزیر اعظم اس پہ  مزاحمت  کرتا ہے تو آئی ایس پی آر میڈیا پہ خود ہی اعلان کر دیتا ہے کہ ندیم انجم آئی ایس آئی چیف منتخب ہو چکے ہیں۔ اس پہ وزیر اعظم آفس فائل کو اپنے پاس رکھتا ہے اور تقریباً ایک ہفتہ تک سائن نہ کر کے آرمی چیف کے پسینے نکال کر سول حکمرانی کا سبق ضرور سکھاتا ہے لیکن اس حرکت کے بعد کسی  مزید پھڈے سے بچنے کےلیے نئے چیف کی تعیناتی پہ راضی ہو جاتا ہے۔

عین جس لمحے پاکستان کا افغانستان میں کلیدی کردار شروع ہوتا ہے پاکستان میں پی ڈی ایم نامی گروہ پھر سے پوری شد و مد کے ساتھ آرمی چیف جنرل باجوہ کی سربراہی میں منتخب حکومت کو گرانے میں مصروف ہو جاتا ہے۔

جس وقت پاکستان خطے کے بڑے کھلاڑی روس اور چین کے ساتھ مل کر افغانستان کو پُرامن اور وسطی ایشیائی ریاستوں کے ساتھ تیز ترین تجارت کے پلان بنا رہا ہوتا ہے تب امریکہ بھارت کی جانب ہاتھ بڑھا رہا ہوتا ہے اور پاکستانی اسٹبلشمنٹ بھی امریکی ایما پہ بھارت کے ساتھ دوستی کی پینگیں بڑھانے کا درس دے رہی ہوتی ہیں ۔

جس وقت پاکستان خطے میں اثرو رسوخ اختیار کر رہا ہوتا ہے اور خطے کی معاشی صورتحال بدلنے والی ہوتی ہے تب پاکستان پہ عرب ممالک اور امریکہ کی جانب سے اسرائیل کو تسلیم کرنے کا دباؤ بڑھنے لگتا ہے کیونکہ روس اور چین کی معاشی پاور کو کاؤنٹر کرنے کےلیے بھارت ، خلیج اور اسرائیل کے درمیان ایک کاریڈور پہ کام کرنے کا منصوبہ بنایا جاتا ہے اور سی پیک نشانہ بننے لگتا ہے۔

جس وقت پاکستان خطے میں کشیدگی اور ممکنہ جنگ کے اثرات سے بچنے کےلیے روس سے سستا تیل اور گندم خریدنے کا پلان بناتا ہے تو پاکستان کی معیشت کو ڈاؤن کرنے کےلیے وزیر اعظم کی ٹانگیں کھینچی جانے لگتی ہیں ۔

جس وقت پاکستان روس یوکرین جنگ میں کسی ایک پلڑے میں قدم رکھنے کے بجائے اپنی معاشی صورتحال بہتر بنانے اور وقت سے فائدہ اٹھانے کے موڈ میں ہوتا ہے تب آرمی چیف جنرل باجوہ خود پاکستان کی خارجہ پالیسی کو بائی پاس کرتے ہوئے روس کے خلاف پریس کانفرنس کھڑکا دیتا ہے۔

جس لمحے پاکستان افغانستان کے ساتھ نئے سٹریٹجک مفادات طے کر رہا ہوتا پے تو وہی جنرل باجوہ اور وہی نیا چیف مل کر پی ڈی ایم جماعتوں اور عدالتوں کے زریعے عمران خان کی حکومت کو گرا دیتے ہیں۔

جس وقت پاکستان کو خطے میں اپنی جغرافیائی پوزیشن کا استعمال کرنا ہوتا ہے اس وقت پاکستان یوکرین کو کچھ ملین ڈالر کا اسلحہ بیچنے لگتا ہے ، بھارت سے ڈیل کر لیتا ہے اور افغانستان کے خلاف محاذ کھول دیتا ہے ۔

جب پاکستانی وزیرخارجہ کو توازن پیدا کرنا ہوتا ہے وہ اس کریٹیکل حالت میں افغانستان کو دہشت گردی کا ذمہ دار قرار دے کر افغانستان میں گھس کر کاروائی کرنے کا بیان جاری کرتا ہے۔

مراد سعید جیسے راہنما دہشتگردی کے خدشے کے تحت آواز اٹھاتے ہیں ، احتجاج کرتے ہیں ، اسلام آباد میں مظاہرہ کرتے ہیں تو ان پہ دہشتگردی کے پرچے کاٹے جاتے ہیں ، میڈیا کو کوریج سے روکا جاتا ہے اور پھر مراد سعید کو مار دینے کے احکامات جاری ہوتے ہیں۔ اس ساری کاروائی کے دوران دو دفعہ عمران خان کی جان لینے کی کوششیں بھی ہوتی ہیں۔

جس وقت پاکستان کے پاس امریکی اتحاد میں اپنی بیس سالہ جنگ کے بعد پھل سمیٹنے کے موقع پاتا ہے ، تب افغان مہاجرین کو زبردستی نکال کر افغان حکومت کے ساتھ محاذ آرائی کی پالیسی چل پڑتی ہے۔

جس وقت پاکستان کو چین جیسی معاشی پاور کی ضرورت پڑتی ہے ، عین اس لمحے امریکی سفیر گوادر میں میڈیا ٹاک کرتے ہوئے پایا جاتا ہے جو چین کےلیے زبردست پیغام ہوتا ہے کہ اب امریکی تسلط قائم ہو چکا ، تم پاکستان سے بوریا بستر گول کرو ۔۔

کیا یہ حسن اتفاق ہے کہ تمام لوازمات پورے ہونے کے بعد اسی عرصے کے دوران بھارت میں جی ٹونٹی کا عالمی اجلاس منعقد ہوتا ہے اور پھر وہاں سے بھارت ، عرب ریاستوں اور اسرائیل کی خطہ بندرگاہوں کے درمیان ایشیا اور یورپ کو ملانے والا دنیا کا سب سے بڑا اکنامک کاریڈور کا اعلان کر دیا جاتا ہے ۔

جس وقت پاکستان کو اپنے ملکی سلامتی اور وقار کےلیے قدم اٹھانے ہوتے ہیں عین اس وقت ملک کی سب سے بڑی پارٹی کو بھرپور طور پہ کچلنے کا آغاز ہو جاتا ہے اور پھر سب سے بڑے لیڈر کو جیل میں ڈالا جاتا ہے اور نواز شریف کو واپس لایا جاتا ہے جو جلسے میں بھارت کے ساتھ تعلقات بہتری کے وعدے کرتا ہے ۔ ادھر بھارت اس دوران پاکستان کو غیر اہم قرار دے چکا ہوتا ہے ۔

کیایہ سب حسن اتفاق ہے ؟ کیا یہ سب بغیر کسی پلاننگ کے ہوا ؟ کیا رجیم چینج آپریشن اور اس کے بعد ایک منظم طریقے سے جو گریٹر گیم کےلیے راہ ہموار ہوئی ، یہ خودبخود ہوتی چلی گئی ؟

ذرا نہیں پورا سوچیے ۔ عمران خان آپ کے نہیں بلکہ خطے کے مفادات کا ضامن ہے ۔ وہ اس آگ کو بجھا سکتا ہے ، پاکستان کو بچا سکتا ہے اور پچیس کروڑ کے مفادات کی حفاظت کر سکتا ہے۔ آٹھ فروری کو آپ کو دوبارہ موقع ملنے والا ہے کہ آپ اس سارے پروسس کو ریورس کر سکیں۔ ریاستی مشینری اپنا زور لگائے گی لیکن آپ نے اپنا لگانا ہے۔ ووٹر ٹرن آؤٹ بڑھا کر ان کو باہر دھکیلا جا سکتا ہے ۔ مایوسی چھوڑیں اور اللہ پہ یقین رکھیں۔ امریکہ اب اسرائیل جنگ میں پھنس چکا ہے۔ اسٹبلشمنٹ کو اب چین ناکوں  چنے چبوا رہا ہے ، معیشت کا برا حال ہوا پڑا ہے۔ یورپ دو جنگوں کے اثرات میں گھل رہا ہے۔ اس حسن اتفاق کے دوران یہ کچھ بڑے سرپرائز ہیں جس سے گریٹر گیم کو سخت نقصان پہنچا ہے۔ اب آٹھ فروری کو آپ نے اس گیم کے بخیے ادھیڑنے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

بشکریہ فیس بک وال

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply